میرے لئے یہ خبر دل دہلا دینے والی تھی کہ ساتھ ستر برس پرانے اور بوسیدہ نظام سے شہریوں کو بجلی کی سپلائی بحال رکھنے کی کوششوں میں مصروف پانچ لائن مین صرف دو دنوں میں جان کی بازی ہار گئے ہیں، لیسکو ایمپلائز پیغام یونین کے ایڈیشنل چئیرمین مسرور خٹک نے میری اطلاع میں اضافہ کیا کہ عید الاضحی سے لے کراب تک یہ تعداد آٹھ ہے مگر مجھے افسوس ہوا کہ ان کے پاس بھی شہید ہونے والوں کے نام تک بھی نہیں تھے۔ میں نے دیکھا کہ کمشنر گوجرانوالہ کے کتے کے گم ہونے پر انتظامیہ کی پھرتیوں کی رپورٹنگ کرنے والے میڈیا کے پاس بھی یہ خبر نہیں تھی گویا ان سب کا مرنا کمشنر کے کتے کے گم ہونے سے بھی غیر اہم تھا۔ میں نے تحقیق کی تو علم ہوا کہ وزیر اعظم تو ایک طرف رہے، وزیر پانی و بجلی حماد اظہر سے لے کر کسی لیسکو، فیپکو، حیسکو کے چھوٹے موٹے سی ای او نے بھی کوئی افسوس، کوئی تعزیت نہیں کی تھی۔میں نے پوچھا کہ ابھی حال ہی میں جناب خورشید احمد کی قیادت میں واپڈا ہائیڈر و الیکٹرک یونین کے نے سی بی اے کا الیکشن جیتا ہے کیا اس نے کوئی احتجاجی مظاہرہ کیا تو علم ہوا کہ نہیں، سی بی اے نے بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے پرائیویٹ چئیرمین لگانے پر ضرور مظاہرہ کیا تھا کہ اس سے کچھ ان کے مفادات وابستہ ہوں گے مگر لائن مینوں کے مرنے پر کوئی’ایکٹیویٹی‘نہیں۔ ابھی میں ان پانچ (اور آٹھ) کا نوحہ پڑھ رہا تھا کہ شیخوپورہ سے ایک اور خبر آ گئی مگر بتایا گیا کہ حادثہ جان لیوا نہیں تھا تاہم لائن مین ہسپتال پہنچ چکا ہے۔
میرے اپنے شہر میں انہی اڑتالیس گھنٹوں میں گیارہ ہزار واٹ کی تاروں سے چمٹ کر مرنے والے کا نام شفیق احمد تھا جس نے والٹن روڈ پر جان دی۔ جب ہم اسلام آباد کی طوفانی بارشوں میں بہتی ہوئی گاڑیوں کی ویڈیوز دیکھ رہے تھے تو وہاں اسسٹنٹ لائن مین طاہر علی اپنی جان کا نذرانہ پیش کر رہا تھا، گیپکو کاریاست بٹ، قصور کا عابد شاہ اور اسی طرح شبیر احمد۔چند روز پہلے میں نے پشاور کے نوجوان لائن مین کی ایسی تصویر دیکھی جس میں وہ بجلی کے جھٹکوں کے سے اپنے دونوں ہاتھ اور دونوں پاوں جھڑوا بیٹھا، میں سو چ رہا تھا کہ اب یہ زندگی کیسے گزارے گا کہ مجھے واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک یونین کے برادر ساجد کاظمی نے آگاہ کیا کہ اس نوجوان کا باپ بھی بجلی کی تاروں سے چمٹ کر ہلاک ہو گیا تھا اور اب یہ نوجوان اپنی بوڑھی ماں کا واحد سہارا تھا۔ میں نے سوچا کہ ہم ان لائن مینوں کی وجہ سے اپنے گھروں میں ائیرکنڈیشنرز لگا کر جو آرام اور مزے کی نیند سوتے ہیں کیا ان کو بدترین معذوری کا شکار ہونے یا پے در پے موت کے منہ میں جانے پر غازی یا شہید کا لقب بھی نہیں دے سکتے، یہ وہ شہید ہیں جن کو ان کا اپنا محکمہ شہید کہتے ہوئے ڈرتا اور شرماتا ہے کہ کہیں ان کے جنازوں میں شرکت ہی نہ کرنی پڑجائے، کہیں ان کے لئے کروڑ، دو کروڑ کا شہید پیکج ہی نہ دینا پڑ جائے۔ یہ وہ ہیں جن کے مرنے پر چالیس، پینتالیس لاکھ روپے ملتے بھی ہیں تو اس کے لئے جوتے گھسانے پڑتے ہیں، بیواوں کوافسروں کے تلوے چاٹنے پڑتے ہیں۔
میرے الفاظ پر میری معذرت قبول کیجئے گا مگر میں بہت دکھی ہوں،میں ان کا وہ دکھ اوردرد محسوس کر رہا ہوں جو شائد واپڈا کے یزید خود بھی محسوس نہیں کر رہے۔ میں پوچھ رہا ہوں کہ یہ لائن مین ان کتوں کی طرح کیوں مر رہے ہیں جنہیں بلدیہ والے کچلا ڈال دیتے ہیں۔ احسن گیلانی انچارج آف سیفٹی مئیرز میپکو ہیں، وہ بتا رہے تھے کہ تین حکومتیں ہو چکیں کہ بھرتیاں نہیں کی جا رہیں کیونکہ انتظامیہ بچت چاہتی ہے۔ بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں میں سیفٹی مینجمنٹ سسٹم ہی موجودد نہیں ہے اور جس ایک آدھ میں موجود ہے وہ بھی نام کا ہے۔