لاہور : سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ میرے دور کے دوران جو بھی غیر آئینی کام ہوئے سب جنرل فیض نے کیے میرا کوئی قصور نہیں ۔ پراجیکٹ عمران فوج اور عدلیہ کو مشترکہ منصوبہ تھا جو بری طرح ناکام ہوا ۔
سینئر صحافی شاہد میتلا کو دیے گئے انٹرویو میں جنرل باجوہ نے کہا کہ سپریم کورٹ میرے آرمی چیف بننے سے پہلےپی ٹی آئی کے دوسرے لانگ مارچ کےدوران پانامہ پیپرز پر سماعت شروع کرچکی تھی۔ آپ (شاہد میتلا) سپریم کورٹ کے ججز کو کیا سمجھتے ہیں اورپاکستان آرمی کوکیاسمجھتے ہیں۔فوج ہر چیز پر اثر انداز نہیں ہو سکتی ۔سپریم کورٹ کے جج خود بھی بہت کچھ کر رہے ہوتے ہیں۔میں نے سپریم کورٹ تک رسائی نہیں کی تھی ۔جنرل فیض نے کی ہو توکچھ نہیں کہہ سکتا ۔
جنرل باجوہ کہتے جب آپ کسی سے آٹھ کام کروا رہے ہوں تو وہ دس کر لے تو آپ اسےپوچھ نہیں سکتے۔ ویسے بھی پوری دنیا میں ہوتا ہے کہ انٹیلیجنس ایجنسیاں بہت سے کام اپنی مرضی سے بھی کررہی ہوتی ہیں۔
جنرل باجوہ نے کہا نواز شریف کو نااہل میں نے نہیں کرایا یہ سپریم کورٹ کے پانچ ججز کا اپنا فیصلہ تھا جب ججز کہیں تو آپ کیا کر سکتے ہیں۔ جسٹس کھوسہ کا شریف فیملی سے ذاتی عناد بھی تھا ۔شہباز شریف نے جسٹس کھوسہ کی بہن کو طلاق بھی دی تھی ۔مجھے نواز شریف نے آرمی چیف بنایا تھا تو میں کیسے ان کو نا اہل کروا سکتا تھا۔ نواز شریف ہمیشہ میرے ساتھ بہت اچھے اوربہت ڈیسنٹ تھے ۔فوج کا نواز شریف کی نااہلی میں کوئی لینا دینا نہیں ۔ سپریم کورٹ نے فوج کے ذمے ثبوت لانے کا ٹاسک لگایا تھا، ثبوت فوج نے مہیا کر دئیے تھے۔جنرل عاصم منیر کے عرب ممالک میں اچھے تعلقات تھے ،میں نے ان کو یواے ای بھیجا تھا اور وہ اقامہ لےکرآئے۔
جنرل باجوہ کہتے جب عدالت میں پانامہ کیس چل رہا تھا تو شاہد خاقان عباسی میرے پاس آئے اور مجھے دامن کوہ لے گئے وہاں ہم تین گھنٹے بیٹھے رہے ۔انہوں نے کہا کہ آپ پانامہ کیس میں نواز شریف کی مدد کریں۔میں نے کہا کہ ان کی زیادہ مدد نہیں کر سکتاکیونکہ انہوں نے خود کافی غلطیاں کی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے کسی دوست نے بہر حال بتایا تھا کہ میاں شریف نے ڈائیوو سے پانچ ملین ڈالرز رشوت لی تھی۔ تین ملین ڈالر کے فلیٹ خریدے اور دو ملین ڈالرزجہاد کے لیے یا کسی فلاحی ٹرسٹ کو دیے تھے ۔ نواز شریف کو یقین تھا کہ ان کے پاس دستاویزات پوری ہیں۔یہ اپنی ایمانداری پر فوج کا ٹھپہ بھی لگوانا چاہتے تھے ۔لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اگر نواز شریف بری ہو جاتے تو سارا ملبہ فوج پر گرتا ۔
جنرل باجوہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا تو میں نے ڈی جی آئی ایس آئی کو بلایا اور کہا کہ ہمیں اس معاملے سے نکلنا ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ سپریم کورٹ کا حکم ہے ہم کیسے نکل سکتے ہیں ۔میں نے اپنے بیٹے بیرسٹر سعد سے سپریم کورٹ کے نام خط بھی لکھوایا۔ ۔ میں نے خط لکھ کر معذرت کرنے کا معاملہ کور کمانڈر کانفرنس میں رکھا تو انہوں نے کہا کہ ہم ماتحت ادارہ ہیں خط نہیں لکھ سکتے چنانچہ خط نہیں بھیجا گیا ۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ میں ہی نہیں فوج میں بھی تو انصافی تھے ۔ ہم جنرلز بھی پہلے انصافی تھے جو عمران خان کے عشق میں گرفتار تھے ہم سمجھتے تھے کہ نئی پارٹی ہے نئے چہرے ہیں بہتری لائیں گے لیکن ہم غلط ثابت ہوئے۔ بہر حال تین وجوہات کی بنا پر مجھ پر ن لیگ کے دور میں دباؤ تھا ۔ن لیگ کی حکومت آئی تو اس نے مشرف پر آرٹیکل 6 لگا دیا۔پھر پانامہ پیپر آگئے ۔ پھر ڈان لیکس کا ٹویٹ واپس لینے کی وجہ سے بھی فوج کے اندر سے دباؤ تھا ۔ڈان لیکس کا ٹویٹ واپس لینے کے بعد مر یم نواز کے اسٹریٹجک میڈیا سیل نے فوج کی بینڈ بجا دی تھی کہ 71کے بعد فوج کی دوسری پسپائی ہوئی ہے۔
