گزشتہ دنوں لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں ایک تقریب میں مقررین نے ایک بہت ہی اہم موضوع ’موسمی تغیرات کے دنیا پر اثرات‘ کے حوالے سے اظہار خیال کیا مقررین نے اس اہم موضوع پر مفصل روشنی ڈالی اور انتباہ کیا کہ اگر ہم نے اپنے رہنے سہنے کے طریقہ کار کو تبدیل اور موسموں کی تبدیلوں کے حوالے سے خود کو ان کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے پالیسیاں وضع نہ کیں تو مستقبل ہمارے لئے جہاں آگ کے الاؤ (جہنم) کا منظر پیش کرے گا وہیں پانی کی بوند بوند کو ترسنے کے ساتھ غذائی قلت کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ موسمی تبدیلیوں کے انسانی زندگی، معاشرے اور ملکوں پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اس بارے جہاں ماہرین ہمیں انتباہ کرتے رہتے ہیں وہیں اس طرح کے سیمینار معاشرے میں آگاہی فراہم کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں تو دوسری جانب مختلف بین الاقوامی ادارے تحقیقاتی رپورٹیں شائع کر کے ہمیں آنے والے خطرات سے آگا ہ کرتے رہتے ہیں تاکہ ہم پیش بندی کر سکیں اور فطرت کی قوتوں کو اپنے زیر اثر لا کر فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر خطرات سے بچ سکیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق ہماری حکومت، اداروں اور عوام کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ آنے والے برسوں میں انتہائی موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے درجہ حرارت بہت بڑھ جائے گا۔ ایشیائی بحرالکاہل کے بہت سے خطوں میں بارشیں پچاس فیصد تک بڑھ جائیں گی جن سے خطرناک سیلاب آئیں گے۔ فصلوں کی پیداوار میں کمی آئے گی اور غذائی قلت بڑھ جائے گی جس سے خطے کے کروڑوں افراد متاثرہوں گے۔ خاص طور پر پاکستان، افغانستان، تاجکستان اور شمال مغربی چین میں اگلی صدی کے آغاز تک اوسط درجہ حرارت میں 8 ڈگری تک اضافہ ہو جائے گا۔ ایشائی ترقیاتی بینک نے جرمنی کے ایک تحقیقی ادارے کے اشتراک سے جو رپورٹ شائع کی ہے اس میں موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے انسانوں اور حیوانوں پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے اور متنبہ کیا گیا ہے کہ ایشیائی بحرالکاہل کا خطہ جس میں پاکستان اور بھارت بھی واقع ہیں خاص طور پر ان تبدیلیوں کا نشانہ ہو گا۔ یہ پیش گوئی بھی کی گئی ہے کہ خطے کے بیس بڑے شہروں کی دوتہائی آبادی آئندہ چند عشروں میں ماحولیاتی نقصانات کا سامنا کرے گی۔ اس صدی کے اختتام تک جنوبی ایشیا کے کچھ ممالک میں چاول کی پیداوار نصف کے قریب رہ جائے گی۔ چٹانوں کو پہنچنے والے نقصان سے سیاحت اور ماہی گیری کی صنعتیں تباہ ہو جائیں گی۔ درجہ حرارت بڑھنے سے لاکھوں افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔ دوسری
بیماریوں کے علاوہ ملیریا اور ڈینگی کے امراض میں اضافہ ہو گا۔ غذائی قلت، بیماریوں اور دوسرے مسائل کی وجہ سے لوگ اپنے ملکوں سے ہجرت کرنے پر بھی مجبور ہو سکتے ہیں اور ان کا رخ امکانی طور پر آسٹریلیا کی طرف ہو گا۔
دوسری جانب عالمی برادری موسمی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ سے لاحق طویل المدتی خطرات بھانپ چکی ہے۔ ورلڈ واچ انسٹیٹیوٹ اور برطانیہ کے چیف سائینٹفک ایڈوائزر ڈیوڈ کنگ ماحولیات، موسمی تبدیلیوں کو دہشتگردی سے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں اور نیشنل اکیڈمی آف سائنس، آئی پی سی سی اور ورلڈ میٹرولوجیکل ایسوسی ایشن متفق ہیں کہ موسمی تبدیلیوں کے خطرات سے نمٹنے کی ضرورت پر اب کوئی اختلاف نہیں ہے۔ دنیا کی سلامتی کو درپیش خطرات میں موسمی تبدیلی بڑے خطرے کے طور پر ابھری ہے گلوبل وارمنگ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق موسمی تبدیلی کے باعث سیلاب اور خشک سالی میں اضافے کے ساتھ ناقابل اعتبار، متضاد موسم انسانی رہن سہن اور فصلوں کی تباہی کا باعث ہو سکتے ہیں۔ لندن کی انوائرمنٹل جسٹس فاؤنڈیشن کے مطابق دنیا میں 26 ملین افراد موسمی تبدیلیوں کے باعث ہجرت پر مجبور ہوئے اور 2050ء تک 500 سے 600 ملین لوگ مزید ہجرت پر مجبور ہونے کے ساتھ شدید دیگر خطرات سے بھی دوچار ہوں گے۔
