آج سے پچپن برس پہلے کے وہ دن مجھے اب تک یاد ہیں جب میں نے لاہور کے معروف مرکز علم اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں ایف اے میں داخلہ لیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہمارا نظام تعلیم ابھی شدید انحطاط کا شکار نہیں ہوا تھا۔ علم کی پیاس باقی تھی اور صاحبانِ علم کا احترام واجب سمجھا جاتا تھا۔ ’’روشنی ، مزید روشنی ‘‘ کا نصب العین اور چلن ابھی مادیت اور زرپرستی کی سرخ و سفاک آندھیوں کی دست بُرد سے محفوظ اور مامون تھا۔ برانڈرتھ روڈ اور ریلوے روڈ کے عین وسط میں واقع یہ دانشکدہ علم و آگہی کی روشنی بانٹتا تھا۔ کالج کے پرنسپل خواجہ عبدالحیٔ نظم و ضبط اور حسنِ انتظام کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ بڑے رعب داب کے آدمی تھے ۔ ان کے لمبے قد اور دہرے بدن پر انگریزی لباس خوب دھج دکھاتا تھا۔ اساتذہ باقاعدہ اور وقت پر کلاسیں لیتے تھے اور طلبہ کی فلاح و بہبود ان کا مطمع نظر تھا۔ اگر کسی دن کسی استاد کو چھٹی کرنا ہوتی تو ایک دن پہلے کالج کے نوٹس بورڈ پر ان کی جگہ متبادل استاد کو تدریس کی ذمہ داری سونپ دیئے جانے کا اطلاع نامہ چسپاں کر دیا جاتا۔ کالج میں کمال درجے کا ڈسپلن تھا۔ طلبہ کے لیے یونیفارم پہننا لازم تھا۔ یونیفارم پر نیم بیضوی شکل کا لوگو دیکھا جا سکتا تھا۔ جس کی عبارت تھی ’’ڈیوٹی اینڈ آنر‘‘(DUTY & HONOUR)۔ میں نے اپنی اس مادر علمی میں دو سال علم کی تحصیل کی اور ماں سے زیادہ مہربان اساتذہ سے فیض حاصل کیا۔ اس زمانے میں مَیں نے کالج میں جن اساتذہ کو دیکھا یا ان سے پڑھا ان میں سے بعض کے اسما میرے حافظے میں محفوظ ہیں۔ شہرت بخاری، ڈاکٹر اے ڈی ارشد، سلیم احمد صدیقی ، محمد بشیر چٹھہ، پروفیسر خالد بزمی ، پروفیسر احسان الحق، پروفیسر معراج الدین احمد، عبدالحمید ڈار، پروفیسر شیخ عبدالمجید ، پروفیسر محمد علی چودھری ، پروفیسر سندھیلہ (پورا نام یاد نہیں) ، پروفیسر عبداللہ ملک اور محمد حامد۔ ان اساتذہ میں سے بعض کے ساتھ عمر بھر کا تعلق قائم رہا۔ جن اساتذہ سے کالج سے فراغت کے بعد بھی میرا ربط ضبط رہا ان میں پروفیسر معراج الدین احمد، محمد علی چودھری، عبدالحمید ڈار، محمد احسان الحق، پروفیسر خالد بزمی اور محمدحامد کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ اکثر اساتذہ خوش پوش اور خوش گفتار تھے۔ ان کے باوقار لباس پر سیاہ رنگ کی چمکدار قبائے علمی (گاؤن) اور ہی بہار دکھاتی تھی۔ کالج میں اپنے دو سالہ قیام میں یاد نہیں کہ کوئی استاد محترم بغیر سیاہ گاؤن کے کالج کے حدود میں نظر آیا ہو۔ غریب طلبہ کے لیے بک بنک کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس سے محنتی طلبہ کو دو سال کے لیے کورس کی تمام کتابیں مستعار دی جاتی تھیں۔ طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لیے امتحان میں پوزیشن لینے پر انعام کے طور پر معیاری اردو اور انگریزی کتابوں کے تحائف دیے جاتے ۔ ایک بار میں بھی اس انعام سے مشرف ہوا ۔ تین انگریزی کتب کا تحفہ ملا۔ یہ کتابیں اب تک میرے ذاتی کتب خانے میں محفوظ ہیں۔ انھی میں ایک کتاب فلپ کے حتّی کی تصنیف تھی: ’’اسلام اینڈ دی ویسٹ‘‘۔ بڑی عمدہ اور چشم کشا۔ کالج کی لائبریری نہایت عمدہ تھی اور لکڑی کی الماریوں میں سجی کتابیں دل و دماغ کو خوشبو ، نور اور حرارت بخشتی تھیں۔ میں نے تحصیل علم کے دوران اس کتب خانے سے بھرپور استفادہ کیا۔
کالج کی عمارت کا نقشہ کسی بے نظیر ماہر تعمیرات نے تیار کیا تھا۔ کالج کے چاروں کونوں اور وسط میں چار چار خوبصورتی سے ترشے ہوئے مینار تھے جو اوپر سے ہموار تھے۔ ان کے اندر مار پیچ سیڑھیاں بنائی گئی تھیں جو پہلی منزل تک جاتی تھیں۔ یہ پرشکوہ اور عمدہ فنِ تعمیر کی مظہر عمارت دیدہ و دل کو فرحت بخشتی تھی۔ اسلامیہ کالج ۱۸۹۲ء میں لاہور کے بے مثال فلاحی ادارے ’’انجمن حمایت اسلام‘‘ نے قائم کیا تھا اور انجمن کے زیر اہتمام دیگر تنظیموں کی طرح یہ بڑی خوبی سے اپنے علمی مقاصد پورے کرتا رہا۔ تقسیم سے پہلے مسلم یونیورسٹی علیگڑھ کے دوش بدوش یہ کالج بھی مسلم طرز احساس اور تحریکِ آزادی کے ایک محکم مرکزاعصاب کی حیثیت رکھتا تھا۔ کیسے کیسے بے مثل لوگ اس کالج سے بطوراستاد یا طالب علم وابستہ رہے۔ کیا اس ضمن میں علامہ روحی، علامہ عبداللہ یوسف علی، سرتاج عزیز، خواجہ دل محمد، برکت علی قریشی، سید ابوالاعلیٰ مودودی ، حافظ محمود شیرانی، پروفیسر علم الدین سالک ، میرزا ادیب ، نسیم حجازی،
عبدالعزیز خالد، غلام رسول مہر، حمید نظامی، سید ضمیر جعفری ، مولانا عبدالستار خاں نیازی اور جیلانی کامران کے نام اور کام نظر انداز کیے جا سکتے ہیں؟ اقبال اور قائد اعظم جیسے اکابر کا اس مرکز علم و دانش سے کیسا اٹوٹ تعلق رہا۔۔۔ اور پھر اس ادارے پر بھی دیگر تعلیمی اداروں کی طرح ۱۹۷۲ء میں ایک افتاد پڑی ، ایک برق گری یعنی اسے قومیا لیا گیا۔ کالج تو اب بھی قائم ہے، اس کی عمارت اب بھی کھڑی ہے مگر دید و دانش کی لیلیٰ کے محمل کا انتظار کرتے کرتے اس کی آنکھیں پتھرا گئی ہیں!
