خزانہ کے وفاقی مشیر جناب شوکت ترین نے ایک دلچسپ جملہ کہا ہے کہ " ملک میں مہنگائی یقینا بڑھ رہی ہے لیکن یہ بات درست نہیں کہ غربت میں اضافہ ہو رہا ہے" ۔ ترین صاحب ممتاز ماہر اقتصادیات ہیں۔ یقینا انہوں نے یہ جملہ معیشت کے متعلق تمام اشاریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ادا کیا ہو گا۔ ہم جیسے معیشت سے بے بہرہ لوگوں کے لئے اس جملے کی باریکیاں سمجھنا بڑا مشکل ہے۔ ہم تو اتنا ہی سمجھتے ہیں کہ مہنگائی کا غربت سے نہایت گہرا تعلق ہے۔ جب کھانے پینے کی بنیادی اشیاء ہی پہنچ سے دور ہو جائیں، ادویات کی قیمتیں پانچ گنا بڑھ جائیں، بجلی اور گیس کے بل ادا کرنا مشکل ہو جائے، پٹرول کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگے، دیکھتے دیکھتے روپے کی قدر آدھی رہ جائے ، والدین اپنے بچوں کی فیسیں ادا کرنے میں مشکلات محسوس کرنے لگیں اور عام روزمرہ کی زندگی کے تقاضے پورے کرنا ممکن نہ رہے تو یہ سب کچھ مہنگائی کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن کیا اس مہنگائی کی چکی میں پسنے والے لوگ( خاص طور پر متوسط اور زیریں متوسط طبقہ) غریب نہیں ہو رہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ مہنگائی تو تاریخ کی بلند تریں سطح پر پہنچ جائے اور غربت میں اضافہ نہ ہو؟ اگر ایسا ہی ہے تو عالمی اداروں اور خود پاکستان کے محکمہ شماریات کے مطابق چالیس فیصد سے زیادہ پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے کیوں چلے گئے ہیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ ایک شخص اگر کل تک 50 ہزار روپے کی تنخواہ میں با عزت گزارا کر رہا تھا تو کیا اس مہنگائی کے بعد بھی وہ اپنی عزت نفس بچاتے ہوئے گزر اوقات کر سکتا ہے؟ میں ان کا ذکر نہیں کر رہی جن کی ماہانہ آمدنی صرف بیس پچیس ہزار روپے ہے۔ صرف روپے کی قیمت کم ہو جانے سے پچیس ہزار تنخواہ پانے والے کی آمدنی اب صرف پندرہ ہزار روپے ماہانہ رہ گئی ہے۔ کیا وہ پہلے سے زیادہ غریب نہیں ہو گیا؟ گزشتہ دنوں سٹیٹ بنک آف پاکستان کے گورنر رضا باقر نے بیرون ملک پاکستانیوں کو خوشخبری سنائی تھی کہ "ڈالر ، روپے کے مقابلے میں بہت مہنگا ہو رہا ہے جو آپ کے لئے بہت خوشی کا سبب ہونا چاہیے۔ اس لئے کہ آپ اب بھی پہلے جتنے ڈالر، پونڈ، ریال یا درہم پاکستان اپنے عزیزوں کو بھیجیں گے لیکن انہیں پہلے کے مقابلے میں ڈیڑھ گنا زیادہ روپے ملیں گے" ۔ ظاہر ہے کہ جب سٹیٹ بنک آف پاکستان کے گورنر یہ بات کہہ رہے ہیں تو درست ہی کہہ رہے ہوں گے۔ تاہم اچھا ہوتا کہ وہ وطن واپس آکر پاکستان میں بسنے والوں کو بھی بتا دیتے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں جتنی کمی آئے گی، لوگ اتنے ہی خوشحال ہوں گے۔
رائے عامہ کے جائزے مسلسل ایک اور ہی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے، معیشت پر عوامی اعتماد کا جائزہ لینے والے معروف ریسرچ ادارے، ISPOS نے اپنا ایک سروے جاری کیا ہے جو اسی ماہ (نومبر) میں کرایا گیا۔ اس رپورٹ کو ملک کے تمام نمائندہ اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کیا ہے۔ اس رپورٹ پر ٹاک شوز بھی ہو رہے ہیں۔ ISPOS ہر تین ماہ بعد اس طرح کا ایک سروے شائع کرتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملکی معیشت اور عمومی حکومتی کارکردگی کے حوالے سے عوام کی رائے کیا ہے۔ سروے کے دوران سب سے اہم سوال یہ پوچھا گیا کہ کیا آپ کے خیال میں ملک صحیح سمت میں جا رہا ہے۔ 87 فی صد عوام نے اس سوال کا جواب نفی میں دیا۔ گویا ان کے نزدیک پاکستان درست سمت میں نہیں جا رہا۔ سروے کا کہنا ہے کہ ماضی کے تمام جائزوں کے مقابلے میں یہ تعداد سب سے زیادہ ہے۔ سب سے بڑے مسئلے کے بارے میں پوچھا گیا تو 43 فی صد نے مہنگائی کو مسئلہ نمبر ایک قرار دیا۔ صرف تین ماہ قبل، کرائے گئے سروے کے مطابق مہنگائی کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دینے والوں کی تعداد 26 فیصد تھی۔ گویا تین ماہ کے اندر اندر اس شرح میں 17 فی صد کا اضافہ ہو گیا ہے۔ 14 فیصد عوام نے بے روزگاری کو سب سے سنگین مسئلہ قرار دیا۔ اس سوال کے جواب میں کہ ’’کیا آپ کے نزدیک ملکی معیشت بہتر ہو رہی ہے؟ "۔ 46 فی صد لوگوں نے نفی میں جواب دیا۔ گویا انہوں نے حکومتی وزراء کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی کہ ملکی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے۔ 49 فیصد کا جواب تھا "بس یونہی ہے"(so so) ۔ یعنی انہوں نے عمومی زبان میں کہا کہ بس گزارا ہی ہے۔ ایک سو میں سے صرف 5 افراد نے کہا کہ ملکی معیشت ٹھیک سمت میں جا رہی ہے ۔ ISPOS کے اس" کنزیومر کا نفیڈنس انڈیکس " کے مطابق بہت بھاری اکثریت یعنی 64 فی صد نے کہا کہ ہمیں مستقبل میں بھی معیشت بہتر ہو جانے کی کوئی امید نہیں۔ مختلف سوالات کے جواب دیتے ہوئے5 فیصد عوام ٹیکسوں کے بوجھ، 4 فیصد نے روپے کی قدر میں کمی، 3 فیصد نے بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافے اور 2 فیصد عوام لوڈشیڈنگ سے نالاں ہیں۔ 91 فیصد افراد نے کہا کہ وہ موجودہ حالات میں گاڑی خریدنے یا گھر بنانے کی سکت نہیں رکھتے۔ صورتحال پر عوام کے اعتماد کا گراف ستمبر 2021 میں 38.8 فی صد تھا۔ لیکن تین ماہ میں اس میں خاطر خواہ کمی آئی۔ اب عوامی اعتماد کی شرح 27.3 فی صد ہے۔
ہمارے پڑوس میں چین اور بھارت، کرونا سے بہت زیادہ متاثر ہوئے لیکن وہاں حالات سنبھال لئے گئے۔ آج چین میں عوامی اعتماد کی شرح 72.6 فیصد اور بھارت میں 58.6 فیصد (ہماری نسبت دو گنا زیادہ) ہے۔ عالمی طور پر عوامی اعتماد کی اوسط شرح 48.5 فیصد ہے۔ ہم اس سے تقریبا 21 فیصد نیچے ہیں۔ 85 فیصد پاکستانیوں نے کہا کہ اب وہ اپنی کمائی میں سے بچت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ 88 فی صد بر سر روزگار لوگوں کو خدشہ ہے کہ ان کی نوکری کسی بھی وقت چھن سکتی ہے۔
یہ اعداد و شمار پاکستان اور یہاں بسنے والے 22 کروڑ افراد کی زندگیوں کی کوئی اچھی تصویر پیش نہیں کرتے۔ جب کسی ملک میں بسنے والے افراد کی بھاری تعداد نا مطمئن ہو اور ملکی حالات بالخصوص معیشت پر ان کا اعتماد نہ رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سارا ملک بے یقینی کی لپیٹ میں ہے۔ ان اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ مہنگائی نے عوام کی زندگیوں پر سب سے زیادہ منفی اثرات ڈالے ہیں۔ ہمیں ایک طرف تو یہ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان نے کرونا کی وبا کا سب سے زیادہ عمدگی سے مقابلہ کیا اور ساری دنیا ہماری کارکردگی کی مثال دیتی ہے اور دوسری طرف یہ کہا جاتا ہے کہ کرونا نے ہماری معیشت کو ہلا ڈالا ہے۔ یا پھر سارا ملبہ ماضی کے حکمرانوں کے سر پر ڈال دیا جاتا ہے۔ شاید ہمیں سنجیدگی کے ساتھ اپنی کمزوریوں پر نظر ڈالنے اور اصلاح احوال کی کوئی موثر تدبیر کرنے کی فرصت ہی نہیں۔۔ یا پھر ہم ملک کی تھوڑی بہت بچی کھچی توانائی بھی ایسے کاموں پر ضائع کر رہے ہیں جن کا موجودہ ملکی مسائل کے حل سے دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔ زیاں اپنی جگہ، احساس زیاں بھی جاتا رہے تو اسے المیہ ہی کہا جا سکتا ہے۔