اسلام آباد: وفاقی حکومت نے آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل اور اس کے کام پر حکم امتناع جاری کرنے والے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ پر اعتراضات اٹھا دیے ہیں۔
وفاقی حکومت کی جانب سے یہ درخواست آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستوں کے مقدمے میں جمع کروائی ہے جس میں تین ججوں بشمول چیف جسٹس آف پاکستان کی پانچ رکنی بینچ میں شمولیت پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔
وفاقی حکومت نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الااحسن اور جسٹس منیب اختر کی بینچ میں شمولیت پر اعتراض کرتے ہوئے استدعا کی کہ یہ تینوں جج آڈیو لیکس کا مقدمہ نہ سُنیں۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ یہ تینوں جج پانچ رکنی لارجر بینچ میں بیٹھنے سے انکار کر دیں اور آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے لیے نیا بینچ تشکیل دیا جائے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ 26 مئی کو اس ضمن میں ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس پر اٹھائے گئے اعتراضات کو پذیرائی نہیں دی گئی جبکہ انکوائری کمیشن کے سامنے ایک آڈیو مبینہ طور پر چیف جسٹس کی خوش دامن سے متعلق بھی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالتی فیصلوں اور ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق جج اپنے رشتہ داروں کا مقدمہ نہیں سن سکتے اور اسی بنا پر ماضی میں ارسلان افتخار کیس میں چیف جسٹس افتخار چوہدری نے حکومتی اعتراض پر خود کو بینچ سے الگ کر لیا تھا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کے سامنے موجود چند آڈیو لیکس مبینہ طور پر جسٹس اعجاز الااحسن اور جسٹس منیب اختر سے بھی متعلقہ ہیں۔