منشور کی تیاری، میرے اندازے سے کہیں زیادہ مشکل اور پیچیدہ مشق تھی۔ اپنے کام کو سہل کرنے کے لئے میں نے بتیس ذیلی کمیٹیاں تشکیل دے کر اْنہیں اپنی خصوصی مہارت اور دلچسپی کے مطابق کام سونپ دیا۔ آئینی و قانونی اصلاحات، معیشت، صنعت و تجارت، زراعت، دفاع پاکستان ، امور خارجہ، تعلیم و صحت، نوجوانوں اور خواتین کے اُمور، ماحولیاتی تبدیلیوں، اقلیتوں کے حقوق، انفارمیشن ٹیکنالوجی، قومی سلامتی، توانائی، بلدیاتی نظام، سمندر پار پاکستانیوں، آزادیِٔ اظہار رائے، صحافیوں کے تحفظ اور کئی دیگر عنوانات سے قائم کمیٹیوں نے اپنے اپنے موضوعات پر بڑی محنت اور ریاضت سے کام کیا۔ معاشرے کے مختلف طبقات سے مشاورت کی۔ ماہرین سے رابطے کیے۔ ایک پورٹل کے ذریعے عوام کو شریکِ مشورہ کیا گیا۔ پورٹل کے ذریعے سات ہزار سے زائد افراد نے تجاویز دیں جن کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا۔ کمیٹیوں کی طرف سے موصول ہونے والی تفصیلی رپورٹس کی چھان بین اور قابل عمل نکات اخذ کرنے کے لئے ایک جائزہ کمیٹی مسلسل کام کرتی رہی۔ اس دوران پارٹی قائد جناب نواز شریف کی سربراہی میں اجلاس، منشور کی پیش رفت کا جائزہ لیتے رہے۔ ترامیم اور اضافوں کا سلسلہ آخری لمحے تک جاری رہا۔
نواز شریف اپنی اس تلقین کو مسلسل دہراتے رہے کہ ہم نے عوام سے وہی عہد و پیماں کرنے ہیں جن کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ سو کوئی ایسی بات نہ کی جائے جو محض خیالی اور تصوراتی ہو۔ ملک میں موجودہ اقتصادی صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک ایسا قابل عمل سیاسی ایجنڈا تشکیل دینا جو عوام کی توقعات پر پورا اترتا ہو، کوئی آسان کام نہ تھا۔ اس طرح کی مشق کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ میں نے اپنے اعصاب کو کبھی اتنے دبائو میں محسوس نہیں کیا جو منشور کی تیاری کے دوران مسلسل تنے رہے۔
اب یہ منشور عوام کے ہاتھ میں ہے۔اردو اور انگریزی مسودہ، سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے جس میں پانچ سالہ ایجنڈے کی مکمل تفصیل دی گئی۔ چیدہ چیدہ نکات الگ سے جاری کر دئیے گئے ہیں۔ سب سے زیادہ وقت معیشت کی بحالی، اس کی استواری اور عوام کو موجودہ مشکلات سے نکالنے کی تدابیر کو دیا گیا۔ مہنگائی اور بے روزگاری جیسے امراضِ کہن کی چارہ گری بڑی ترجیح رہی۔ مہنگائی کی موجودہ شرح بے قابو ہو چکی ہے جو تیس چالیس فی صدتک چلی جاتی ہے۔ہم نے طے کیا ہے کہ انتخابات میں کامیابی اور حکومت تشکیل دینے کا موقع ملا تو پہلے ہی مالی سال2024-25 تک مہنگائی کی شرح دس فی صد سے کم سطح پر لے آئیں گے۔اگلے چار سال یعنی 2029 تک ان شاء اللہ یہ شرح چار سے چھ فیصد تک لائیں گے۔ جی۔ ڈی۔ پی یعنی معیشت کی شرح نْمو کا پانچ سالہ ہدف اسے چھ فیصد سے اوپر تک لانا ہے۔ٹیکس کے نظام میں بنیادی اصلاحات لاتے ہوئے محصولات کو جی ڈی پی کے 13.5 فیصد پر لائیں گے۔ برآمدات کو
سہولتیں فراہم کرتے ہوئے پانچ سال میں انہیں60 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ غربت میں 25 فیصد کمی کرتے ہوئے فی کس آمدنی 2000 ڈالر سالانہ تک لائی جائے گی۔ایسے اقدامات تجویز کئے گئے ہیں کہ بیرون ملک سے ترسیلات ِزر 40 ارب ڈالر سالانہ تک آ جائیں۔ پہلے مرحلے میں بجلی کے بلوں میں 30 فیصد تک کمی کا ہدف ہے۔ کم آمدنی والے 35 لاکھ گھرانوں کے لئے دو کلو واٹ بجلی پیدا کرنے والے سولر پینلز آسان قرضوں پر فراہم کئے جائیں گے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے پانچ شہروں میں اعلیٰ ترین معیار کے ’آئی۔ ٹی پارکس ‘قائم کئے جا رہے ہیں جن سے لاکھوں نوجوانوں کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے اور ملازمتیں حاصل کرنے کے مواقع ملیں گے۔ خواتین کو معیشت کی نْمو میں کردار ادا کرنے کے مواقع کا منصوبہ بروئے کار لایا جائے گا جس کا بہت اچھا تجربہ بنگلہ دیش میں ہو چکا ہے۔ منشور کا اہم نکتہ بار بار تاخیر کا شکار ہونے والے دیامیر بھاشا ڈیم کی تکمیل ہے۔معیشت میں بڑے تحرک کی روشنی میں روزگار کے کم سے کم ایک کروڑ مواقع پیدا ہونے کا محتاط تخمینہ لگایا گیا ہے۔
