مرد مفاہمت شہباز شریف نے پی ٹی آئی حکومت بننے کے بعد اسکی مسلسل ناقص کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا ہمارا کام آسان ہو رہا ہے۔ اگلے عام انتخابات جب کبھی ہوں گے مسلم لیگ ن زیادہ بڑی اکثریت سے جیتے گی۔ صدر مسلم لیگ ن کے اس بیان پر انہی سطور میں سوال کیا گیا تھا کہ اگلے عام انتخابات کیا سویڈن کے الیکشن کمیشن نے کرانے ہیں؟ آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات کے بعد ایک بار پھر سے واضح ہوگیا کہ اصل چیز ووٹوں کی تعداد نہیں بلکہ وہ مرکز ہے جہاں سے آپ نے سیٹیں جیتنے کے لئے اجازت حاصل کرنی ہے۔ آسان بات تو یہ ہے کہ صرف یہ کہہ کر جان چھڑا لی جائے کہ جس کی حکومت وفاق میں ہوتی ہے وہی آزاد کشمیر میں حکومت بناتا ہے مگر معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ اسی سال جنوری میں لیگی رہنما رانا ثنا اللہ سے غیر رسمی گپ شپ کے دوران آزاد کشمیر کے انتخابات کی بات ہوئی تو محفل میں بعض دوسرے افراد کی موجودگی میں انہوں نے بلا جھجک بتایا کہ اسٹیبلشمنٹ نے کافی پہلے سے اپنا کام شروع کررکھا ہے۔ رانا ثنا اللہ نے نہ صرف اس افسر کا رینک اور نام بتایا جسے یہ مشن سونپا گیا تھا بلکہ یہ بھی بتایا کہ اگلا وزیر اعظم کون ہوگا۔جنوری سے جولائی تک کے وقفے میں اس پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی پھر ایک روز پتہ چلا کہ پی ٹی آئی ہی کے بعض لیڈروں کی شکایت پر مذکورہ افسر کو الیکشن سے چند روز قبل تبدیل کردیا گیا۔ یہ خالصتاً پی ٹی آئی کا اندرونی معاملہ تھا مگر بعض خوش فہم خواہ مخواہ تالیاں بجاتے رہے۔ اس تبادلے سے ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم سے لے کر مہم چلانے تک تمام اختیارات موصوف نے استعمال کئے۔ اس بات کی تصدیق وزیر اعظم عمران خان کی ایک جلسے میں کی جانے والے تقریر سے اس وقت ہوگئی جب انہوں نے کہا کہ ٹکٹوں تقسیم کرتے ہوئے اگر غلط امیدوار سامنے آگئے ہیں تب بھی ووٹ پی ٹی آئی کو ہی دئیے جائیں۔ آزاد کشمیر کے الیکشن کی مہم سے لے کر ووٹنگ پھر نتائج کے اجرا تک کسی بھی مرحلے پر یہ تاثر دور کرنے کی کوشش نہیں کی گئی کہ ایک طرف سیاسی جماعتیں ہیں تو دوسری طرف ایک پیج ہے۔ وزرا تو اب تک کھل کر کہہ رہے ہیں کہ فوج اور عدلیہ ہمارے ساتھ ہیں۔آزاد کشمیر الیکشن میں پردہ رکھنے کی رسمی کارروائی پوری کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔ پی ٹی آئی کے جھنڈوں سے سجی ایک گاڑی میں سرکاری اہلکار گھومتے نظر آئے۔ تصویر وائرل ہوگئی۔ مریم نواز نے ٹویٹر پر مذکورہ تصویر کے ساتھ سوالیہ نشان لگا کر ڈی جی آئی ایس پی آر کو مخاطب کیا مگر کسی نے نوٹس لینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ پی ٹی آئی کے امیدوار اپنے جلسوں میں سٹیج پر کھڑے ہوکر کہتے رہے کہ ادارے صرف ہمارا ساتھ ہی نہیں دے رہے بلکہ ہماری کامیابی کا انتظام مکمل کرکے ہمیں پیشگی اطلاع بھی دے چکے ہیں۔ وزارت عظمیٰ کے ارب پتی امیدوار نے جماعت اسلامی کے امیدوار کو اپنے حق میں بٹھانے کی تقریب میں بتایا کہ عبدالرشید ترابی صاحب کو ادارہ ہذا نے دستبردار کرایا ہے۔ یوں یہ بات واضح ہوگئی پہلے افسر کے تبادلے کے بعد آنے والے دوسرے افسر بھی اسی جذبے اور لگن سے کام کررہے ہیں۔ انتخابی عمل کو شفاف بنانے کا ذمہ دار الیکشن کمیشن اسی روز فوت ہوگیا تھا جب وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور نے علاقہ چھوڑنے کا حکم جوتے کی نوک پر رکھ کر اُڑا دیا۔