عالمی جدت میں جہاں ہر شے نئی نئی ہے وہاں دفاع کے فلسفے کو بھی نئے سرے سے ترتیب دیا گیا ہے۔ منطقی لحاظ سے جو کوئی بھی نئے چیلنجز کے مطابق اپنے آپ کو نہیں ڈھالتا اُس کا وجود خطرے میں پڑجاتا ہے۔ یہ دلیل دفاع کے نئے فلسفے پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ بہت پہلے جب جنگ کا خطرہ محسوس کیا جاتا تو اُس خطے کے لوگ اپنے روزمرہ کی سرگرمیاں معطل کرکے اسلحہ سازی میں جُت جاتے۔ بستی بستی شہرشہر ہرجگہ لوہا کوٹا جاتا اور آگ میں پگھلا کر تلواریں، نیزے، ڈھالیں اور زرہ بکتر وغیرہ تیار کیے جاتے۔ ہرطرف جنگ کی تیاری کا سہما ہوا منظر نظر آتا۔ پوری معیشت جنگ میں جھونک دی جاتی۔ اس کی مثالیں قدیم زمانے سے لے کر بیسویں صدی کی پہلی اور دوسری جنگ عظیم تک ملتی ہیں۔ انسانی تاریخ کی ان ہولناک تباہیوں کے بعد دفاعی تاریخ کے پورشن میں نئے باب کا آغاز کیا گیا جو کولڈوار کہلایا۔ دشمن کے شہریوں اور اُس کے دوست ممالک میں خبر اور پراپیگنڈے کے ذریعے مایوسی پھیلانا جبکہ اپنے شہریوں اور اپنے دوست ممالک کے ہاں خبر اور پراپیگنڈے کے ذریعے فتح کے شادیانے بجانا کولڈوار میں مہلک ہتھیار کے طور پر شامل ہوئے۔ جنگ کی اِس نئی شکل میں اپنے اور دشمنوں کے علاقے کو مکمل جنگی میدان بنانے کے بجائے مخصوص ٹارگٹ پر مخصوص طریقوں سے حملے کئے جانے لگے جن کی شدت اور نتائج میں خبر اور پراپیگنڈے کے سہارے بہت اضافہ ہوگیا۔ اس تکنیک کا فائدہ یہ ہوا کہ ایکٹووار کی صورت کم دکھائی دینے لگی لیکن ٹیکنالوجی اور پراپیگنڈے پر توجہ دینے سے معیشت کا ایک بڑا حصہ کولڈوار کے اخراجات پر اٹھنے لگا۔ کولڈوار کا دوسرا نکتہ یہ تھا کہ اس پر خرچ کی جانے والی کثیر رقم خفیہ ہوتی اور پبلک میں زیربحث نہ آتی۔ جب بظاہر کولڈوار کا دور ختم ہوا تو دنیا عمومی طور پر دو حصوں میں بٹ گئی۔ پہلے وہ جو امیر، طاقتور، دفاعی لحاظ سے خودانحصار اور دوسروں کو مغلوب رکھنے کی خواہش کرنے والے ممالک اور دوسرے وہ جو غریب یا دفاعی لحاظ سے دوسروں پر انحصار کرنے والے ممالک تھے۔ پہلی قسم کے ممالک نے ’’خودغرض نیشنل انٹرسٹ کی ایکسٹرنل پالیسیاں‘‘ بنائیں جس کے تحت اپنے اور اپنے دوستوں کے خطوں سے ایکٹو وار کے سائے تو ختم کردیئے لیکن ایکٹووار کے بھوت کو دوسری قسم کے ممالک اور اُن کے دوستوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا۔ اس کا بڑا فائدہ پہلی قسم کے ممالک کو یہ ہوا کہ اُن کا اسلحہ فروخت ہونا بند نہیں ہوا جس سے اُن کے زرمبادلہ کی آمدن میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہونے لگا۔ اس خودغرض نیشنل انٹرسٹ کی ایکسٹرنل پالیسی کا سب سے بڑا نقصان یہی ہوا کہ دوسری قسم کے وہ چھوٹے ممالک جو معیشت یا دفاعی لحاظ سے کمزور تھے آپس کی لڑائیوں میں آگ اور خون میں نہانے لگے۔ دوسروں پر جنگ انڈیل کر انٹرنیشنل مالی اور انٹرنیشنل سیاسی فائدہ اٹھاتے ہوئے خودغرض نیشنل انٹرسٹ کی ایکسٹرنل پالیسی میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا گیا جسے پہلے سِول وار اور بعد میں دہشت گردی کا نام دیا گیا۔ نئے انداز کی اِس جنگ کا فائدہ بھی پہلی قسم کے ممالک کو ہی ہوا۔ اِس سے عالمی سطح پر انہیں اپنی قیادت منوانے اور ’’ہیج منی‘‘ برقرار رکھنے کی کافی گنجائش مل گئی لیکن اِس سے دوسری قسم کے ممالک میں جہاں سِول وار یا دہشت گردی کے خونی تھیٹرز سجائے گئے وہاں بستی بستی اور شہروں شہروں موت کے رقص جاری ہوگئے۔ نیز یہ کہ متاثرہ ممالک کی تقریباً پوری معیشت فلاحی کاموں کے بجائے اپنے شہریوں کے دفاع میں لگ گئی۔ اب ذرا یہاں رک کر قدیم جنگوں اور موجودہ دہشت گردی کی جنگوں کو آمنے سامنے رکھ کر دیکھتے ہیں۔ پہلے قدیم زمانے میں اُن ممالک کی سرزمین پر جنگ و جدل ہوتی تھی اور پوری معیشت جنگ کی نذر ہوجاتی۔ اب اُن ممالک میں سکون ہے اور معیشت ترقی کررہی ہے جبکہ اُن کی خودغرض نیشنل انٹرسٹ کی ایکسٹرنل پالیسی کی وجہ سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آئے ممالک جنگ و جدل میں مبتلا ہیں اور اُن کی پوری معیشت بارود میں اُڑ رہی ہے۔ اس پوری منظرکشی میں پاکستان کو زیربحث لاتے ہیں۔ پاکستان ایک غریب اور ترقی پذیر ملک ہے۔ غریب اور ترقی پذیر ملک ہونے کے باعث منطقی طور پر اِس کی ہیج منی والی پالیسی ہوہی نہیں سکتی۔ البتہ پاکستان کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے دوطرح کے چیلنجز کا سامنا تھا۔ پہلا یہ کہ دفاع کی روایتی پالیسی جس میں دشمن کے مقابلے کے لیے اپنے آپ کو روایتی جنگی سازو سامان اور تربیت سے آراستہ کرنا، دوسرا یہ کہ خودغرض نیشنل انٹرسٹ کی ایکسٹرنل پالیسی کے حملوں سے بچنے کے لیے دہشت گردی کے خلاف غیرروایتی جنگی تربیت اور اسلحے وغیرہ کا معیار برقرار رکھنا ضروری تھا۔ اِن دونوں کاموں کے لیے مستقبل کی عقل و دانش، منصوبہ بندی، تربیت اور اسلحے وغیرہ کے ساتھ ساتھ بہت بڑے بجٹ کی بھی ضرورت تھی۔ دشمنوں اور بدخواہوں کے نزدیک اس کام کے لیے اگر پاکستان کے پاس مستقبل کی عقل و دانش اور منصوبہ بندی موجود بھی ہوتی تب بھی کمزور معیشت کے باعث پاکستان دہشت گردی جیسی جدید جنگ کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا لیکن پاک فوج کی اعلیٰ قیادت، افسروں اور جوانوں نے اکیسویں صدی میں ایک معجزے کو جنم دیا۔ اِس وقت پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں دہشت گردی جیسی خوفناک جنگ کے لاتعداد حملے کئے گئے لیکن پاک فوج نے اپنے آپ کو اِس ہولناک وارفیلڈ کے مطابق اتنی تیزی سے ڈھالا کہ دشمنوں اور بدخواہوں کو چکرا دیا۔ گویا پاک فوج نے دونوں طرح یعنی روایتی دفاعی جنگ اور غیرروایتی دہشت گردی کی جدید جنگ کے محاذ پر کامیاب دفاعی ذمہ داریاں نبھائیں۔ یہ سب کچھ ضرورت کے مطابق بہت بڑے بجٹ کے بجائے بہت کم بجٹ سے ممکن بنایا گیا۔ پاک فوج کی اِس مالی منصوبہ بندی کا منطقی اعتراف یوں کیا جاسکتا ہے کہ اگر شاندار معجزاتی منصوبہ بندی نہ ہوتی تو شاید پاکستان کی پوری معیشت بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اخراجات برداشت نہ کرسکتی۔ پاک فوج کی اس شاندار کامیابی کا دوسرا منطقی اعتراف یہ ہے کہ اگر پاک فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کامیابیاں حاصل نہ کرتی تو بھارت کی ’’کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن‘‘ جیسی خودغرض نیشنل انٹرسٹ کی ایکسٹرنل پالیسی کے تحت پاکستان کے چار ٹکڑے ہو چکے ہوتے۔ معاشی تجزیہ نگار ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق ’’پاک فوج دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے مگر پاک فوج کے ایک سولجر کی پیشہ ورانہ ضرورتوں اور تربیت پر اٹھنے والے سالانہ اخراجات سب سے کم ہیں۔ مثلاً امریکہ اپنے ایک فوجی پر 4لاکھ 60ہزار ڈالر، سعودی عرب 3لاکھ 40ہزار ڈالر، بھارت 33ہزار ڈالر اور پاکستان 12ہزار ڈالر سالانہ خرچ کرتا ہے‘‘۔ ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ ایک چاکلیٹ کی قیمت کم کرانا کتنا مشکل ہوتا ہے لیکن پاک فوج کی اعلیٰ قیادت نے روایتی اور غیرروایتی دفاعی جنگ کے دیوہیکل بجٹ کی ضرورت کو کیا عقل و دانش اور منصوبہ بندی کے ذریعے بہت کم بجٹ سے پورا نہیں کیا؟