بھیڑ چال

بھیڑ چال

پاکستان کی سیاسی پوزیشن اس وقت انتہائی نازک دوراہے پر ہے۔ ایک آزاد اور خود مختار ملک ہونے کے باوجود چند روز قبل آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے پورا ملک جام کر دینا لمحہ ِ فکریہ ہے۔ 25 جولائی کی تاریخ اس حوالے سے بھی اہم رہی کہ مقبوضہ کشمیر کے بہادر بیٹے یٰسین ملک کو انتہائی بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی خاموشی کے ساتھ عمر قید کی سزا سنا دی گئی اور بد قسمتی کے ساتھ کشمیر ہماری شہ رگ ہے، کے دعویدار ہونے والے ملک میں آزادی مارچ کے نام پر پورا ملک جام رہا مگر کوئی بھی آواز یٰسین ملک کے حق میں بلند نہیں ہوئی۔ دوسری جانب آئی۔ ایم۔ ایف سے جاری اجلاس کو بھی سراسر نظر انداز کیا گیا۔ ملک دشمن عناصر قیام ِ پاکستان کے وقت سے ہی گھات لگائے بیٹھے ہیں اور پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کے بعد باقاعدہ افغانستان میں ٹھکانہ بنانے والے دشمن کا اصل ہدف پاکستان ہی تھا لیکن رب دو جہاں کے فضل اور افواج ِ پاکستان کی بروقت حکمت ِ عملی کے باعث اپنے مقاصد میں ناکام ہوتے ہوئے اس ٹھکانے سے بے آبرو ہو کر نکل تو گئے لیکن اب بھی چاروں طرف سے پاکستان کوگھیر ے ہوئے ہیں۔ ہائبرڈ وار ہو، سیاسی بے چینی ہو یا حکومتی تبدیلیاں، سوشل وار کے ذریعے پاکستان پر پوری طاقت سے حملہ آور ہے اور بدقسمتی سے مبینہ طور پر ہماری سیاسی پارٹیاں بھی اس راہ میں دشمن کی آلہ کار بنی ہوئی ہیں جس کے باعث وطن ِ عزیز کا بے پناہ نقصان ہو رہا ہے۔ اپنی ہی املاک کو نقصان پہنچانا، جلانا، اداروں کے ملازمین کو نقصان پہنچانا کون سی ملک و وطن کی محبت کا مظاہرہ ہے؟؟؟ کسی بھی سیاسی جماعت کا یہ عمل ناقابلِ قبول ہے۔آزادی کے بعد سے لے کر آج تک ہمارے ملک میں انگریز کے لا گو قوانین کو اسلامی قوانین میں تبدیل نا کرنا سنگین زیادتی اور طاقتور کا قانون پر حکمرانی کرنے کا بہانہ ہے، جسے آج تک کوئی بھی تبدیل کرنے پر راضی نہیں۔ گھات لگائے بیٹھے دشمن کا مضبوط افواج کی موجودگی میں پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنا مشکل ہے، اسی لیے اب عرصہ دراز سے ہائبرڈ وار کے ذریعے ہمارے ملک کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ عوام میں عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ جس شخص کے اعمال پسند نہیں اسے بغیر تحقیق کے جلا دیا جاتا ہے۔
سرکاری یا پرائیویٹ ادارے اور املاک کوئی بھی محب ِ وطن شہری نہیں جلا سکتا، ایسے بے شعور جتھوں کی ذہنی تربیت سوشل میڈیا کے ذریعے دشمن عناصر بڑی آسانی سے کر رہے ہیں۔ ہمارے میڈیا اور پولیس کی مثال لے لیں اگر یہ ادارے کسی بھی جماعت کے حق میں کام کریں تو بہترین نہ کریں تو غدار ِ وطن۔ ایسے میں ایک پُر امن معاشرہ کیسے چل سکتا ہے؟؟؟ حکمرانی کا ایسا نشہ ہے جس کے بغیر کوئی بھی خود کو مکمل نہیں سمجھتا۔ الیکشن سے پہلے نیک، وفادار، محب وطن اور ایسے ایسے القابات تشہیری مہم میں استعمال کیے جاتے ہیںاور پھر یہی لیڈر طاقت کے نشے اور اقتدار کی لالچ میں اپنے کارکنوں کے ہمراہ قومی املاک اور اداروں کو وراثتی ترکہ سمجھتے ہوئے نقصان پہنچاتے ہیں۔ پھر اگر قانون کی گرفت میں کوئی آ جائے تو وکٹری کا نشان ایسے بناتے دکھائی دیتے ہیں جیسے انڈیا کو چاروں شانے چت کر کے کامیاب واپس لوٹے ہیں۔۔ جہاں سیاسی رہنماؤں کے کارکن اپنے رہنما کی اندھی تقلید میں ملکی املاک، اداروں اور سرکاری ملازمین کو نشانہ بناتے ہیں وہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے چند افراد اپنی نوکری کو محفوظ بنانے اور حکمران ِ وقت کا آشیر باد حاصل کرنے کے لیے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے غیر قانونی کام بھی دیدہ دلیری سے کر گزرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں اکثر و بیشتر عوام اور ملک کو جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قومی ہیرو کو پسند اور نا پسند کی بنیاد پر خود ہی سوشل پلیٹ فارم پر رسوا کر کے ملک دشمن عناصر کا کام مزید آسان کرنا بھی اب ایک روایت بن چکی ہے۔ شومئی قسمت کہ عرصہ دراز سے ایک قوم کہیں نظر نہیں آ رہی، سب پاکستان کو اپنا اپنا حصہ سمجھتے ہوئے الگ علاقہ بنانا چاہتے ہیں۔ دیکھا جائے تو تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز مغربی ممالک سے کنٹرول کیے جا رہے ہیں بلکہ یہاں یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ ہماری قوم آج ذہنی طور پر مغرب کے کنٹرول میں ہے۔ حکومت کوئی بھی ہو عام شہری کی ٹرانسپورٹ، کاروبار، تعلیمی ادارے، ہسپتال اور راستے ایسے مشتعل سیاسی کارکنوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا جن کے ہاتھوں فائر بریگیڈ اور ایمبولینس تک محفوظ نہیں، کس قانون کے زمرے میں آتا ہے۔۔ سوچنے کی ضرورت ہے کہیں وطن ِ عزیز سے محبت میں کوئی غداری تو نہیں کی جا رہی۔ نا تو ہماری سیاسی جماعتیں صوبائی اور قومی اسمبلی سے مستعفی ہونا پسند کر رہی ہیں نا ہی سرکاری سہولیات کو واپس کرنے کے حق میں ہیں لیکن الیکشن کرانا چاہتے ہیں اور سیاسی ورکر یہ بات سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔۔ ہر مارچ ہی تقریباً خونی مارچ ہوتا ہے نہیں معلوم کتنی ماؤں کی گود اجاڑ کر یہ حکمران پھر چین کی بانسری بجاتے ہوئے سکون کی نیند سو جائیں گے۔۔ دور ِ حاضر میں پاکستان کے عوام کو بہلانے کے لیے مذہب کارڈ کو ہمارے سیاسی لیڈر خوب اچھے طریقے سے استعمال کر رہے ہیں۔ مگر یہی حکمران جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو رب ِ کائنات سے کھلے عام جنگ کرتے ہوئے سود کے نظام کو فروغ دیتے ہیں۔ سادہ کہیں یا شعور سے عاری قوم جسے کوئی غرض نہیں کہ کس راستے پر چلنا ہے، ٹھیک کو ٹھیک اور غلط کو غلط کہنا ان کے بس میں نہیں ہے۔ در حقیقت قوم تو ہم رہے ہیں نہیں، بھیڑ چال ہے جہاں لیڈر کہے بس چلتے جانا ہے پھر چاہے آگے گھائی ہو یا دشمن بھیڑیا!!!

مصنف کے بارے میں