تحریر: زینب وحید
دبئی۔ کرہ ارض پر جنت نظر ٹکڑا جس پر اگلے 12 دن تک پوری دنیا کی نظریں جمی رہیں گی کیونکہ اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینج کی کانفرنس آف پارٹیز یعنی کاپ 28 اسی حسین سرزمین پر ہو رہی ہے۔ میگا ایونٹ میں 80 ہزار سے زائد مندوبین شرکت کریں گے، 140 سربراہان مملکت اور حکومتی نمائندوں اور 5 ہزار سے زیادہ میڈیا پروفیشنلز کی شرکت بھی متوقع ہے۔ اس دوران دبئی ایکسپو سٹی کاپ 28 کے ہیڈ کوارٹرز کے طور پر کام کرے گا۔ متحدہ عرب امارات مصر کے بعد ماحولیاتی تبدیلی کے عالمی کانفرنس کی میزبانی کرنے والا مشرق وسطیٰ کا دوسرا ملک ہوگا۔
ایک ایسے وقت میں جب دنیا کا ہر ملک ماحولیاتی تبدیلی کی تباہ کن صورتحال سے دو چار ہے اور کرہ ارض کو شدید ماحولیاتی خطرات لاحق ہیں، دنیا کو 2015 کے پیرس معاہدے کے تحت عالمی درجہ حرارت بڑھنے کی شرح صنعتی دور سے پہلی سطح پر یعنی صرف 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تک ہی محدود رکھنے کا سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے۔ اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل پینل آن کلائمنٹ چینج کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات سے بچنے کے لئے 1.5 سینٹی گریڈ درجہ حرارت کا ہدف حاصل کرنا اب ناگزیر ہو چکا ہے۔
دنیا اور خصوصاً کم آمدنی والے ممالک کو کاپ 28 سے بہت توقعات وابستہ ہیں۔ بعض خوش گمان اس کانفرنس سے کسی بڑی پیش رفت کی امید بھی لگائے بیٹھے ہیں۔ کاربن کے اخراج میں کمی اورگلوبل وارمنگ پر قابو پانے کے لیے اقدامات کو مزید تیر کرنا ایجنڈے میں سرفہرست تو ہیں، لیکن ماحولیاتی آلودگی سے متاثرہ ممالک کی مدد سب سے اہم نکتہ ہو گا۔ پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو لاس اینڈ ڈیمج فنڈ کی فعالیت اور کلائمٹ فنانس سرفہرست ہیں۔
اس کانفرنس کے دوران کاپ 27 کے وقت طے پانے والے Loss and Damage Agreement کے تحت جو فنڈ قائم کرنے کے لئے عبوری کمیٹی قائم ہوئی تھی، اُس کے آپریشنل ہونے کے امور کا جائزہ لے کر سفارشات پیش کی جائیں گی۔ اس معاہدے کا مقصد موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سامنا کرنے والے کم آمدنی والے ممالک کی مدد کرنا تھا۔ 2009 میں کاپ 15 کے دوران امیر مالک نے 100 بلین ڈالر کی فنڈنگ کا جو ہدف اور وعدہ کیا تھا، وہ ابھی تک وفا نہیں ہو سکا جبکہ انہی ممالک کی وجہ سے ماحول جو متاثر ہوا ہے، اس کے باعث 200 ملین ڈالر یومیہ نقصان ہو رہا ہے۔ کاپ 27 کے دوران بھی اس حوالے سے جامع حکمت عملی سامنے نہیں آسکی تھی۔ کاپ28 کے نامزد صدر ڈاکٹر سلطان بن احمد الجابر پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ عالمی برادری نے اپنی جو منزل متعین کی ہے، اُس تک پہنچنے کے لئے تمام ممالک کو مل کر چلنا ہوگا۔ گلوبل ساؤتھ کے لیے مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔ ترقی یافتہ ممالک پہلے 100 ارب ڈالر کا وعدہ پورا کریں جو انہوں نے پیریس ایگریمنٹ کے تحت کیا تھا۔ اسی طرح دنیا کو 2030 تک وہ رقم تین گنا کرنے کی ضرورت ہے جو کلین ٹیکنالوجی کی سرمایہ کاری، فنانس اور ابھرتے ہوئے اور ترقی پذیر ممالک میں توانائی کی منصفانہ منتقلی کے لیے دستیاب ہونی ہے۔ درحقیقت فی الوقت کلائمٹ فنانس کہیں دستیاب ہی نہیں یا مستحق ملکوں کے لئے قابل رسائی نہیں۔ آب و ہوا اور ترقی کے دونوں اہداف حاصل کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔
اس حقیقت سے تو کوئی آنکھیں بند ہی نہیں کر سکتا کہ قطب شمالی اور قطب جنوبی دونوں کےلئے کلائمٹ چینج یکساں تباہ کن اور پریشان کن ہے، لیکن مقابلہ کرنے کےلئے وسائل اور طریقہ کار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بے پناہ وسائل اور فنی سہولیات کےباعث امیر ممالک تو مطمئمن ہیں، لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ غریب ممالک کا کوئی پرسان حال نہیں۔ پاکستان کو ہی لے لیجئے۔ ماحولیاتی بگاڑ میں تو پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم، لیکن تباہ کن اثرات سے متاثر ہونے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔ 2022 میں سیلاب نے معشیت کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ تقریباً دو ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے۔ 33 ملین افراد متاثر ہوئے جبکہ زراعت، صنعت، لائیو اسٹاک، انفراسٹرکچر سمیت 30 ارب ڈالر کے نقصانات کا تخمینہ لگایا گیا۔ اس نقصان اور ان نقصانات کی واضح عکاسی نومبر 2023 میں پیش کی گئی آئی ایم ایف کی پبلک انویسٹمنٹ منیجمنٹ اسسمنٹ رپورٹ ہے۔ اس رپورٹ میں یہ خطرناک صورتحال واضح کی گئی ہے کہ سال 2000 سے پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیاں دو ارب ڈالر سالانہ نقصانات کا باعث بن رہی ہیں۔ قدرتی آفات سے ہر سال 500 پاکستانی جاں بحق جبکہ 40 لاکھ متاثر ہو رہے ہیں ۔ موسمیاتی تبدیلیاں زراعت اور انفراسٹرکچر کو تباہ کر رہی ہیں مگر ان سے نمٹنے کےلئے بجٹ انتہائی ناکافی ہے، پاکستان اپنے ترقیاتی بجٹ میں موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق منصوبوں کو ترجیح دے ۔ سال 2022 کے سیلاب سے پاکستان میں تین کروڑ لوگ متاثر ہوئے۔ اگر فوری اقدامات نہ ہوئے تو سال 2050 تک پاکستان کی معیشت قدرتی آفات سے 9 فیصد تک متاثر ہو سکتی ہے۔
یہ حقائق انتہائی سنگین صورتحال کو ظاہر کرتے ہیں۔ پاکستان کی ہی کوششوں سے گذشتہ سال شرم الشیخ میں ہونے والی کانفرنس کے موقع پر موسمیاتی آفات کے نقصانات کی تلافی کا فنڈ (لاس اینڈ ڈیمج فنڈ) قائم کیا گیا تھا۔ پہلی بار پاکستان کی آواز عالمی سطح پر سنی گئی جس میں اُس وقت کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو اور وزیر ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمان کا کردار قابل قدر تھا۔ اگر اس اقدام کا مقصد حاصل ہو جاتا تو یقینی طور پر یہ ایک تاریخی اقدام تھا۔ اس ضمن میں پاکستان اور بنگلہ دیش نے جو مقدمہ پیش کیا۔ اس کا مقصد خیرات حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ کلائمٹ جسٹس یا ماحولیاتی انصاف تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف نے بھی یہی موقف اختیار کرتے ہوئے واضح کیا تھا ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے چیلنج کو قبول کرنا خوش آئند ہے تاہم اس ضمن میں کیے گئے وعدوں کو عملی شکل دینا ضروری ہوگا۔ لاس اینڈ ڈیمج ایجنڈا 30 سال سے زیر بحث تھا جس کی اب تکمیل ہوئی تھی۔ اتفاق رائے ہوا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے ذمہ دار امیر ممالک اس فنڈ میں ایک ارب ڈالر جمع کرائیں گے تاکہ متاثرہ غریب ممالک کو نقصان اور خسارے کی تلافی ہو سکے، لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود بھی امیر ممالک کے دیگر بے شمار ادھورے وعدوں کی طرح یہ بھی سیراب ہی ثابت ہوا۔ آج تک اس فنڈ کی فراہمی کا کوئی طریقہ طے ہو سکا ہے اور نہ ہی فنڈ کے بنیادی خدوخال ہی نہیں بن سکے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ چند دن پہلے امیر ممالک نے نیا پینترا بدلتے ہوئے طے کیا ہے فنڈ عارضی طور پر عالمی بینک میں قائم کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شفافیت کے نام پر اب غریب ممالک کو فنڈز کا اجراء مزید مشکل اور طریقہ کار مزید پیچیدہ ہو جائےگا۔