سمندر پار پاکستانیوں کو پارلیمنٹ میں نمائندگی دینے کے لئے آئینی ترامیم کا عہد کیا گیا ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں کے لئے ایک عظیم الشان شہر کی بنیاد رکھی جائے گی جو زندگی کی جدید ترین سہولیات سے آراستہ ہوگا۔ جس میں انجینئرنگ، میڈیکل ،انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر علوم کے اعلیٰ ترین ادارے قائم کئے جائیں گے۔ اس شہر میں مقامی لوگ بھی پلاٹس لے سکیں گے جس کے طریقہ کار کی تفصیلات وقت آنے پر جاری ہوں گی۔ سمندر پار پاکستانیوں کو ہوائی اڈوں پر سہولت کے لئے خصوصی کائونٹرز کے علاوہ ان کے مسائل کے فوری حل کے لئے اوورسیز کورٹس کو مضبوط بنایا جا رہا ہے۔
’نیب ‘کو ختم کرنے پر خاصا غور و فکر ہوا۔ مشرف عہد کے اس سیاہ قانون کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں رہا کہ اسے کس طرح مذموم سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا۔ اعلیٰ عدالتیں بھی اس ادارے کی حیا باختہ سیاست زدگی کے بارے میں بہت کچھ کہہ چکی ہیں۔ یہ داستانیں بھی کم نہیں کہ کرپشن کے انسداد کا یہ ادارہ خود کس قدر کرپشن کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔ گزشتہ 25 برس کے دوران غالبا ًاپنا کوئی ایک مقدمہ بھی سپریم کورٹ کی سطح پر ثابت نہیں کر سکا۔ وقت آ گیا ہے کہ اس ادارے کو ختم کر کے انسداد بدعنوانی کے موجودہ اداروں کو زیادہ فعال، موثر اور مضبوط کیا جائے۔
ارکان پارلیمنٹ کی اہلیت اور نا اہلیت کے بارے میں شقیں 1956 کے آئین میں بھی موجود تھیں۔ انہیں 1973 کے آئین میں بھی اپنایا گیا۔ آرٹیکل 62 اور 63 ،صرف ایسی شرائط سے تعلق رکھتے تھے جن کو کسی پیمانے سے جانچا جا سکے۔ مثلا ً عمر، تعلیم، ووٹ کا اندراج، علاقائی تعلق، مجرمانہ ریکارڈ یا غیر ملکی شہریت۔ لیکن ضیا عہد کی آٹھویں ترمیم کے ذریعے اس میں ایسے ایسے پیوند لگا دئیے گئے جن کی جانچ پَرکھ کا پیمانہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ کوئی طریقہ نہیں کہ کسی کی نیک چلنی، امانت، دیانت، صداقت اور پاک دامنی کو جانچا تولا جا سکے لہٰذا ان شقوں نے 58 دو بی کی شکل اختیار کر لی اور جمہوریت کے لئے خطرہ بن گئیں۔ مسلم لیگ (ن ) نے عہد کیا ہے کہ ان شقوں کو 1973 کے آئین کی اصل شکل میں لایا جائے گا۔اسی طرح آرٹیکل 63 اے کو بھی بندیال کورٹ نے اپنے سیاسی مقصد کے لئے غلط تعبیر کا جامہ پہنا کر مسخ کر دیا۔ منشور میں عہد کیا گیا ہے کہ اس شق کی توضیح کرتے ہوئے طے کر دیا جائے گا کہ پارٹی قیادت کی ہدایات کے خلاف ووٹ دینے والا رکن سیٹ سے تو محروم ہو جائے گا لیکن اس کا ووٹ گنا جائے گا۔سب سے اہم بات یہ کہ منشور پر عمل کی نگرانی کرنے کے لئے ایک ’’نگرانی اور عمل درآمد کونسل‘‘ بھی قائم کی جا رہی ہے ،جو ہر تین ماہ بعد اپنی رپورٹ دیا کرے گی۔
منشور کی تیاری میں میرے بہت سے رفقائے کار کا کلیدی کردار ہے جن کا میں بے حد شکرگذار ہوں۔ بالخصوص منشور کمیٹی کی سیکریٹری اور رابطہ کار، مریم اورنگزیب کو خصوصی شاباش نہ دینا ناانصافی ہوگی جس نے اس وسیع منصوبے کو سمیٹنے، مرتب کرنے اور جامع شکل دینے کے لئے بے انتہا محنت کی۔