جنرل باجوہ نے کہا کہ خاقان عباسی ن لیگ نہیں چھوڑیں گے وہ بہت قابل آدمی ہیں۔بطور وزیر اعظم انہوں نے زبردست کام کیے۔وہ معیشت کو بھی بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب میں آرمی چیف بنا تو اس کے بعد وزیر اعظم سے ملنے وزیراعظم ہاؤس گیا تو ان دنوں ڈان لیکس کا بہت چرچا تھا ۔ن لیگ نے اقتدار میں آکر سب سے بڑی غلطی جنرل مشرف پر آرٹیکل سکس لگا کر کی تھی۔ سیاسی جماعتوں کو ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ آرمی چیف کی بہت اہمیت ہوتی ہے اور فوج اپنے سابقہ آرمی چیف پر کبھی سمجھوتا نہیں کرتی۔ جب جنرل مشرف پر آرٹیکل سکس لگا تو فوج نواز شریف کے خلاف ہو گئی اور پھر فوج نے مشرف کو بچا بھی لیا ،مشرف کبھی عدالت کے راستے سے غائب ہوتے کبھی کہیں سے اور پھر ہسپتال پہنچ گئے۔
جنرل باجوہ نے کہا کہ اعزاز چوہدری بالکل ٹھیک کہہ رہے تھے۔یہی ہم نے فیٹف میں بھگتا تھا۔اب میری سائیڈ کی سٹوری سنیں۔ جب میں آرمی چیف بنا تو وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کے لئے گیا تو چوہدری نثار کہنے لگے کہ ہمیں ڈان لیکس کومنطقی انجام تک پہنچانا ہے۔ مطلب انکوائری کو مکمل کر کے ختم کرنا ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے ۔ پھر کچھ عرصے کے بعد چوہدری نثار کے حلقے میں کوئی تقریب تھی میں بھی گیا تو چوہدری نثار نے پھر وہی بات کی کہ ہمیں ڈان لیکس انکوائری کو ختم کرنا ہے۔ اس کے بعد میں نے ڈی جی آئی ایس آئی نوید مختار کو اپنے پاس بلالیا اور پوچھا کہ ڈان لیکس انکوائری کا کیا بنا کیا کچھ ملا ؟ جنرل نوید مختار کہنے لگے کہ "کچھ ثبوت ملے ہیں کہ سرل المیڈا نے 70منٹ پرویز رشید سےفون پر بات کی ہے۔ لیکن یہ نہیں پتا تھا کہ کیا بات چیت ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دراصل ڈان لیکس میں کچھ بھی نہیں تھا لیکن جہاں بھی جاتا تو جونئیر افسر سوال کرتے تھے ۔اس کے بعد میں نے چودھری نثار اور اسحاق ڈار سے بات کی کہ صحافیوں کا کیس سی پی این ای کو بھیج دیتے ہیں کیونکہ میں بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتا تھا اور باقیوں کے خلاف انتظامی ایکشن لینے کا فیصلہ ہوا ۔پھر میں نواز شریف کے پاس چلا گیا اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کی وہ پرویز رشید پر نہیں مان رہے تھے خیرپھر مان گئےاورفیصلہ ہوا کہ پرویز رشید اور طارق فاطمی کو عہدوں سے ہٹا دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ صحافیوں کا کیس سی پی این ای کو بھیجاجائے گا اور باقیوں کے خلاف محکمانہ کارروائی ہو گی ۔اس کے ایک دن بعد میں لاہور چلا گیا تووہاں پر اچانک ڈان لیکس کا نوٹیفکیشن چلنا شروع ہو گیا۔ ٹی وی نے کہنا شروع کیا کہ دیکھیں حکومت نے شریک ملزمان کو سزا نہیں دی ۔حکومت نے ادھورا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔میڈیا نے فوج پرشدید دباؤڈالا۔میں نے اسی وقت جنرل آصف غفور کو فون کیا اور انگریزی میں (حکومت کو)برا بھلاکہا کہ ان سے کہو کہ پورا نوٹیفیکیشن ایشو کریں ۔جنرل آصف غفور نے اپنے طور پرہی نوٹیفکیشن ریجیکٹڈ کا ٹویٹ جاری کر دیا ۔
