گزشتہ روز اپنے ہمدم دیرینہ طاہر مسعود گل ایڈووکیٹ کی بیٹی کی شادی کے سلسلہ میں گوجرانوالہ جانا ہوا۔ تقریب میں بچپن کے دوستوں کے ساتھ ملاقات رہی، گپ شپ رہی اور ابلاغ کے لیے خاموشی نے بھی گفتگو کی۔ نہیں معلوم کب سے بچے یا بچیوں کے نام کے ساتھ والد کے نام کا اضافہ شروع ہوا۔ہمارے معاشرے اور روایات میں یہ رواج چند عشروں سے دھر آیا ہے کہ لڑکے اور لڑکی کے نام کے ساتھ والد کا نام آنا شروع ہوا ہے۔ پہلے ایسا نہیں ہوا کرتا تھا۔ البتہ کچھ لوگ خاندانی شناخت ذات وغیرہ لکھوایا کرتے تھے۔ بہرحال میرے خیال میں بیٹیوں کے نام کے ساتھ والد کا نام جب شادی کے بعد تبدیل ہو جایا کرتا ہے جیسے طاہر مسعود گل کی بیٹی طیبہ مسعود شادی کے بعد طیبہ اویس کہلائے گی گو کہ آج کے دور میں تعلیمی اسناد، شناختی کارڈ، پاسپورٹ بلکہ ستاروں کی چال تک بدل جایا کرتی ہے تو بہتر یہی ہے کہ بیٹی کے نام کے ساتھ باپ کے بجائے شوہر کے نام کا اضافہ علم الاعداد یا اور تعلیمی اعتبار سے بھی مشکل ہوتا ہے اور جذباتی اعتبار سے بیٹی باپ کی کیفیت اور حساسیت بھی محسوس کرتی ہے کہ آج طیبہ مسعود آئندہ طیبہ اویس پکاری جائے گی۔ بہرحال رب العزت مقدر اچھے کرے۔
ممکن نہیں عوامی تقریب ہو اور سیاست زیر بحث نہ آئے۔ کبھی بحث عدلیہ کے ججوں کی آڈیوز، بیان حلفی، ویڈیوز اور کبھی جرنیلوں کے اثاثہ جات کی شروع ہو جاتی، کبھی کاروباری لوگوں اور کبھی بیوروکریسی کے لٹیروں کا ذکر ہوا۔ بالآخر علیم خان کے استعفے کا قصہ شروع ہو گیا۔ دراصل یہ استعفیٰ تو اسی دن ہوگیا تھا جس دن گرفتار علیم خان کو سپیکر چودھری پرویز الٰہی نے کہا تھا کہ علیم خان صاحب جب تک آپ گرفتار رہیں گے میں اسمبلی کا اجلاس جاری رکھوں گا۔
علیم خان بنیادی طور پر ایک کاروباری شخصیت ہیں اور سیاست میں اپنے سیاسی شوق کی وجہ سے 2000 میں شامل ہوئے۔ سیاست کے بازار میں لوگ کسی کا کام تو کر دیتے ہیں مگر یہ کاروبار سیاست میںشامل نہیں کرتے۔ علیم خان جیسا کہ بنیادی طور پر کاروباری شخصیت ہیں، سیاست میں آئے اور ایسا ہنگامہ بپا کیا کہ ن لیگ جس کا پیسہ، پیسے کا استعمال اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت مشہور تھی۔ علیم خان کے انتخابات میں حصہ لینے سے ن لیگ نے شور مچا دیا کہ انتخابات میں پیسہ بہت لگایا جا رہا ہے، پیسہ بہایا جا رہا ہے، خصوصاً پی ٹی آئی کے بازار سیاست میں آنے کے بعد جب انہوں نے (علیم خان) انتخابات میں حصہ لیا تو شور بلند ہوا جو کبھی پیپلز پارٹی غریبوں کی پارٹی مچایا کرتی تھی کہ پیسہ اور خفیہ ہاتھ ہمارے مخالفین کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ علیم خان نے انتخابات میں چاروں طرف سے حملہ آوری کی تو ن لیگ کے لوگ پیسہ، ذرائع اور خفیہ ہاتھ کے استعمال کا ماتم بلند کرنے لگے۔ قاف لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئی میں علیم خان کی شمولیت انتہائی قابل ذکر واقعہ ہے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے پی ٹی آئی پر کروڑوں بلکہ اربوں روپے خرچ کیے مگر نیب کی حوالاتیں اور جیل دکھا دی گئی۔ سنا تھا ع نام کی لاٹری نکلی تھی۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر علیم خان بھی ع کے ساتھ ہی شروع ہوتے ہیں۔ ویسے اگر ع میں ہی سب تھا تو آ سے اپنا نام لکھنے والے عا سے لکھتے جیسے آصف نہ سہی تو عاصف سہی۔
دراصل روز اول سے حکمرانی کے لیے بڑے دل اور ظرف کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ گریٹ بھٹو کے دو واقعات پیش خدمت ہیں۔ بھٹو انتخابات جیت چکے تھے لیکن اقتدار ابھی نہیں ملا تھا۔ ایک جگہ گئے جہاں پر کافی لوگ تھے۔ کسی نے بھٹو صاحب سے آٹو گراف مانگا، گریٹ بھٹو نے پین کے لئے اشارہ کیا تو ایک ایم این اے جو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوا تھا، جس کی مقررہ فیس بھی پارٹی فنڈ سے دی گئی تھی، اس نے پین دیتے وقت اس کا کیپ یعنی کور اپنے پاس رکھ لیا۔ پین سے لکھنے کا پروٹوکول ہی یہ تھا کہ اس کی کیپ نب والی سائیڈ سے الٹی طرف لگا دیتے ہیں اور پین کی گرپ لکھنے میں آسانی پیدا کرتی ہے۔ بھٹو صاحب نے پین لیا آٹوگراف دیا، کچھ لوگوں کو کچھ نہ کچھ لکھ کر دیتے رہے بالآخر پین اس ایم این اے کو واپس کر دیا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد مغربی پاکستان میں پاکستان کا اقتدار مل گیا۔ وہ ایم این اے بھی کچھ ایم این اے، ایم پی اے وغیرہ کو ساتھ لے کر وزارت کے لئے لابنگ کرنے لگا۔ گریٹ بھٹو صاحب کے علم میں اس کا نام آیا تو پوچھنے لگے کہ یہ وہی ہے جس نے پین دیتے وقت اس کا کیپ اپنے پاس رکھا تھا؟ تصدیق ہوئی تو کہنے لگے کہ جو اپنے قائد جس کے ٹکٹ پر یہ ایم این اے ہوا جس کی فیس بھی جماعت نے جمع کرائی نہیں دے سکتا، یہ بخیل انسان حلقہ اور محکمہ کے لوگوں پر مسلط نہیں کر سکتا۔ یہ لوگوں کو سہولت رسانی نہیں کرے گا۔
