پشاور : افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت میں مصروف ٹرانسپورٹرز کو افغان حکام کے ہاتھوں ہر ماہ بھاری مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس نقصان کی اصل وجہ وہ ٹرک اور کنٹینر ز ہیں جو خالی ہونے کے بعد افغان دارالحکومت کابل سمیت مختلف شہروں میں کئی کئی روز تک یوں ہی کھڑے رہتے ہیں اور حکام انہیں بغیر رشوت جلد واپسی کی اجازت نہیں دیتے۔
نقصان سے بچنے کے لئے ٹرانسپورٹرز نے افغان حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ خالی ٹرک ، کنٹینرز اور دیگر گاڑیوں جلد از جلد پاکستان واپس لیجانے کی اجازت کو ممکن بنائے۔اس حوالے سے خیبر ٹرانسپورٹرز یونین کے صدر شاکر آفریدی نے افغانستان سے ملحقہ قصبے لنڈی کوتل میں پیر کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی مالکان کے تقریباً 2100 ٹرک اور ٹرالر پچھلے کئی دنوں سے افغانستان میں بے کار کھڑے ہیں ۔
ان کے بقول افغان حکام خالی کئے جانے والی مال بردار ٹرکوں اور ٹرالرز کو تاخیر سے واپس لے جانے کی اجازت دیتے ہیں جس سے انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔شاکر آفریدی کے بقول افغان اہلکار رشوت کے طور پر پچاس ہزار روپے لیکر گاڑیوں کو واپس جانےکی اجازت دیتے ہیں ۔
اُنہوں نے کہا کہ کراچی میں سامان لادنے کے بعد معاہدے کے تحت کنٹینرزکو پندرہ یوم کے اندر واپس لیجانا لازمی ہے ۔ مقررہ معیاد کے بعد اُنہیں یومیہ 100 امریکی ڈالر جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔پاکستان میں تعینات ایک افغان سفارت کار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ابھی تک اُنہیں اس قسم کی باضابطہ کوئی شکایت نہیں ملی تاہم اُنہوں نے کہا کہ وہ پاکستانی ٹرانسپورٹرز کے اخباری بیان پر کابل سے رابطہ کرکے مسئلہ حل کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔
شاکرآفریدی نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ ماضی کی طرح دو طرفہ تجارت میں قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے تمام کاروباری افراد کو ویزہ اور پاسپورٹ کی شرائط سے مستثنیٰ کیا جائے کیونکہ ان پابندیوں سے دو طرفہ تجارت پر منفی اثرات پڑتے ہیں ۔ماضی قریب میں دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت کا سالانہ حجم لگ بھگ پانچ ارب امریکی ڈالر تک پہنچ گیا تھا مگر سرحدی پابندیوں اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کے باعث اب یہ تجارت ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہوگئی ہے۔