بین الا قوامی اداروں کی تحقیقاتی رپورٹس و دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والے معلومات اور تحقیق و جستجو ہمیں بتاتی ہے کہ ہم بے حد درجہ خطرناک پوزیشن میں ہیں اگر ہم نے اس اہم موضوع پر عرق ریزی کرتے ہوئے ماحولیاتی تغیرات میں کمی لانے کے لئے اقدامات نہ اٹھائے تو آئندہ برسوں میں جہاں دنیا کا درجہ حرات بڑھ سکتا ہے وہیں ہم مختلف النوع مشکلات اور مصائب کا شکار ہو سکتے ہیں۔ موسمی تبدیلی، بعض جانوروں کی نسلوں کی معدومیت، زمین کے استعمال میں تبدیلی، اور نامیاتی کھادوں کے باعث پید اہونے والی آلودگی جیسے عوامل سے انسانیت خطرے کے زون میں داخل ہو چکی ہے۔ سائنسدان عالمی حدت میں اضافہ کی بڑی وجہ گرین ہاؤس گیسوں کی بڑی مقدا ر کا فضا میں اخراج قرار دیتے ہیں جبکہ حیاتیاتی ایندھن، قدرتی گیس، کوئلہ، تیل سے توانائی پیدا کرنے کے ماحول پر منفی اثرات انسانی سرگرمیوں سے کئی گنا زیادہ مضر رساں ہیں۔ کوئلہ توانائی کا ایک یونٹ پیدا کرنے میں قدرتی گیس سے 70 فی صد زائد کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں چھوڑ کر ماحول کو تباہ کرتا ہے۔دیگر یہ کہ عوام بھی ماحول کی تباہی میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں جن میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی، جنگلات کے رقبہ میں آگ لگانا، بلند و بالا عمارتیں، برھتی ہوئی آبادی، گاڑیوں کی بہتات شامل ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلیوں سے لاحق خطرات اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں بھی زیر بحث آ چکے ہیں۔ موسمیاتی تغیر و تبدل پر گہری نظر رکھنے والے عالمی ماہرین کے مطابق 1920ء سے عالمی درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے، شمالی علاقوں میں درجہ حرارت میں 1.9 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجہ میں برف پگھلنے سے ڈیم بھر رہے ہیں، نئی جھیلیں بن رہی ہیں اور موسمی تبدیلیوں سے متعلق بین الحکومتی کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی آئی پی سی سی کے مطابق بڑے پیمانے پر پانی ضائع ہو رہا ہے۔۔ پاکستان، بھارت، اور بنگلہ دیش کے 1.4 ارب انسانوں کو سیلاب، زلزلہ کا سامنا ہے، قدرتی آفات سے اپنے بچاؤ کی صلاحیت کی کمی کے باعث پاکستان کی 70 فیصد بھارت کی 82 فیصد اور بنگلہ دیش کی 100 فیصد آبادی متاثر ہو سکتی ہے۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں موسمی تبدیلیوں کے مہلک اثراث چند برسوں سے واضح ہونے کے باوجود اس حساس اور سنگین مسئلہ پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی، اقوام متحدہ نے اپنے ماحولیاتی پروگرام میں 1989ء سے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے جو سمندروں میں پانی کی بلند ہوتی ہوئی سطح کے باعث خطرات سے دوچار ہیں۔ پاکستان کو دو طرح کے سنگین خطرات لاحق ہیں، شمال میں درجہ حرارت میں اضافہ کے باعث گلیشئیر پگھل رہے ہیں تو جنوب میں سمندری پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے، پاکستان عالمی ماحولیاتی معاہدے کے علاوہ بھی کئی ایک ایسے معاہدوں کا حصہ ہے جن کا تعلق ماحولیاتی تبدیلیوں کے اسباب سے نمٹنے سے متعلق ہے۔ 2014ء میں پاکستان نے یورپی یونین کے ساتھ جو جی ایس پی پلس معاہدہ کیا۔ اس کی رو سے پاکستان 27 بین الاقوامی معاہدوں پر عمل درآمد کرنے کا پابند ہے۔ ان میں سات معاہدوں کا تعلق ماحولیات سے ہے۔ پاکستان اگرمستقبل میں ان ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے سنجیدگی سے اقدامات نہیں کرے گا تو اس کے یورپی یونین کے ساتھ تعلقات پر منفی اثر پڑ سکتا ہے جو کہ ظاہر ہے ملک کی معاشی ترقی کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ لہذا ہمیں اس مسئلہ کو اہمیت دینا ہوگی، ہمیں غیر ضروری پختہ تعمیرات کو روکنے کے ساتھ سبزے میں اضافہ کرنا ہے اور جہاں کہیں عمارت بنانا ناگزیر ہو وہاں عمارت کے اندر اور باہر سبزے کا خصوصی طور پر اہتمام کرنا ہو گا۔ ماحولیاتی تبدیلیوں اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں آگاہی مہمات کا آغاز کیا جائے، جو تسلسل کے ساتھ جاری رہنی چاہئیں۔