اسلام آباد : پرتشدد سیاسی تنظیم کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی۔ پر تشدد انتہا پسندی کی روک تھام کا بل سینیٹ میں پیش کردیا گیا ہے جس کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے بل پر ممبران کی رائے مانگی۔ ممبران کی مخالفت کے بعد چیئرمین سینیٹ نے بل کو ڈراپ کردیا۔
اتوار کے دن سینیٹ کا اجلاس ہوا تو پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کا بل ایوان میں حکومت کی طرف سے پیش کیا گیا۔ حکومتی بل پر چیئرمین صادق سنجرانی نے ایوان سے رائے مانگی جس پر جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق اور جمیعت علمائے اسلام کے مولانا عبدالغفور حیدر ی نے بل کی مخالفت کی۔
ممبران کی طرف سے بل کی مخالفت کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کہا کہ حکومت بل کو ڈراپ کرے نہ کرے میں بل کو ڈراپ کر رہا ہوں۔
نیو نیوز کے مطابق بل پاس ہونے سے حکومت کسی شخص یا تنظیم کو پرتشدد انتہاپسندی پر لسٹ ون اور ٹو میں شامل کر سکے گی۔ پرتشدد انتہا پسندی سے مراد نظریاتی عقائد،مذہبی و سیاسی معاملات میں طاقت کا استعمال اور تشدد ہے۔ پرتشدد انتہا پسندی میں شامل کسی فرد یا تنظیم کی مالی معاونت کرنا یا تشدد اور دشمنی کیلئے اکسانا بھی شامل ہے۔
حکومت کسی شخص یا تنظیم کو پرتشدد انتہاپسندی پر لسٹ 1 اور 2 میں شامل کر سکتی ہے۔
لسٹ 1:
لسٹ ون میں وہ تنظیم ہوگی جوپرتشدد انتہا پسندی میں ملوث ہو، جس کا سربراہ پرتشدد ہو، اس لسٹ میں نام بدل کر دوبارہ منظرعام پر آنے والی تنظیمیں بھی شامل ہوں گی۔
لسٹ 2:
بل کے مطابق لسٹ ٹو میں ایسے افراد شامل ہیں جو پرتشدد انتہاپسندی میں ملوث ہوں، لسٹ 2 میں پرتشدد ادارے، لیڈر یا پرتشدد ادارے کی مالی معاونت کرنے والے بھی شامل ہوں گے، حکومت پرتشدد فرد اور پرتشدد تنظیم کی میڈیا تک رسائی یا اشاعت پر پابندی لگائے گی۔
بل میں کہا گیا کہ پرتشد فرد یا تنظیم کے لیڈریا فرد کی پاکستان میں نقل وحرکت یا باہر جانے پرپابندی ہوگی، اس کے علاوہ حکومت پرتشدد تنظیم کے اثاثے کی چھان بین کرے گی۔
بل میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ حکومت پرتشد تنظیم کے لیڈر، عہدیداروں اور ممبران کی سرگرمیاں مانیٹرکرے گی، پرتشدد تنظیم کے لیڈر،عہدیداروں، ممبران کا پاسپورٹ ضبط ہوگا اور بیرون ملک سفرکی اجازت نہ ہوگی۔
بل کے متن کے مطابق پرتشدد تنظیم کے لیڈر، عہدیداران اور ممبران کا اسلحہ لائسنس منسوخ کردیا جائے گا، اثاثے،پراپرٹی اور بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے جائیں گے، اس کے علاوہ پرتشدد تنظیم کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی اور کوئی مالیاتی ادارہ پرتشدد تنظیم کے لیڈر،ممبر یا عہدیدار کو مالی معاونت نہیں دے گا۔
بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لسٹ میں شامل شخص کو 90 دن سے 12 ماہ تک حراست میں رکھا جاسکے گا۔
بل کے متن کے مطابق تعلیمی ادارے کسی شخص کو پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث ہونے یا اس کا پرچار کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، اس کے علاوہ کوئی سرکاری ملازم نہ خود نہ اہلخانہ کو پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث ہونے دے گا۔
پرتشدد انتہا پسندی کے مواد کو سوشل میڈیا سے فوری اتار دیا جائے گا یا بلاک کر دیا جائے گا ، قابل سزا جرم سیشن کورٹ کے ذریعے قابل سماعت ہو گا، جرم ناقابل ضمانت ، قابل ادراک cognizable اور non compoundable ہو گا۔ بل میں کہا گیا کہ معاملہ کی پولیس یا کوئی اور ادارہ تحقیقات اور انکوائری کرے گا۔
پرتشدد انتہا پسندی کے مرتکب شخص کو تین سے دس سال تک سزا اور بیس لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا، اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے شخص کو ایک سے پانچ سال تک قید اور دس لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔
پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث تنظیم کو پچاس لاکھ روپے جرمانہ ہو گا، تنظیم تحلیل کر دی جائے گی، قانون کی خلاف ورزی کرنے والی تنظیم کو بیس لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔ جرم ثابت ہونے پر فرد یا تنظیم کی پراپرٹی اور اثاثے ضبط کر لیے جائیں گے۔
معاونت یا سازش یا اکسانے والے شخص کو بھی دس سال تک قید اور بیس لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔
جرم کرنے والے شخص کو پناہ دینے والے کو بھی قید اور جرمانہ ہو گا، حکومت کو معلومات یا معاونت دینے والے شخص کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ حکومت لسٹ میں شامل شخص یا تنظیم کے لیڈر اور ممبران کو گرفتار کرکے نوے روز تک حراست میں رکھ سکتی ہے، مدت میں بارہ ماہ تک توسیع ہو سکتی ہے، متاثرہ شخص کو ہائی کورٹ میں اپیل کا حق ہو گا۔