کم آمدنی والے ممالک کی جانب سے یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ لاس اینڈ ڈیمج فنڈ ورلڈ بینک کے بجائے اقوام متحدہ کے زیر انتظام ہونا چاہیئے کیونکہ عالمی بینک کے پیچیدہ تقاضے پورے کرنے سے رقم کی غریب ممالک کو فراہمی مزید تاخیر کا شکار ہو جائے گی ۔ ابھی تک یہ بھی واضح نہیں کہ فنڈ میں امیر ممالک امدادی رقوم کیسے جمع کرائیں گے اور غریب ممالک کو اپنا حصہ لینے کے لیے کون سی شرائط پوری کرنی ہوں گی۔ پاکستان اور بنگلہ دیش تمام تر کوششیں کے باوجود اس فنڈ کو فعال کرانے میں کوئی پیشرفت نہیں کراسکے ہیں۔ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی سے ہونے والے بے پناہ نقصانات کے ازالے کے لئے امیر ممالک سے فنڈ لینے کی کوششیں پر موقف موثر انداز میں پیش کرنا ہو گا کیونکہ پاکستان جیسے ممالک کیلئے یہ قومی سلامتی کا مسئلہ بن گیا ہے۔ کاپ 28 پاکستان کیلئے امید کی ایک کرن بھی ہے کہ بدستور فائلوں کی زینت بنا رہنے کے بجائے لاس اینڈ ڈیمج فنڈ فعال کرنے کے رہنمائے اصول طے پا جائیں۔ پاکستان کو سیلاب متاثرین کی امداد کے ساتھ ساتھ بحالی اور تعمیر نو کی ضروریات پوری کرنے کے لئے بھی فنڈ دیا جائے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات نتائج اور امیر ممالک کی بے رخی سے بھی غریب ممالک میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ عالمی سطح پر امیر ممالک کے سست ردعمل کے باعث غریب ممالک کی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔
عالمی سطح پر سائنسدان تو پہلے ہی دو ٹوک الفاظ میں واضح کر چکے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی سے جو تباہی پاکستان میں آئی ہے، آنے والے دنوں میں یہ اثرات سرحدوں سے نکل کر دوسرے خطوں تک بھی پہنچ جائیں گے۔ مستقبل قریب ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے فیصلہ کن ہو گا، اس لئے اس مصیبت کا مقابلہ کرنے کےلئے پوری دنیا کو متحد ہو کر کام کرنا ہوگا۔
کاپ 28 کے صدر سمیت اقوام متحدہ کے حکام بھی اعتراف کرتے ہیں کہ تیزی سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے خطرات کے ساتھ روایتی طریقوں سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا، اس لئے عالمی اداروں اور امیر ممالک کو معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک قدم آگے بڑھنا ہو گا۔ امریکا اور یورپ کو سمجھنا ہو گا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور ان کے نتیجے میں رونما ہونے والی آفات سرحدوں کی پابند نہیں۔ ان امیر ممالک کےلئے یہ کہنا بجا بنتا ہے
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
امیدہے کہ اب عالمی درجہ حرارت کو بڑھنے سے روکنے کے بارے میں فیصلے ہو سکیں گے، تاہم ایسا کرنے کے لیے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کافی کمی کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کے مطابق 2030 تک 43 فیصد تک کمی کی ضرورت ہے۔