خونی، جنونی مارچ، انجام مایوسی

خونی، جنونی مارچ، انجام مایوسی

کالم سے طویل غیر حاضری پر معذرت، رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ایک حادثہ نے ایسا نڈھال کیا کہ غالب یاد آ گئے۔ ’’مضمحل ہو گئے قویٰ غالب، اب عناصر میں اعتدال کہاں‘‘ اس دوران بستر پر لیٹے لیٹے اخباری خبروں، ٹی وی کے ٹاک شوز اور یو ٹیوب کے تبصروں پر انحصار رہا۔ کمال ہے اپریل کا مہینہ عمران حکومت کے لیے محرومیوں کا پیغام لایا۔ اپوزیشن کی 9 جماعتیں متحد ہو گئیں۔ حکومت کے اپنے ارکان نے کھلے بندوں بغاوت کا علم بلند کر دیا۔ اتحادی ساتھ چھوڑ گئے۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی۔ عمران خان کھلی آنکھوں سے دھوکہ کھا گئے۔ ایک ماہ بعد اعتراف کیا کہ مجھے ہر طرف سے دھوکہ دیا گیا۔ کیا اتنے غافل یا مگن تھے کہ زندگی کی حقیقتوں سے نا آشنا رہے کسی نے کہا تھا ’’ذرا سا وقت گزر جائے غفلتوں میں اگر، تو اچھے اچھوں کو پھر ہاتھ ملانا پڑتا ہے‘‘ یہ زندگی کی حقیقت ہے کہ ’’شام ہوتے ہی سورج کو ڈھلنا پڑتا ہے‘‘ بد قسمتی کہ انہوں نے اور شیخ رشید جیسے پنج پیاروں نے ڈھلتے سورج کو بھی آخر وقت تک غروب ہونے سے روکنے کی کوشش کی کیا حاصل ہوا؟ خونی اور جنونی مارچ کے نعرے لگانے والے کو خونی اور بادی بواسیر کے معالج حکیم رانا ثناء اللہ نے لال حویلی سے چوری چھپے فرار پر مجبور کر دیا۔ ان ہی لوگوں نے آنکھوں میں سہانے خواب بسا کر عمران خان کو اس انجام سے دوچار کیا۔ کچھ بلکہ بہت کچھ قصور اپنا بھی تھا۔ مشیروں نے تو صرف سلگتی آگ کو ہوا دی۔ نفرت کے شعلے بھڑکائے جس سے اپنے اور اتحادی بھی دور ہو گئے۔ آپس کی بات ہے جن ممالک میں جمہوریت ہے وہاں تحریک عدم اعتماد نئی یا انوکھی بات نہیں ایک ووٹ کے فرق سے اقتدار سے محروم ہونا پڑتا ہے حکمران سدا کے لیے نہیں آتے ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہمارے حکمران بیس تیس سال برسراقتدار رہنے کے ارادے سے آتے ہیں مزید دس سال ان کے قریبی مشیر اور تیسرے درجے کے نجومی بڑھا دیتے ہیں چنانچہ وہ میدان حشر تک پہنچنے سے قبل میدان سیاست میں ڈٹے رہنے کا مصمم ارادہ کر بیٹھے ہیں۔ بلا مبالغہ ہمارے ملک کی سیاست کو حکمرانوں کی انا، تکبر، غرور اور کرسی سے ایلفی لگا کر چمٹے رہنے کی عادت نے تباہ کر دیا۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے باوجود عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے قیدیوں کی وین منگوانا پڑی۔ عدالت عظمیٰ کے دروازے رات بارہ بجے کھولنا پڑے۔ اللہ معاف کرے جھوٹ نہ بلوائے کیا کیا جتن کیے تب کہیں جا کر سپیکر نے استعفیٰ دیا اور شہباز شریف وزیر اعظم منتخب ہو سکے حلف کے عین وقت پر صدر محترم عارف علوی کی طبیعت خراب ہو گئی خیر گزری کہ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے حلف لے لیا ورنہ حلف برداری کے لیے بھی کوئی کرائے کا صدر ڈھونڈنا پڑتا۔ پنجاب میں جو کچھ ہوا دہرانے کی ضرورت نہیں۔ گورنر کی ضد اور ہٹ دھرمی سے نئے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز آج تک کابینہ تشکیل نہ دے سکے۔ پی ڈی ایم کی حکومت بن گئی مگر عمران خان ’’خطرناک‘‘ ہو گئے۔ اعتراف شکست یا شکست کی وجوہات پر غور و خوض ہمارے سیاستدانوں کے نصیب میں نہیں۔ عمران خان وزیراعظم ہاؤس سے جاتے ہوئے مبینہ طور پر 5 کروڑ کی گاڑی ساتھ لے گئے۔ 15 دن بعد واپس کرنا بھول گئے۔ بنی گالہ پہنچنے کے باوجود وزیر اعظم کا پروٹوکول مل رہا ہے۔ اللہ کا شکر ادا کریں کہ ملک کی معیشت تباہ کرنے بلکہ اسے وینٹی لیٹر تک پہنچانے کے باوجود انہیں اب تک کسی تحقیقات کا 
سامنا نہیں کرنا پڑا۔ سو باتوں کی ایک بات ہم نے ایوب خان سے لے کر عمران خان سمیت سارے خانوں کے ادوار دیکھ لیے قسم اللہ کی اتنی مہنگائی کسی دور میں نہیں دیکھی۔ اعداد و شمار جھوٹ نہیں بولتے غور تو کیجئے 70 سال کے دوران مختلف حکومتوں نے 24 ہزار ارب کے قرضے لیے ادا بھی کیے۔ حضرت جی کے ساڑھے 3 سال میں قرضوں کا حجم 42 ہزار 4 سو 45 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ فرمایا ادا بھی کرتے رہے مگر ستم ظریفی ہے کہ قرضے 42445 ارب سے ایک ڈالر کم نہیں ہوئے کم و بیش دگنے قرضوں کے باوجود مہنگائی 13 فیصد اور 20 فیصد سے کراس کر گئی۔ افراط زر ڈبل ڈیجٹ سے بڑھ گیا۔ اشیائے خورو نوش کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے دور ہوتی چلی گئیں اربوں ڈالر کہاں گئے۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کابینہ کے بیشتر اور چنیدہ وزراء کے اثاثوں میں ان ساڑھے 3 سال کے دوران 3 سے 6 ارب کا اضافہ ہوا۔ بڑے بڑے مسکین اور متقی پرہیز گار وزیروں نے بہتی گنگا میں ہاتھ ہی نہیں دھوئے جی بھر کے غسل فرمایا۔ رج کے کھاؤ تے ننگے نہاؤ۔ پنجاب حکومت کے ترجمان عطاء تارڑ نے الزام لگایا کہ اللہ لوک وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے 10 ارب 31 کروڑ کے اثاثے بنائے۔ وزیر اعلیٰ کے مشیر عون چودھری نے وہ وہ الزام لگائے کہ غیرت مند اٹک کے پل سے چھلانگ لگا کر جہاں فانی سے کوچ کر جائے۔ دوسری طرف مہنگائی نے دو کروڑ مزید عوام کو غریب ترین اور بھکاری بنا دیا۔ بجلی کے نرخ 11 روپے یونٹ سے بڑھ کر 25 روپے ہو گئے (کراچی میں مزید 4 روپے 83 پیسے یونٹ اضافہ کر دیا گیا) گھر گھر رونا، گیس کے ماہانہ بل 600 روپے سے 1500 روپے ہو گئے۔ بجلی کے 9 کارخانے بند پڑے رہے جس کی وجہ سے لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوا ریلوے کا خسارہ 50 ارب تک بڑھ گیا۔ بجٹ خسارہ 5 ہزار 6 سو ارب تک پہنچا۔ چوتھے وزیر خزانہ شوکت ترین جاتے جاتے آئی ایم ایف سے پیٹرول اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کے معاہدے پر دستخط کر کے آنے والوں کے لیے بارودی سرنگیں بچھا گئے کہا کہ پیٹرول کی سبسڈی کے لیے 67 ارب رکھے ہیں۔ آنے والوں نے پوچھا کہاں رکھے ہیں جواب ندارد، تجارتی خسارہ 40 ارب ڈالر 30 جون تک 50 ارب ڈالر ہونے کا خدشہ 10 ماہ میں درآمدی بل 11 ارب ڈالر ایک ارب 81 کروڑ کے سمارٹ فونز، 7 ارب 74 کروڑ ڈالر کی گاڑیاں 7 ارب 74 کروڑ ڈالر کی درآمدی خوراک کھا گئے۔ ماشاء اللہ صحت قابل رشک بلکہ قابل عبرت تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا باعث مہنگائی اندھا دھند کرپشن 42 ہزار ارب کے قرضوں میں ترقی ایک اینٹ نہ لگ سکی۔ بنی گالہ کی سڑک کی تعمیر کے لیے صرف 30 فیصد اخراجات ادا کیے 70 فیصد اس وقت کے ن لیگ کے میئر نے دیئے قوم کی کیا حالت ہو گئی۔ بقول اقبال ساجد ’’چڑھتے سورج نے ہر اک ہاتھ میں کشکول دیا، صبح ہوتے ہی ہر اک گھر سے سوالی نکلا‘‘ اقتدار سے باہر ہوئے تو حقیقی آزادی مارچ کی کال دے دی۔ 20 مئی کو کال دینی تھی 3 وزرا اس عرصے میں ’’بڑوں کے دروازوں پر دستک دیتے رہے مائی باپ ہاتھ پکڑ لیجئے آپ کے بچے ہیں‘‘ دروازے نہ کھلے تو 25 مئی کی کال دے بیٹھے۔ ارد گرد بیٹھے بے وقوفوں اور عقل کے دشمنوں نے خونی اور خود حضرت جی نے جو کنٹینر پر چڑھتے ہی قاسم سوری کے کہنے پر ’’عاشق رسول‘‘ بھی بن بیٹھے اسے جنونی لانگ مارچ کا نام دیا مگر سوئے ناکامی صوبوں سے کمک نہ پہنچ سکی۔ پنجاب سویا رہا لاہور کی دو ڈھائی کروڑ آبادی میں شرمناک حد تک ڈھائی سو کارکن بتی چوک اور شاہدرہ میں لاٹھیاں ڈنڈے کھا کر گھروں کو لوٹ گئے کچھ پکڑے گئے۔ رانا ثناء اللہ کے بقول مجموعی طور پر 4 ہزار 4 سو چودہ چھاپے مارے گئے 19 سو گرفتار ہوئے۔ کے پی کے سے آنے والے کارکنوں کی تعداد 10,15 ہزار سے آگے نہ بڑھ سکی۔ خونی جنونی مارچ مایوسی مارچ میں تبدیل ہو گیا نیا ڈرامہ شروع ہوا سپریم کورٹ نے بابر اعوان کی یقین دہانی کے بعد فیصلہ دیا کہ عمران خان کو جی نائن کے گراؤنڈ میں جلسہ کرنے دیا جائے۔ حضرت جی نے راستے ہی سے اعلانات کرنا شروع کر دیے کہ ڈی چوک پہنچوں گا کارکن بھی وہیں پہنچیں۔ سپریم کورٹ کے حکم پر رکاوٹیں ہٹتے ہی سوات سے آنے والے ایک جتھے نے اسلام آباد کے درخت جلانا شروع کر دیئے۔ وفاقی دار الحکومت کے شہری اپنے جنت نظیر شہر کی حالت دیکھ کر رو دیئے، درخت کب لگیں گے، کب پھلیں پھولیں گے۔ لانگ مارچ میں شریک یوتھیوں نے تاتاریوں کی طرح شہر تباہ کیے، پولیس گاڑیوں کو آگ لگائی اور نکل گئے۔ حضرت جی صبح دم ڈی چوک پہنچے تو قافلہ لٹ چکا تھا۔ عمران خان الیکشن کی تاریخ لینے آئے تھے 6 دن بعد کی تاریخ دے کر بے نیل و مرام واپس لوٹ گئے۔ ڈی چوک پہنچنے کے بعد بھی توہین عدالت کے مرتکب قرار نہیں پائے۔ کیوں؟ اسلام آباد والے جانیں ہمیں تو اتنا پتا ہے کہ حضرت جی کا حملہ ناکام ہو گیا، آئندہ کیا ہو گا ہمیں کیا معلوم۔ لیکن شنید ہے کہ اس سے بھی بُرا ہو گا کئی بار سمجھایا تھا کہ ’’خواہش ہے بڑائی تو اندر سے بڑا بن، کر ذہن کی بھی نشونما قد سے زیادہ‘‘۔

مصنف کے بارے میں