اسلامیہ کالج کے اساتذہ میں ایک اہم نام جناب محمد حامد کا بھی تھا جو میرے زمانۂ طالب علمی ہی میں وہاں انگریزی کے لیکچرر کی حیثیت سے متعین ہوئے تھے ۔ میں ان کا باقاعدہ طالب علم تو کبھی نہ رہا۔ لیکن زمانۂ طالب علمی میں کم و بیش روزانہ ان کی ایک آدھ جھلکی نظر آجاتی ۔ خوش پوش تھے۔ بدن چھریرا تھا اور چال میں پھرتیلا پن ، تیزی اور تحرک تھا۔ بعد میں جب گاہے گاہے ملاقاتیں رہیں تو انھیں اقبال کے لفظوں میں نرم دم گفتگو ، گرم دم جستجو پایا۔ ایف اے اعلیٰ نمبروں میں پاس کر کے میں دو سال بعد اسلامیہ کالج سول لائنز سے وابستہ ہوا اور وہ پاکستان اکیڈمی کاکول سے منسلک ہو گئے۔ ان کے جوہر اسی زمانے میں کھلے ۔ تحریر و تقریر کا سلسلہ آغاز ہوا۔ اقبال کے فکر و شعر سے انھیں طبعی مناسبت تھی اور تصوف اور اسلام سے گہری وابستگی ۔ فارسی، عربی اور انگریزی سے اچھی آگاہی رکھتے تھے۔ ان کی جو کتابیں بڑی مشہور ہوئیں وہ معنوی اعتبار سے باہم مربوط کہی جا سکتی ہیں۔ وہ ’’امام شامل ‘‘ ہو ’’عثمان دقنہ‘‘ یا ’’افکار اقبال‘‘ تینوں کی بنیادی فکر ایک ہی ہے۔ ’’امام شامل‘‘ اس مجاہد اسلام کی داستانِ جہاد ہے جس نے بائیس برس تک روسی استعمار کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ امام شامل گوریلا طرز جنگ کے ہیرو تھے اور سلسلۂ نقشبندیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ممتاز اقبال شناس حمید احمد خاں نے اقبال سے اپنی ملاقاتوں کا جو دلچسپ اور معلومات افزا احوال لکھا ہے اس میں اقبال کا یہ قول نقل کیا ہے کہ وہ تصوف کے نقشبندیہ سلسلے میں تحرک اور رجائیت کے عناصر دیکھتے تھے۔ غازی امام شامل نے ۱۸۷۱ء میں مدینہ منورہ میں داعیِ اجل کو لبیک کہا اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔ عثمان دقنہ مہدی سوڈانی کے جرنیل تھے۔ عثمان دقنہ اس زمانے میں برطانوی افواج سے برسر جہاد رہے جب برطانیہ کا سورج نصف النہار پر تھا۔ انھیں بیک وقت برطانوی ، مصری ، ہندوستانی اور آسٹریلیائی افواج کے اتحاد چہارگانہ کا بے سروسامانی کے عالم میں مقابلہ کرنا پڑا۔ وہ اور ان کے نہتے مجاہدین تقریباً پندرہ برس تک اس قہرمان قوت کا مقابلہ کرتے رہے۔ اقبال نے زبور عجم کی ایک مشہور غزل میں خرقہ پوش مردانِ حال کا ذکر کرتے ہوئے بڑے لاجواب شعر کہے ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ مردانِ حر دلیل اور اعجازِ بیان پر بھی تکیہ کرتے ہیں اور شمشیرو سناں کے وسیلے سے بھی کلمۃ الحق بلند کرتے ہیں۔ یہ عشاق دراصل ’’بندگانِ حال ‘‘ ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ان کے پیوند لگے خرقوں کے نیچے زرہ چھپی ہوتی ہے!۔