دوسرا واقعہ ہے کہ سندھ میں ایک عوامی اجتماع سے بھٹو صاحب نے خطاب فرمایا۔ ایک نوجوان نے کہا کہ سر! میں بیروزگار ہوں مجھے روزگار چاہئے۔ بھٹو صاحب نے برابر بیٹھے پارٹی سیکرٹری سے پوچھا کہ یہ وہی ہے نا جو یونیورسٹی میں میرے خلاف تقریریں کیا کرتا تھا۔ سیکرٹری نے کہا جی سر یہ وہی ہے۔ بھٹو صاحب نے کہا اس سے درخواست لے لو۔ اس کی درخواست پر اس کو سرکاری نوکری دے دی گئی۔ سیکرٹری نے کہا، سر! یہ تو مخالف ہے؟ بھٹو صاحب کہنے لگے کہ اب میں اقتدار میں ہوں، اس کا بھی عام آدمی کی طرح روزگار کا حق ہے۔ گویا حاکم ذاتی عناد پر کسی کے بنیادی حقوق سے انکار نہیں کر سکتا۔ بہرحال موجود حکمران منصف ہیں نہ دیالو ۔ لہٰذا کاذب اور کمین کبھی بھی کامیاب حاکم نہیں ہو سکتے۔ علیم خان کے استعفیٰ سے پہلے ججز کے خلاف بیان حلفی، آڈیوز، سیاسی پنچھیوں کا واپس اپنی چھتریوںکی طرف اڑان بھرنا تبدیلی کا یوٹرن ہے۔ بقول گوہر بٹ کے جتنے لوگوں نے ق لیگ اور دیگر جماعتیں چھوڑ کر پی ٹی آئی کی طرف پرواز کی۔ ان کو سچا پیار نہیں بلکہ محسن کشی اور منافقت ملی۔ دراصل موجود حکومتی سیٹ اپ کے لئے جتنی بڑی نوٹنکی، تھیٹر اور سیٹ لگایا گیا تھا،(جیسے پاکیزہ فلم کے ’’اس بازار‘‘ کے سیٹ پر 40 لاکھ خرچ آئے) جتنی بڑی فلم تبدیلی کے نام پر لانچ کی گئی تھی۔ اس کا پیک اپ جاری اور اس کے پیک اپ، اس کے سمیٹنے میں اتنا ہی وقت درکار ہو گا۔ دراصل اب الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے، پنچھی اڑ رہے ہیں، لوگ ہوش میں آ رہے ہیں۔ حتیٰ کہ باجوڑ جیسے علاقے میں پی ٹی آئی کے 90 فیصد لوگ مخالف ہو چکے ہیں اب کسی اور کو ووٹ ملے نہ ملے، پی ٹی آئی کو ووٹ نہیں ملے گا۔ علیم خان ایک نام ہے سیاست میں ایک انفرادی مقام ہے اگر بزدار کی جگہ وزیراعلیٰ ہوتے تو پنجاب کا یہ حال نہ ہوتا۔ بھلے شہبازشریف یا مصطفی کھر نہ ہوتے مگر بزدار بھی نہ ہوتے۔ اب اقتدار کی گرہیں کھلنے لگی ہیں۔ علیم خان کا استعفیٰ، ججز کے خلاف بیانات، حکومت کے پھولے ہوئے ہاتھ پاؤں بلکہ اُکھڑے سانس اس بات کی گواہی ہیں کہ پیک اپ جاری ہے۔ جو بھلے مدت پوری کرا دے مگر وہ مدت بھی میاں نواز شریف کے مرہون منت ہو گی مگر حقیقی طور پر حکومت پر لوگوں کا بھروسہ، امید اور اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ اب اقتدار کا باقی رہنا محض الزام کا باقی رہنا ہو گا لہٰذا اب حکومت کی روانگی کی آخری رسومات جاری ہیں کہ کب کیسے مکمل ہوتی ہیں۔ اگلے تین ماہ میں صورتحال واضح ہو جائے گی۔ علیم خان نے تو پھر حکومت پر احسان کر دیا کہ سما ٹی وی لاہور کے بیورو چیف نعیم حنیف، جو پاکستان کے ٹاپ ون بیوروچیف شمار ہوتے ہیں،سے ثاقب نثار کا انٹرویو نشر کرا دیا۔ جو چیف جسٹس رہ چکے مگر عدالت میں جانا بیوقوفی سمجھتے ہیں، کا موقف اپنے چینل پر چلوا دیا۔حافظ نعیم حنیف سخت انٹرویو بھی کر سکتے تھے مگر ہتھ ہولا رکھا۔ تمام صورت حال اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ حکومت کی آخری رسومات جاری ہیں۔