اسی دن مجھے فاٹا جانا تھا میں چلا گیا اس کے فوراً بعد مجھے فون آگیا کہ وزیر اعظم نے ملنا ہے ۔ وزیر اعظم ہاؤس پہنچا تو نواز شریف نے میرا باہر آکراستقبال کیا ۔میرا خیال تھا کہ وہ غصے میں ہوں گے کچھ نہ کچھ ناگواری کا اظہار کریں گے۔ لیکن انہوں نے کچھ بھی نہیں کہا ۔ملاقات کے اختتام پر صرف اتنا کہا کہ جنرل صاحب غصے میں فیصلے نہ کیا کریں۔ میرے دل میں آیا کہ کچھ غلط ہو گیا ہے ۔دو دن بعد وزیر اعظم نے چین جانا تھا ۔اب جنرلز اور سیاسی لیڈر میرے پاس آنا شروع ہو گئے کہ ٹویٹ واپس مت لیں کبھی فوج نے بھی کوئی چیز واپس لی۔ اس دوران خواجہ آصف بھی میرے پاس آئے۔دیگر مسلم لیگیوں نے بھی آ کر کہا کہ ٹویٹ واپس نہ لیں لیکن میں ملک کے وزیر اعظم کو کمتر حیثیت میں چین نہیں بھیج سکتا تھا ایسے وزیر اعظم کی چین میں کیا حیثیت ہوتی جس کے اختیار میں اس کی اپنی فوج بھی نہیں ہے اس لیے ٹویٹ واپس لے لیا ۔
انہوں نے کہا کہ جنرل نوید مختار شریف آدمی تھے کوئی زیادہ با اختیار بھی نہیں تھے جنرل فیض سارے کام کرتے تھے ۔ ہم پہ عمران خان کو لانے کا بھوت سوار تھا۔ ڈان لیکس کا ایشو جنرل راحیل شریف نے ایکسٹینشن لینے کے لیے بنایا تھا۔اس میں کچھ بھی نہیں تھا۔نواز شریف سے جب ڈان لیکس پر بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ جنرل راحیل اور جنرل رضوان اختر جب بھی ملاقات کے لیے آتے تو جنرل راحیل شریف کی ایکسٹینشن کی بات کرتے تھے۔ جنرل رضوان، جنرل راحیل کے سامنے نواز شریف کو کہتے کہ جنرل راحیل کو تین سال کی ایکسٹینشن دے دیں لیکن راحیل شریف کے بعد وہ نواز شریف کو کہتے کہ صرف ایک سال کی ایکسٹینشن دیں کیونکہ ایک سال کی ایکسٹینشن کے بعد جنرل رضوان اخترکا اپنا نمبرآنا تھا۔
جنرل باجوہ کہتے،میرے سامنے کوئی بھی آجائے میں اسے معاف کر دیتا ہوں میں جنرل رضوان کو آئی ایس آئی سے ہٹا کر کمان دینا چاہتا تھا لیکن مجھے رپورٹ ملی کہ وہ سیاست میں مسلسل مداخلت کر رہے ہیں۔دو تین بار ان کی حرکتیں رپورٹ ہوئیں۔کچھ ان کی کرپشن کے بھی معاملات تھے تو پھر انہیں فارغ کر دیا گیا ۔ عاصم باجوہ نے معافی مانگ لی تھی تو انہیں معاف کر دیا اور انہیں سدرن کمانڈدے دی۔آرمی چیف جنرل عاصم منیر اکثر کہتے تھے کہ آپ لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں میں کسی کو معافی نہ دوں۔
جنرل باجوہ کہتے کہ جنرل عاصم باجوہ نے جنرل راحیل شریف کو ہیروبننے کی ڈگر پر ڈال دیا تھا ۔ان کو کہا تھا کہ میں آپ کو ہیرو بناتا ہوں آپ کرپشن کے خلاف نعرہ لگائیں۔ حالانکہ ضرب عضب میں ایک گولی بھی نہیں چلی تھی۔پھر جنرل راحیل شریف نے کرپشن کے خلاف کیمپین شروع کر دی۔ پاناما آنے کے بعد اس کیمپین کی وجہ سے بھی مجھ پر دباؤ تھا۔
پانامہ کے ٹرائل کے دوران میں نے شجاعت عظیم اور چوہدری منیر کو پیغام دے کر نواز شریف کی طرف بھیجا کہ وہ استعفیٰ دے دیں نا اہل ہونے سے بچ جائیں گے۔ ایک آدھ سال کے بعد الیکشن ہے تو وہ دوبارہ بھی وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔ میری طرف سے یہ بہت مخلصانہ تجویز تھی کیونکہ مجھے ن لیگ کے ہمدردوں کی جانب سے بار بار اپروچ کیا جا رہا تھا ۔شجاعت عظیم اورچوہدری منیر نے فواد حسن فوا دکو بتایا اورفواد حسن نے نواز شریف کو استعفیٰ دینے پر قا ئل کر لیا تھا۔ نواز شریف استعفیٰ دینے پر رضا مند ہوگئے لیکن عین وقت پر مریم نواز نےانہیں منع کر دیا۔