اخباری اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت نے نئے مالی سال کیلئے ہائیر ایجوکیشن کے بجٹ میں کٹوتی کا فیصلہ کیا ہے۔ گزشتہ برس اعلیٰ تعلیم کا سالانہ بجٹ تقریبا 65 ارب روپے تھا۔خبر کے مطابق موجودہ حکومت ارادہ رکھتی ہے کہ اس بجٹ کو کم کر کے تیس ارب روپے سالانہ کیا جائے ۔سادہ الفاظ میں اس کا مطلب ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں پچاس فیصد سے بھی زیادہ کمی کر دی جائے ۔ جب سے یہ خبر سامنے آئی ہے، تعلیمی حلقوں میں تشویش کی ایک شدید لہر دوڑ گئی ہے۔ جامعات کے وائس چانسلر صاحبان ، اساتذہ، ماہرین تعلیم اور دیگرمتعلقہ سٹیک ہولڈرں میں اس حوالے سے اضطرب پایا جاتا ہے۔سب کو پریشانی ہے کہ اتنے کم بجٹ کے ساتھ تعلیمی ادارے کس طرح گزارہ کرینگے؟یونیورسٹی اساتذہ کی تنظیم فپواسا (FAPUASA) نے بجٹ کٹوتی کی صورت میں حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاج کا عندیہ دیا ہے۔ فپواساپنجاب چیپٹر کے صدر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اظہر نعیم کا کہنا ہے کہ تیس ارب روپے بجٹ کے ساتھ سرکاری جامعات کے لئے اپنا وجود برقرار رکھنا بے حد مشکل ہو جائے گا۔بجٹ میں کمی کے باعث لامحالہ بہت سے تعلیمی ادارے بند ہو جائیں گے۔ جامعات کو بہت سے پروگرامز بند کرنا پڑیں گے۔اساتذہ کو نوکریوں سے فارغ کرنا پڑے گا۔ بہ امر مجبوری طالب علموں کی فیسوں میں اضافہ کرنا پڑے گا۔کانفرنسوں اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کیلئے عطا ہونے والے وظائف روکنا پڑیں گے۔ تحقیقی پروجیکٹس بند کرنا پڑیں گے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ سب اقدامات شعبہ اعلی تعلیم کی تباہی کا باعث ہوں گے۔ وفاقی وزیر برائے پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ احسن اقبال نے اس خبر کی تردید کی ہے۔ اسے مضحکہ خیر قرار دیا ہے۔ اپنے ٹویٹر پیغام میں ان کا کہنا ہے کہ میں تمام وائس چانسلروں اور شہریوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی فنڈنگ کی حفاظت کرینگے۔ ہائیر ایجوکیشن کے بجٹ میں کسی قسم کی کٹوتی زیر غور نہیں ہے۔ اللہ کرے کہ احسن اقبال صاحب کی بات درست ہو۔ امید ہے کہ چند دن میں صورتحال واضح ہو جائے گی ۔
جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے تو ہم بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان میں شعبہ تعلیم کی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ان ستر برسوں میں ہم نے سکول ایجوکیشن پر کامل توجہ دی اور نہ ہی ہائیر ایجوکیشن پر۔ دستور پاکستان کا آرٹیکل 25-A ریاست کو پابند کرتا ہے کہ پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کی جائے۔ ہم اس شق پر آج تک عمل نہیں کر سکے۔ آج تک ہم پرائمری ایجوکیشن کا سو فیصد ہدف تک حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ آج بھی اسکول میں داخل ہونے کی عمر کے حامل اڑھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ سرکاری سکولوں کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ کہیں اساتذہ کی تربیت کا معاملہ ہے اور کہیں انتظامی ڈھانچے کی خستہ حالی کا۔ کہیں نصاب تعلیم کا معاملہ درپیش ہے اور کہیں نظام تعلیم کا۔ دوسری طرف اعلیٰ تعلیم کا حال بھی اچھا نہیں ۔ کہیں معیار تعلیم کا مسئلہ ہے اور کہیں بجٹ کی کمی کا ۔ کہیں ناقص تحقیق کا معاملہ ہے اور کہیں غیر معیاری درس و تدریس کا۔اس ضمن میں فنڈنگ یا بجٹ کا پہلو ہمیشہ سے زیر بحث رہا ہے۔ برسوں سے ماہرین تعلیم نوحہ کناں ہیں کہ شعبہ تعلیم کے لئے مناسب بجٹ مختص ہونا چاہیے۔ برسوں سے ارباب اختیار اس پہلو کو نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کا ساڑھے تین سالہ دور ہائیر ایجوکیشن کے لئے نہایت برا ثابت ہوا۔ اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں زبردست کٹو تی ہوئی۔ مالی مشکلات اس قدر بڑھ گئیں کہ ملک کی نامور جامعات تک کو اپنے ملازمین اور اساتذہ کو تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کرنا مشکل ہو گیا۔ بہت سی یونیورسٹیاں دیوالیہ ہو گئیں۔ اساتذہ اس عرصے میں سراپا احتجاج رہے۔ لیکن حکومت نے اس جانب توجہ نہ دی۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ کو بھی نامناسب طریقے سے ہٹا کر جگ ہنسائی کا سامان کیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی تو امید بندھی تھی کہ ہائیر ایجوکیشن کی حالت زار میں نمایاں بہتری آئے گی۔ ہمیں یاد ہے کہ مسلم لیگ(ن) نے 2013 میں حکومت سنبھالی تھی تو اعلیٰ تعلیم کی حالت بے حد خراب تھی۔ کمیشن کی مالی حالت نہایت نازک تھی۔ فنڈز کی بندش کے باعث بیرون ملک وظائف پر زیر تعلیم طالب علم سخت مشکلات کا شکار تھے۔ ایسی خبریں سننے کو ملا کرتیں کہ یہ طالب علم دوسرے ممالک میں بھیک مانگنے پر مجبور ہو چلے تھے۔ اس زمانے میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے ہائیر ایجوکیشن کے بجٹ میں اضافہ کیا۔ کمیشن کے حالات میں نمایاں بہتری آئی۔ احسن اقبال اس زمانے میں تعلیم کے معاملات میں دلچسپی لیا کرتے تھے۔ وجہ یہ کہ وہ پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ درس و تدریس سے ان کا گہرا تعلق رہا ہے۔ اس زمانے میںوزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی پنجاب میں کئی کامیاب تعلیمی منصوبوں کا آغاز کیا اور انہیں کامیابی سے چلایا ۔ اب انہی شہباز شریف اور احسن اقبال کی موجودگی میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں کمی ہوتی ہے تو یہ نہایت زیادتی ہو گی۔ پچاس فیصد بجٹ کم کرنا کوئی معمولی بات نہیں ۔ یہ اقدام اعلیٰ تعلیم کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہو گا۔
تحریک انصاف کے دور والا بجٹ جاری رہتا ہے ، تب بھی یہ بجٹ ناکافی ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ اس بجٹ میں سو فیصد اضافہ کیا جائے۔ تاکہ جامعات تحقیق اور تدریس کی جانب بھرپور توجہ دے سکیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ جب بجٹ میں کمی درکار ہوتی ہے تو اس کی پہلی زد تعلیمی بجٹ پر پڑتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ دیگر سرکاری اخراجات میں کمی لائی جائے ۔ بچت مقصود ہے تو ایوان صدر، ایوان وزیر اعظم، وزراء، سرکاری افسران کیلئے جاری ہونے والے بجٹ میں کٹوتی کی جائے۔ اگر ایسا نہیں کرنا تو غیر ملکی امداد کا بندوبست کرنا چاہیے۔ یا پھر جس طرح دیگر ترقیاتی منصوبوں کے لئے سود پر قرض لیا جاتا ہے، شعبہ تعلیم کو مناسب فنڈز فراہم کرنے کیلئے بھی قرض لیا جائے ۔ تعلیم سے بڑھ کر ترقیاتی منصوبہ اور کیا ہوگا؟
مشکل یہ ہے کہ جو بھی سیاسی جماعت برسر اقتدار آتی ہے ، اس کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ عمومی طور پر سب سے زیادہ توجہ ملک کے دفاع پر مرکوز رہتی ہے۔ لہٰذا بجٹ کا بڑا حصہ دفاعی اخراجات پورے کرنے کیلئے مختص رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر حکومت کے کاندھوں پر قرضوں کا بوجھ لدا رہتا ہے۔ بجٹ کا بڑا حصہ ان قرضوں اور سود کی ادائیگی میں صرف ہوتا ہے۔ حکومتی اخراجات، ترقیاتی منصوبے، فلاحی کاموں میں بھی بجٹ صرف کرنا نہایت ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ تعلیم کے لئے بجٹ کی باری بہت سی مدوں اور اخراجات کے بعد آتی ہے۔ جیسے تیسے تعلیم کے لئے بجٹ مختص ہوتا ہے۔ اس کا بیشتر حصہ بھی تنخواہوں کی ادائیگیوں میں اٹھ جاتا ہے۔ انہی کالموں میں پہلے بھی عرض کر چکی ہوں کہ کاش ہمارے ارباب اختیار اس حقیقت کی تفہیم کریں کہ تعلیم صرف ایک شعبے کا نام نہیں ہے۔ یہ کسی وزارت کا نام نہیں ہے۔ تعلیم کسی قوم اور سماج کے مستقبل کا نام ہے۔ تعلیم ہی ہے جس کی وجہ سے کوئی ملک اور قوم ترقی کے زینے عبور کرتے ہیں۔ کاش ہم تعلیم کو بھی دفاع جتنی اہمیت دیں۔ جس طرح دفاعی اخراجات ہمیشہ ترجیح اول قرار پاتے ہیں۔ اسی طرح تعلیم کو بھی ہم اپنے ملک کی بقا کا ضامن خیال کریں۔ تعلیم بھی ہمارے ملک اور قوم کے دفاع کا معاملہ ہے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ خدارا تعلیم اور خاص طور پراعلیٰ تعلیم کے شعبہ پر رحم کرے۔