الیکشن والے دن ایک ویڈیو وائرل ہوئی کہ ووٹنگ کا سامان تحریک انصاف کے امیدوار کے حامی اپنی گاڑی پر پولنگ سٹیشن پہنچا رہے تھے۔ خیر انتظامات مکمل تھے کہ کس نے جیتنا ہے اسکی سب سے بڑی وجہ صرف یہ ہی نہیں تھی کہ ن لیگ ٹارگٹ ہے۔ بلکہ پوری پی ڈی ایم اور اسکے ساتھ پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی وغیرہ کے دعوے کو بھی لے لیا جائے تو مسئلہ کشمیر کے حوالے وائٹ ہاؤس میں طے پانے والی انڈرسٹینڈنگ کے تحت کسی اور جماعت کو الیکشن جیتنے کا موقع دینے کا چانس لیا ہی نہیں جاسکتا تھا۔ اسی مبینہ مفاہمت کے تحت آزاد کشمیر کو الگ صوبہ بنا کر پاکستان میں ضم کیا جانا ہے تاکہ“حل شدہ“مسئلہ کشمیر کی کاغذی کارروائی بھی مکمل کرلی جائے۔ اگر بھارت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے ہڑپ کرنے کا
قدم اسی مفاہمت کے تحت اٹھایا تھا تو عمل کرنا اس لئے ضروری ہے کہ ضامن امریکہ ہے۔ یہ تو سب کو اچھی طرح پتہ ہے کہ امریکہ کو ناراض کرنے کی گنجائش نہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے ایسے دعووں کے ساتھ کچھ اور اشارے بھی ہیں۔ اچھا ہوا وزیر اعظم عمران خان ایک جلسہ کے دوران ہی آزاد کشمیر کو الگ صوبہ بنانے کی بظاہر تردید کرتے ہوئے نہ صرف تصدیق کردی بلکہ طریق کار بھی بتا دیا۔ یعنی پہلے ایک ریفرنڈم کرا کے پوچھا جائے گا کہ آپ نے پاکستان کے ساتھ رہنا ہے یا انڈیا کے ساتھ، پھر دوسرا ریفرنڈم ہونا کہ آپ نے اپنی الگ حیثیت برقرار رکھنی ہے یا پاکستان میں ضم ہونا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ریفرنڈم بھی حالیہ الیکشن کی طرز پر ہی ہوگا۔ سو اصل ٹارگٹ تو مسئلہ کشمیر نمٹانا ہی ہے۔ اگر یہ ٹاسک نہ بھی پورا کرنا ہوتا تو 2014 سے پوری رفتار سے جاری“ تبدیلی مہم“ کو جاری رکھنے کا پیغام بھی تمام حلقوں کو دینا مقصود ہے۔ اسی لئے مریم نواز نے اپنی جارحانہ اور بھرپور انتخابی مہم کے دوران سلیکٹڈ اور سلیکٹروں دونوں پر نہ صرف سخت تنقید کی بلکہ انہیں کشمیر فروش بھی قرار دیا۔ بڑے بڑے جلسوں میں اپنے خلاف ایسے الزامات کی بوچھاڑ نے حکومت اور اس کے سرپرستوں کو اضطراب میں مبتلا کردیا سو جوابی فری سٹائل حملوں کے لئے نے نہ صرف علی امین گنڈا پور بلکہ خود وزیر اعظم عمران خان کو بھی آگے آنا پڑا۔ ایک موقع پر جمائما بھی بیچ میں کود پڑیں اور حیران کن طور پر یہ الزام لگایا کہ صیہونی مخالف مظاہروں پر انہیں پاکستان چھوڑنا پڑا۔ یہ سراسر حقائق کے منافی بات ہے۔ایک تو ایسے مظاہرے ہوئے ہی نہیں۔دوسرے یہ کہ جب جمائما نے پاکستان چھوڑا تو اس وقت عمران خان کے دوست جنرل مشرف کی حکومت تھی۔ مریم نواز کی تقریریں اتنی جارحانہ اور جلسے اتنے بڑے تھے کہ الیکشن میں شکست دینے کے باوجود شیخ رشید جیسے جدی پشتی ترجمان کو یہ کہنا پڑا کہ بڑے جلسے کرکے الیکشن نہیں جیتا جاسکتا۔ ساتھ ہی وہ یہ دھمکیاں بھی دیتے رہے کہ مریم نواز کو سخت باتیں کرنے پر نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اسی دوران لندن میں افغان حکومت کے ایک وفد نے سرکاری طور پر سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کرکے تبادلہ خیال کیا۔ افغان حکومت نے اپنی ٹویٹر پر ملاقات کی خبر اور تصویر جاری کی۔ یہ معاملہ حکومت اور اس کے سرپرستوں کے لئے کسی دھماکے سے کم نہ تھا۔ ایک پارٹی اور اسکی جلا وطن قیادت جس کو مٹانے کے لیے مسلسل پاپڑ بیلے جارہے ہیں۔ انہیں دوسرے ممالک آج بھی اہم شخصیت کا درجہ دے کرملاقاتیں کرتے پھر رہے ہیں۔ پاکستان کے ریاستی ڈھانچے کے لئے اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ تھی کہ اس ملاقات کا اہتمام ایک بہت اہم عرب ملک نے کیا تھا۔ اس ملاقات سے حکومت کو اس قدر دھچکا لگا کہ“ پوری جنگی مشینری“ میدان میں جھونک دی۔ہراول دستے کے طور پر فواد چودھری اور شہزاد اکبر پریس کانفرنس کرنے آئے توبہت زیادہ دباؤ چہروں سے عیاں تھا۔ غدار، غدار کا راگ الاپتے فواد چودھری نے یہ بھی کہا اگر نواز شریف یہ ملاقات نہ کرتے تو ن لیگ کی سیٹیں پیپلز پارٹی کے برابر ہوتیں۔ گویا وہ بتا رہے کہ ہم نے آپ کی سیٹیں کم کردی ہیں۔ کچھ ایسی ہی گفتگو شیخ رشید نے بھی کی۔ آزاد تجزیہ کاروں کے مطابق ایسا ممکن نہیں تھا۔ ن لیگ کو ہر قیمت پر پیپلز پارٹی سے نیچے لانا تھا تاکہ عوام کو تاثر دیا جاسکے کہ پارٹی ختم ہورہی ہے۔ن لیگ کی قیادت نے صورتحال کو بھانپ کر تاک تاک کر نشانے لگائے اور اپنے بیانیہ کو پھیلایا۔ آزاد کشمیر الیکشن کی مہم مسلم لیگ ن کے مخالفین کے لئے کوئی خوشگوار تجربہ نہ تھی۔ سیٹیں بے شک جیت لیں مگر ایسا لگ نہیں رہا کہ مسلم لیگ ن کو مستقبل قریب میں نیست و نابود کیا جاسکتا ہے۔عین ممکن ہے کہ ایک دفعہ پھر پرانے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے عدلیہ، نیب، ایف آئی اے، کنڑولڈ میڈیا وغیرہ کے ذریعے بھرپور حملہ کیا جائے مگر سیاسی کشیدگی اور محاذ آرائی میں کوئی کمی آئے گی۔لیگی قیادت کو یقیناً احساس تو ہوگا کہ اگلے عام انتخابات میں ان سے کیا سلوک کرنے کا منصوبہ ہے سو وہ اسی حوالے سے تیاری اور اقدامات کریں گے۔ پی ڈی ایم کا رویہ بھی دیکھنا ہوگا۔ آثار یہی بتاتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کو ابھی کافی دیر تک حالت جنگ میں رہنا ہوگا۔ یہی اس کی بقا اور مقبولیت کی ضمانت ہے۔مفاہمتی موڈ اپنایا گیا تو فریق مخالف تہس نہس کر ڈالے گا۔ فی الحال یہ تاثر عام ہے کہ افغان معاملے، سی پیک اور کشمیر ایشو پر عالمی برادری بالخصوص امریکہ ہرگز نہیں چاہئے گا کہ موجودہ حکومتی بندوبست میں کوئی خلل پیدا ہو۔ لیکن چونکہ ملک کے اندر اب تک جیو اور جینے دو کی پالیسی اختیار نہیں کی گئی اس لیے معاملات ہموار طریقے سے چلنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ تجزیہ بھی یہی ہے اور اطلاعات بھی کہ آزاد کشمیر فتح کرنے کے بعد اگلا مورچہ سندھ میں لگایا جائے گا۔ اب تو اعلانات ہونا بھی شروع ہوگئے ہیں ان پر عمل کا وقت آیا تو زرداری اور بلاول سے کیے گئے تمام وعدے اور ان کی“ قربانیاں“ فراموش کردی جائیں گی۔ آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں وفاقی وزرا خصوصاً شیخ رشید نے بلاول کے متعلق جو الفاظ استعمال کئے اس سے واضح ہے کہ یہ سوچ اوپر تک پائی جاتی ہے۔ امریکہ کا دورہ کرنے یا شادی کی کسی تقریب میں شرکت کرکے برا وقت ٹالا نہیں جاسکتا۔ کہا جاتا ہے کہ اندرون سندھ پیپلز پارٹی کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ لیکن تصور کریں اگر پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ پر کرپشن کے مقدمات بنا کر گرفتاریاں کرکے نا اہلیاں کردی جائیں تو پارٹی کو کون سنبھالے گا۔یہ کس عدالت سے رجوع کریں گے۔ اعلیٰ عدلیہ کا موڈ جج صاحبان کی طرف سے بار بار دئیے گئے ریمارکس سے واضح ہو چکا ہے۔ پیپلز پارٹی سے سندھ وصول کرنے کا عمل شروع ہونے میں زیادہ دیر نہیں۔ اگلے انتخابات سے پہلے پہلے صفایا کرکے گراؤنڈ ہموار کی جائے گی۔ویسے یہ بھی ممکن ہے معاملہ بغیر کسی جھگڑے کے طے پا جائے۔آصف زرداری کی پیپلز پارٹی ق لیگ اور ایم کیو ایم کی طرح مرکز اور صوبے میں چند وزارتیں لے کر راضی ہو جائے۔ دیکھتے ہیں اب کیا ہوتا ہے مگر پیش قدمی ضرور ہوگی۔