آج تک کسی معاشرے،ملک یا قوم میں صرف ڈنڈے کے ڈر یا سزا کے خوف سے قانون و قواعد کا احترام نہیں کرایا جا سکا،جانور اگرچہ قدرت کی طرف سے عطا کردہ فطرت خصلت عادت کے پابند ہوتے ہیں اور ان کو صرف ڈنڈے کے زور اور سزا کے خوف سے نظم قدرت کو بدلنے پر مجبور کرکے جنگل کے بادشاہ شیر کو سرکس کا مسخرہ بنا دیا جاتا ہے،مگر انسانوں کی اذہان سازی کی جاتی ہے،قواعد اور ضوابط کا احترام دل میں پیدا کیا جاتا ہے اور انہیں باور کرایا جاتا ہے کہ بے قاعدہ اور بے نظم حیات انسانی نہیں ہو سکتی،انسانی زندگی کا حسن ہی نظم اور ضبط میں ہے،ترقی کے آسمان کو چھونے والی جدید و قدیم اقوام پر عمیق نگاہ دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے جو قوم یا معاشرہ قانونی،اخلاقی،سماجی روایات سے وابستہ رہے ان معاشروں میں گراوٹ آتے آتے بھی کم آئی،قانون ضابطے اور قاعدے کا اگر دل سے احترام نہ ہو تو ڈر اور خوف کی بناء پر اس کی پابندی مشکل ہو جاتی ہے،ہمارے ہاں بھی قانون کیساتھ یہی کچھ ہواہماری حکومتوں نے قواعد و ضوابط کو جینے کا قرینہ بنانے کے بجائے اسے ایک خوفناک روایت میں بدل ڈالا،سب سے بڑا ظلم یہ کہ ادھورا انصاف اور قانون کا جانبدارانہ اور دہرا معیار۔
بالکل ایسے ہی احتساب بھی زندہ،باشعور اور دیانتدار قوموں کا امتیاز رہا،جن اقوام میں قوانین پر بلا امتیاز ، چھوٹے بڑے یا اپنے اور غیر کی تمیز کئے بغیر عمل کیا گیا ان کا وجود تا دیر برقرار رہا،لیکن اگر احتساب کو ہوا بنا دیا جائے،احتسابی قوانین کو انصاف و عدل کے قیام کا ذریعہ بنانے کے بجائے انتقامی ہتھیار بنا لیا جائے،وہاں نہ صرف احتساب مذاق بن جاتا ہے بلکہ قانون کا دل سے احترام بھی عنقا ہو جاتا ہے،احتساب اگر نیک نیتی سے ہو تو اس سے زیادہ معاشرے کو متوازن بنانے کا کوئی قرینہ نہیں لیکن اگر مقصد شرفاء کی پگڑیاں اچھالنا،مخالفین پر عرصہ حیات تنگ کرنا اور اگر کسی زورآور پر ہاتھ ڈالنا مشکل ہو تو اس کے ماتحتوں یا معاونین یا ساتھ کام کرنے والوں کی گردن میں شکنجہ کس دینا ہو تو وہ احتساب نہیں رہتا بلکہ معاشرہ کو حیوانیت کے قریب ترین کر دیتا ہے،یہ زمینی حقیقت ہے کہ ملک خداد داد میں احتساب اول روز سے ہی تماشا بنا ہواہے بلکہ اگر کہا جائے کہ اس کی داغ بیل ڈالنے والے کا مقصد بھی انتقام لینا ہی تھا اور اس کے بعد آنے والے ہر حکمران نے احتساب کو مخالفین کو زیر کرنے یا ان کو سیاسی میدان سے نکال کر خود تا حیات اقتدار میں رہنے کاذریعہ بنائے رکھا،نتیجہ یہ کہ اس قدر ہاؤ ہو کے باوجود ملک سے کرپشن ختم کی جا سکی نہ ان مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچایا جا سکا جو جوش مخالفت میں قائم کئے گئے تھے،دو ہاتھیوں کی اس لڑائی میں ان کے معاونین کے طور پر انتظامی خد مات انجام دینے والے سرکاری افسر بلا وجہ ہی روندے جاتے رہے اور ان کو صرف اس لئے ٹکٹکی پر چڑھایا گیا کہ جس کیس میں سابق حکمرانوں کا احتساب مقصود تھا اس میں ریاست کے نمائندہ کے طور پر وہ شامل رہے،ان کو بھی پکڑ میں لانے کا مقصد ہوتا تھا وعدہ معاف گواہ بنانا ،کہ یہ اہم لوگ کسی منصوبے معاہدے کی تفصیلات سے آگاہ ہوتے اور شکنجے میں لانے کا مطلب ہوتا وہ یہ گواہی دے دیں کہ جو کیا سابق حکمرانوں کے کہنے پر کیا اورزبردستی کے وعدہ معاف گواہ بن کر اپنی دنیا وآخرت تباہ کر لیں ورنہ بھگتیں،نتیجہ یہ نکلا کہ ایک عرصہ سے ملک میں انتظامی معاملات ٹھپ پڑے ہیں بلکہ کوئی انتظامیہ کہیں دکھائی ہی نہیں دیتی،فائلیں ایک میز سے دوسری میز پر جانے تک مہینوں کا سفر طے کرتی ہیں،فوری نوعیت کے معاملات بھی مؤخرپڑے ہیں،خوف کی چادر تنی ہوئی ہے۔