میں نے جانا کہ قاتلوں میں پی ٹی آئی ہی نہیں بلکہ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کی حکومتیں بھی شامل ہیں۔ اس وقت مختلف جگہوں پر چالیس سے ساٹھ فیصد تک لائن سٹاف کی شارٹیج ہے اور لائن مینوں سے ہی ڈیسک پر کام لیا جا رہا ہے مگر معاملہ صرف یہ نہیں، سینئر صحافی اشرف مہتاب کا یہ انکشاف زیادہ تکلیف دہ تھا کہ ایک جگہ لائن سٹاف کی تعداد چھبیس ہے مگر وہاں کام کرنے والے صرف آٹھ سے بارہ کے درمیان ہیں کیونکہ یہاں غلط بھرتیاں اورایسے لوگوں کو پروموٹ کیا گیا ہے جو لائن کا کام کرنا تو کیا پلاس تک پکڑانا نہیں جانتے مگر وہ تنخواہوں کے ساتھ رسک اور نجانے کون کون سے الاونسز لے رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جو کام کرنے والے ہیں ان پر کام کا دباو بے حد بڑھ گیا ہے۔ وہ آٹھ، آٹھ نہیں بلکہ بحران میں سولہ، سولہ گھنٹے بھی ڈیوٹی کرتے ہیں، ایک ایک لائن مین کے پاس تیس، تیس سے پچاس، پچاس تک شکایات پہنچ سکتی ہیں۔ ایک بڑا ظلم یہ بھی ہے کہ کام کرنے والوں میں سے بہت ساروں کو نوکری کا تحفظ بھی حاصل نہیں ہے سو جب یہ تھک ہار جاتے ہیں تو غلطی کر بیٹھتے ہیں اور وہ غلطی جان لیوا ہوجاتی ہے۔
آپ پوچھتے ہیں کہ لائن مین کیوں مرتے ہیں اور ان کے لئے حفاظتی آلات کتنے ہیں تو یہ دیکھئے کہ لیسکو میں دوسو سب ڈویژنز ہیں، اکاون لاکھ رننگ جبکہ مجموعی طور پر چون لاکھ کسٹمرز ہیں اور یہاں لائن مینوں کے لئے صرف چالیس بکٹ موجود ہیں جن میں وہ حفاظت کے ساتھ بجلی کا کام کرسکتے ہیں مگر بدانتظامی صرف یہ نہیں کہ بکٹس کم ہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ تین شفٹوں میں ان بکٹس کو چلانے کے لئے ٹرینڈ ڈرائیورز بھی موجود نہیں ہیں۔پھر جب کوئی لائن مین مرتا ہے تو اس پرانکوائری کے لئے ایس ڈی او اور لائن سپرنٹنڈنٹ کو معطل کیا جاتا ہے مگر خود ادارے والوں کاکہنا ہے کہ کسی کو اس کی غلطی، کمی، کوتاہی کی سزا نہیں ملتی بلکہ مجھے چیلنج کے ساتھ بتایا گیا کہ وہ ایکسین ہو، ایس ڈی او یا لائن سپرنٹنڈنٹ، ٹرانسفر تک نہیں ہوتا، وہ دوبارہ دو ہفتوں میں اسی جگہ پوسٹنگ لے لیتا ہے۔ میں واپڈا اوراس کی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں معاملات کو دیکھتا ہوں تو خیال کرتا ہوں کہ بجلی کا محکمہ صرف اور صرف عوام سے بھاری بل اور ٹیکس لے کر سیاستدانوں اور افسرشاہی کے اللے تللے پورے کرنے کے لئے ہے مگر اس کے پاس گیارہ کے وی اے کی تاروں سے چمٹ کر مرجانے والے لائن مین کی لاش اتارنے کے لئے بھی وسائل نہیں ہیں۔
کیا میں واپڈا والوں سے زیادہ واپڈا والوں کا سگا ہوں کہ ان کی یونینیں ان کے لئے مظاہرے تک نہیں کرتیں، آواز تک نہیں اٹھاتیں۔ پیغام والوں سے پوچھا تو کہنے لگے کہ سی بی اے کے فنڈز ہمیں نہیں ملتے جنہیں ملتے ہیں ان سے پوچھیں اور سی بی اے والے کہتے ہیں کہ جنازوں میں ہم ہی جاتے ہیں دوسرے نہیں۔ حالات یہ ہیں کہ میں نے اپنے پروگرام میں جب بھی ان کی آواز اٹھانے کوشش کی تو مختلف یونین والو ں نے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے تک سے انکار کر دیا۔ ایک لائن مین جس کے دونوں ہاتھ بجلی کے جھٹکے سے کٹ چکے تھے، اسے دعوت دی تو اس نے جواب دیا کہ میری یونین کے عہدیدار کے ساتھ بلائیں گے تو میں آوں گا ورنہ نہیں۔ عہدیدار صاحب سے پوچھا کہ بھیج دیں تو بولے کہ مخالف یونین والے کے ساتھ تو یہ نہیں بیٹھے گا، آپ کے رپورٹر عدنان نے اس پر رپورٹ بنا رکھی ہے وہی چلا لیں۔ سو واپڈا کے پیارے لائن سٹاف، تم اگر قتل ہو رہے ہو تو قاتلوں میں تم خود بھی شامل ہو، تمہاری نااہلی، تمہاری کرپشن، تمہاری انائیں بھی شامل ہیں۔ میں بطور صحافی تمہاری خود کشی نما اموات کا ماتم کر سکتا ہوں سو کر دیا ہے۔