ڈھاکا : بنگلہ دیش میں حکومت مخالف احتجاج شدت اختیار کرگیا۔ مظاہرین نے وزیراعظم حسینہ واجد سے مستعفی ہونے کامطالبہ کردیا۔ ہزاروں مظاہرین کا اہم مقامات پر دھرنا دوسرے روز بھی جاری ہے۔
حزب اختلاف کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور اس کے اتحادیوں نے گذشتہ سال سے وزیر اعظم شیخ حسینہ کے استعفے اور نگران حکومت کو آئندہ جنوری میں انتخابات کی نگرانی کی اجازت دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے سلسلہ وار مظاہرے کیے ہیں۔
کئی مقامات پر جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب پولیس نے ہزاروں مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی، جو صبح سے ہی اہم شاہراہوں پر ٹریفک روکنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔
ڈھاکہ میٹروپولیٹن پولیس کے ترجمان فاروق حسین نے بتایا کہ پولیس نے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلائیں۔ انہوں نے کہا کہ شہر بھر میں کم از کم چار احتجاجی مقامات پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جس میں 20 پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور 90 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔
اے ایف پی کے صحافیوں نے دھولائی کھل میں ایک احتجاجی مقام پر دیکھا کہ مظاہرین نے پولیس اور ان کی گاڑیوں پر پتھراؤ کیا۔ ڈھاکا میڈیکل کالج ہسپتال کے ایک پولیس انسپکٹر بچو میا نے بتایا کہ چھ مظاہرین کو زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا۔
حسین نے کہا کہ بی این پی کے سینیئر رہنماؤں گویشور رائے اور امان اللہ امان کو حراست میں لے لیا گیا ہے لیکن انہیں باضابطہ طور پر گرفتار نہیں کیا گیا۔ احتجاج سے دارالحکومت اور ملک کے دیگر حصوں کے درمیان نقل و حمل کا رابطہ بری طرح متاثر ہوا ہے اور ٹرک اور بسیں گرڈ لاک میں پھنس گئیں۔
حسینہ واجد کی عوامی لیگ 2009 سے بنگلہ دیش پر حکومت کر رہی ہے اور اس پر انسانی حقوق کی پامالیوں، بدعنوانی اور مطلق العنانیت کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
رواں سال کے آغاز سے بی این پی کی قیادت میں ہونے والے مظاہرے تیزی سے عام ہو گئے اور اس ماہ ہونے والی ریلیوں میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ پولیس نے اس ہفتے پارٹی کے ہیڈ کوارٹر زکے باہر ایک مظاہرے سے قبل کم از کم 500 اپوزیشن کارکنوں کو گرفتار کیا تھا۔
مغربی حکومتوں نے بنگلہ دیش کے سیاسی ماحول پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بنگلہ دیش کی سکیورٹی فورسز پر الزام ہے کہ انہوں نے حزب اختلاف کے ہزاروں کارکنوں کو حراست میں لیا، ماورائے عدالت مقابلوں میں سینکڑوں کو مار دیا اور سیکڑوں رہنماؤں اور حامیوں کو غائب کر دیا۔