اسلام آباد: فیض آباد دھرنے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے آئی ایس آئی سمیت تمام ایجنسیوں کی رپورٹس مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھرنے میں شریک مظاہرین کو پولیس کا مقابلہ کرنے کے لیے آنسو گیس، لاٹھیاں اور ماسکس کس نے فراہم کیے؟ جبکہ عدالت نے ایک مرتبہ پھر رپورٹس طلب کرلیں ہیں۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے اسلام آباد دھرنے کے نوٹس پر سماعت کی۔ سماعت کے آغاز میں ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود نے عدالت سے استدعا کی کہ اٹارنی جنرل ملک سے باہر ہیں لہٰذا اس کیس کی سماعت منگل تک کے لیے ملتوی کی جائے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کہ جب آپ موجود ہیں تو کیس کو کیوں ملتوی کیا جائے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پولیس اور حساس اداروں کی رپورٹس عدالت میں پیش کر دی گئی ہیں جس پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کی رٹ پورے پاکستان میں ہے، اس کی رپورٹ کہا ہے؟ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ سر بمہر لفافے میں پیش کی گئی ہے۔
جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ اس رپورٹ میں خفیہ رکھنے والی کوئی بات نہیں تو کیا آئی ایس آئی رپورٹ میں کوئی کلاسیفاڈ معلومات ہیں؟جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے آئی ایس آئی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایس آئی خاموش کیوں ہے، ان کا اعلیٰ سطحی نمائندہ عدالت میں کیوں نہیں آیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایس آئی کو ملک کے غریب عوام پیسے دیتے ہیں تاہم ریاست کا تحفظ آئی ایس آئی کی ذمہ داری ہے۔آئی ایس آئی اور آئی بی کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ فیض آباد دھرنے اور اس کے خلاف آپریشن کے بعد کی صورتحال کے پیش نظر ملک کو 14 کروڑ 60 لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ اس دوران ایک بھی ہلاکت نہیں ہوئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل آفس کو موصول ہونے والی رپورٹ میں کسی جانی نقصان کا ذکر نہیں ہے، املاک کا مجموعی طور پر کتنا نقصان ہوا ہے؟ جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ کے مطابق میٹرو بس اور ریسکیو 1122 کی گاڑیوں کو مظاہرین نے نقصان پہنچایا ہے۔جسٹس مشیر عالم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر وفاقی دارالحکومت کو محفوظ نہیں بنایا جاسکتا تو پورے ملک کو کیسے محفوظ بنایا جائے گا۔
انہوں نے استفسار کیا کہ مظاہرے میں موجود جن افراد کے پاس آتش گیر مادہ تھا ان کے خلاف مقدمات درج ہوئے؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ ایسے واقعات میں 27 مقدمات کا اندراج کیا جاچکا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اس ملک کے لوگ بہت شریف ہیں اور شرافت میں مارے جاتے ہیں اور ہم یہ سبق سکھا رہے ہیں کہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے دھرنے کیے جائیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا یہ بھی کہنا تھا کہ مجھے پرواہ نہیں کوئی مجھے کتنی گالیاں دے، اسلام کردار سے پہلے ہے اور میں اسلام اور پاکستان کی بات کرتا رہوں گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پاک فوج اور حکومت کے علیحدہ علیحدہ ہونے کا غلط تاثر پیش کیا جارہا ہے جبکہ حکومت سے فوج الگ نہیں ہے لہٰذا ان کو بدنام نہ کیا جائے کیونکہ فوج کو بدنام کرنے والے اپنے ذاتی ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ میں ایک چینل کا بھی ذکر ہے کیا اب بھری عدالت میں اس چینل کا نام لیا جائے؟ میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے استفسار کیا کہ پاکستانی میڈیا فرقہ واریت، انتہا پسندی اور نفرت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے یا حوصلہ شکنی کرتا ہے؟
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ آزاد میڈیا ملکی ترقی کے لیے ضروری ہے تاہم میڈیا پر گالم گلوچ کی اجازت کسی ملک میں نہیں دی جاتی لہٰذا ٹی وی چینلز کی ذمہ داری ہے کہ تشدد کو ہوا نہ دیں اور اگر میڈیا اپنا قبلہ درست نہیں کرتا تو ہم اسے بھی دیکھ لیں گے۔عدالتِ عظمیٰ نے حکم دیا کہ آج کی سماعت کا حکم نامہ چیمبر میں لکھوائیں گے جبکہ تحریری حکم نامے میں کیس کی آئندہ سماعت کی تاریخ مقرر کی جائے گی۔