’’افکار اقبال ‘‘ حامد صاحب کی ضخیم کتاب ہے۔ اغلاط سے خالی نہیں مگر مجموعی طور پر اچھا تاثر چھوڑتی ہے کہ اس کے مضامین میں تنوّع اور بیان کا سلیقہ موجود ہے۔ ایک جگہ اقبال کے ایک شعر: در رضایش مرضی حق گم شود /ایں سخن کے باورِ مردم شود، کی وضاحت میں وہ مشہور عارفہ رابعہ بصری کا ایک واقعہ لکھتے ہیں، جس نے ان کی قلب ماہیت کر دی تھی۔ رابعہ ایک کشتی کی مسافر تھیں۔ کبھی اور لوگ بھی اس میں سوار تھے۔ شدید طوفان آیا۔ لوگ چیخ پکار کر رہے تھے اور ایک مسافر تھا کہ چادر اوڑھے اطمینان سے لیٹا تھا۔ رابعہ نے کہا ، تمھیں معلوم نہیں کہ طوفان کس قدر شدید ہے اور کشتی ڈوبنے ہی والی ہے۔ خرقہ پوش بولا اگر خدا کی مرضی کشتی ڈبونے ہی کی ہے تو میں کون ہوں جو اس کی مرضی کے خلاف کچھ کر سکتا ہوں؟ رابعہ کے تحریک دینے پر اُس مردِ حُر نے طوفان کی سمت اپنی چادر کو حرکت دی اور طوفان یک بیک تھم گیا۔ رابعہ اور دیگر مسافروں نے حیرت سے پوچھا: یہ کیسے ممکن ہوا۔ فقیر کا جواب مختصر تھا: ہم نے اپنے ارادے اور مرضی کو اللہ کی مرضی کے لیے چھوڑ دیا ۔ بس اس نے اپنی مرضی کو ہماری مرضی کے لیے ترک کر دیا‘‘۔ بس اس ایک جملے نے رابعہ کی پوری کیمیا بدل ڈالی۔
قارئین کرام! اس سال اکتیس جولائی کو ہمارے محمد حامد جو ایک عرصہ پہلے ڈاکٹر کرنل حامد ہو چکے تھے، عالم بقا کو سدھارے۔ مرحوم نے کئی کتابیں لکھیں، کئی فلاحی ادارے قائم کئے۔ وفات سے پہلے اس مردِ درویش نے فقہ حنفی کی بے مثال کتاب ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ کو کلیۃً انگریزی میں ڈھالا۔ اہلِ نظر جانتے ہیں عالمگیرؒ کے ایما پر تیار ہونے والی یہ بے مثل کتاب آٹھ برس میں مکمل ہوئی تھی اور اسے علما کی ایک جیّد جماعت نے جس میں قاضی محمد حسین جونپوری ، محمد اکرم لاہوری اور سید جلال الدین مچھلی شہری جیسے کئی علما شامل تھے، مدوّن کیا تھا۔ انھی فتاویٰ کا ایک اردو ترجمہ سید امیر علی نے دس جلدوں میں ’’فتاواے ھندیہ‘‘ کے نام سے کیا تھا۔ اس معرکہ آرا کتاب کا مکمل انگریزی ترجمہ اس کوہکن کی قسمت میں لکھا تھا جسے اہل علم کرنل محمد حامد کے نام سے جانتے تھے۔ دیکھیے یہ ترجمہ اشاعت کی روشنی کب دیکھتا ہے۔
گذشتہ روز اقلیم ادب کے اسی زاویہ نشیں درویش کی یاد میں ایک تقریب تھی۔ ان کے چاہنے والوں نے بڑی محبت سے ان کی یادوں کو تازہ کیا۔ فرید پراچہ ، شعیب بن عزیز، میجر آفتاب احمد، سجاد میر، ڈاکٹر خالد حمید شیخ، ڈاکٹر مظہر معین اور اشرف الزماں نے انھیں بھرپور خراج محبت پیش کیا۔ یقین ہے کہ عشق حضورﷺ سے سرشار یہ درویش قصیدۂ بردہ سے محبت کرنے والا یہ خوش فکر مترجم اور جہاد کا داعی ہماری تہ بہ تہ یادوں کی گدڑی میں لعلِ بدخشاں کی طرح ہمیشہ لَو دیتا رہے گا۔ کرنل حامد اس لحاظ سے بھی خوش قسمت تھے کہ انھوں نے سعادت منداولاد کا ورثہ چھوڑا۔ امید ہے ہشام و اویس ان کی فکر کی شمع روشن رکھیں گے اور مرحوم کی طرح اپنے اہلِ وطن کے لیے آسانیاں بانٹتے رہیں گے کہ زندگی کا اصل مقصد لوگوں کے لیے راحت رسانی ہے۔ مخلوق خوش تو خالق خوش!
کرنل ڈاکٹر محمد حامد کی یاد میں
08:41 AM, 30 Nov, 2021