تحریک انصاف حکومت کو بھی اس کا ادراک ہوا تھا،عملی طور پر اس نے صورتحال کو سنبھالا دینے اور نیب قوانین میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ترمیم لانے کی کوشش کی مگر اس کے ساتھ خود احتسابی کو زندہ کرنے کی سعی نہ کی اور دلوں میں بھری نفرت کی آگ پر پانی نہ ڈالا،ان کے خیال میں ن لیگ کیخلاف پیپلز پارٹی اور پیپلز پارٹی کیخلاف ن لیگ نے مقدمات قائم کئے اس لئے حقیقی ہی ہونگے،تفتیش میں ناکامی پر بیوروکریسی کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا اور کیسے کیسے نامور،دیانتدار،محب وطن،فرض شناس،نیک نام بیوروکریٹس کو ملزم سے پہلے مجرم بنا دیا،کئی تو ان میں سے سال ہا سال جرم بیگناہی کی سزا جھیلتے رہے،اب خدا کا شکر ہے موجودہ حکومت جو احتساب کی ڈسی ہوئی ہے کو خیال آیا اور اس نے زمام کار سنبھالتے ہی نیب قوانین میں ترامیم کو متعارف کرا کے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کر کے منظور بھی کرا لیا،نیب ترمیمی بل کے تحت چیئرمین نیب کو تین سالہ مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد ملازمت میں توسیع نہیں دی جا سکے گی،ریمانڈ کی مدت 90 روز سے کم کر کے 14 روز کردی گئی،واضح رہے کہ دہشت گردی کے مقدمات میں اتنا لمبا ریمانڈ لیا جاتا ہے،جوڈیشل ریمانڈ پر بھی کسی ملزم کو14دن کیلئے بھیجا جاتا ہے مگر یہاں احتساب کے مقدمات کی تفتیش کیلئے تین ماہ تک کی پوچھ گچھ ہوئی،ٹیکس معاملات،وفاقی و صوبائی کابینہ کے فیصلوں،اور ترقیاتی منصوبوں کو نیب کے دائرہ کار سے ہی نکال دیا گیا ہے،جو ایک خوش آئند بات ہے۔
یہ کیسا تماشا تھا کہ ٹیکس معاملات میں احتساب نیب کر رہا ہے جس کے تفتیشی افسروں کی اکثریت کو ٹیکس معاملات کی ابجد سے واقفیت نہیں،اگر کوئی ٹیکس چوری میں ملوث ہے تو قابل گردن زدنی ہے مگر تفتیش اور منصفانہ غیر جانبدارانہ تفتیش اس کا بھی حق ہے،اور جس تفتیشی کو ٹیکس معاملات سے شد بد ہی نہ ہو وہ کیا تفتیش کرے گا،اس لئے حکومت کا یہ اقدام مبنی بر انصاف ہے،ٹیکس معاملات کو سلجھانے کیلئے پہلے سے ادارے اور قوانین موجود ہیں ان پر عملدرآمد کر کے بھی نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں اور اگر ان میں کوئی خامی ہے تو قانون سازی کر کے دور کی جا سکتی ہے،آئین کے مطابق پارلیمنٹ سپریم ترین ادارہ ہے،لیکن یہ کیسا مذاق تھا کہ اس کے فیصلوں کو نیب میں بطور جرم پیش کیا جا سکتا تھا،جس ادارہ کو قوم نے منتخب کیا اور ان نمائندوں نے انتظامی امور چلانے کی ذمہ داری جن کو سونپی ان کی کچھ تو توقیر ہونی چاہئیے۔
نیب کے پاس سب سے زیادہ مقدمات ترقیاتی منصوبوں میں گھپلوں کے ہیں،سرکاری خزانے میں بد دیانتی دہرا جرم، ذمہ داروں کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہئے مگر خدارا جنہوں نے سزا دینا ہے ان کو پہلے بتا تو دو ترقیاتی منصوبے کیسے بنتے ہیں،منصوبے کا تخمینہ لگانے والے بھی ماہرین ہوتے ہیں پھر پی سی ون بنتا ہے اور اس کی تیاری کپڑ چھان ہوتی ہے،پی سی ون کی منظوری کے بعد منصوبہ بنتا ہے،ٹینڈر ہوتے ہیں،تعمیر کی جاتی ہے سب ٹیکنیکل کام ہیں اور نیب اس حوالے سے الف ب نہیں جانتی تو اس کے ذریعے تفتیش مذاق نہیں تو کیا ہے، موجودہ ترامیم کے بعد بیوروکریسی کی بھی سانسیں بحال ہوں گی اور لگتا ہے اب بے خوف اور خود احتسابی کے جذبے سے بیوروکریسی ملک اور قوم کی خدمت کا فریضہ انجام دے سکے گی۔