یہ آج سے تقریبا 122 سال پہلے کی ایک سہانی صبح کا ذکر ہے کہ ضلع سرگودھا کی ایک تحصیل بھیرہ جو تاریخی طور پر کبھی الیگزینڈر اور کبھی غزنوی اور کبھی درانی اور سکھ حکمرانوں کی یاد گاریں اپنے سینے پہ سجا ئے ہوئے ہے کے ایک نامور علمی خاندان بگویہ کے ھاں ایک ایسا چراغ روشن ہوا جس کی روشنی سے کئی انوارشرر فشاں ہونے تھے اور اس نے خاندان بگویہ کو چار چاند لگانے تھے ۔ میری مراد بلا شبہ ابوالخیر ظہور احمد اختر بگوی ہی ہیں۔ آپ کا ورود مسعود سن 1900 میں مولانا عبدالعزیز بگوی رحمہ اللہ کے ہاں ہوا ۔ ابتدائی تعلیم مولانا ذاکر بگوی سے حاصل کی اور گورنمنٹ ھائی سکول کی تعلیم کے بعد 1919 میں اسلامیہ کالج لاہور آ گئے۔
یہ وہ دور تھا جب برصغیر میں انگریز پوری طرح اپناتسلط جماچکے تھے اوروہ انگریزی تہذیب اورنظام تعلیم کومضبوط بنیاد وں پراستوارکررہے تھے اس بات کو ظہور احمد بگوی رحمہ اللہ نے کالج کی زندگی میںہی اچھی طرح سمجھ لیاتھا ایسے حالات میںجب درددل رکھنے والے مسلمان انگریزی تہذیب وتعلیم کامقابلہ کرنے کیلیے تعلیمی قلعے تعمیرکررہے تھے مساجدکے ساتھ ساتھ دینی مدارس قائم کرکے مسلم امہ کے ایمان اورعمل کوبچانے کی کوششیںہورہی تھی انکی خدمات اور حفاظت کے کارخیرمیںپنجاب کاایک معلوم ومعروف علمی خاندان بگویہ بھی پیش پیش تھاجس کے یہ چشم و چراغ تھے اسی جذبہ کے تحت آپ طالبعلمی کے دور ہی میںتحریک خلافت اورترک موالات میںشامل ہو گئے۔ چنانچہ آپ نے اپنے آقاومولیٰ کے دین کی حفاظت کی خاطرتعلیم کوخیربادکہااورضلع سرگودھاکے سیکرٹری تحریک خلافت مقرر ہوئے اور اس جوش و جذبے سے مسلمانوں کی سیادت و قیادت کا حق ادا کیا کہ جسے اقبالؒ نے کہا
تونے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحب اسرارکرے
موت کے آئینے میںدکھاکرتجھے رخ دوست
زندگی تیرے لیے اوربھی دشوارکرے
دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
تحریک خلافت کی جدوجہدمیںگرفتارہوئے اورڈھائی سال تک متحدہ پنجاب کی مختلف جیلوںمیںمشقت کاٹی مولاناظہوراحمدبگوی آزادی سے پہلے ہی آزادی کیلئے قربانی دینے والے ہراول دستے کے سرخیل بنے۔ آپ نے جیل سے رہائی کے بعدمسلمانوںکی دینی تعلیم وتربیت کیلیے مختلف ادارے قائم کیے۔
ہندوئوں کی تنظیم شدھی اورشنگھٹن کے فتنوںسے مسلمانوںکوبچانے کیلئے جماعت تبلیغ و تعلیم السلام شاہ پور قائم کی، اسی دوران آبائی شیر شاہی مسجد کی تعمیر نو اور آباد کاری کی جس میں نماز جمعہ اور پنج وقتہ نماز کا نظام بنایا جو الحمداللہ اب بھی جاری و ساری ہے۔
1920 اور 1925 کے دوران ماہنامہ شمس السلام بھیرہ جاری کیا۔
1860 سے قائم شدہ دار العلوم العزیزیہ جو بوجوہ بند تھا کا 1926 میں احیاء نو کیا۔
1929میں آل ہند مجلس مرکزیہ حزب النصا ر کی تشکیل کی جس کے اصلاحی اور سیاسی سر گرمیاں شروع کیں اور نوجوانوں کومستعد اور فعال رکھنے کے لیے فوج محمد ی قائم کی ۔
دفاع عظمت صحابہ کے لیئے قید و بند اور زبان بندی کی صعوبتیں برداشت کیں ۔
آزادی کی تمام تحریکوں میں بھر پور حصہ لیا لیکن کبھی آل انڈیا کانگریس کو جوائن نہیں کیا۔
19 جون1930 آل انڈیا مسلم لیگ بھیرہ قائم کی اور بانی صدر منتخب ہوئے۔
1940 کی قرارداد پاکستان کے ارض پاک کے حصول کی جدوجہد میں تن من دھن سے لگ گئے۔ مسلم لیگ کی تنظیم کو منظم کیا اور قائد کے پیغام کی قریہ قریہ پہنچا یا۔ انیس سو40اور 45 کے دوران ظہوراحمدبگوی مسلمانوںکیلئے آزادی کی ایک مضبوط آواز بن چکے تھے اور مسلم لیگ کے حلقوں میں نمایاںپہچان رکھتے تھے۔1940 کے اوائل میں مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے نوجوان طالبعلم جب پنجاب کے اضلاع میںاوردیہی علاقوں میں تحریک پاکستان کاپیغام لیکرپہنچے توان کیلئے بھیرہ اور سرگودھا کے گردنواح اجنبی نہ تھے ہرجگہ اورہرطرح سے مولانا ظہوراحمدبگوی نے انکی رہنمائی بھی کی اور ساتھ بھی دیا۔1945 میں میاںنواب محمدحیات قریشی مرحوم نے متحدہ مسلم لیگ سرگودھاکے متفقہ صدرخواجہ قمرالدین کی تائیدسے مولاناظہوراحمد کونئی ذمہ داریاںتفویض کی
1۔نائب صدرآل انڈیامسلم لیگ ضلع سرگودھا
2۔رکن صوبائی مجلس عاملہ پنجاب مسلم لیگ
مجلس حزب الانصارہرسال مارچ کے مہینے میںبھیرہ میں ایک تبلیغی کانفرنس منعقدکرتی ہے جس میںملک کے تمام مکاتب فکرکے چنیدہ علماء اورمسلمان بھاری تعدادمیںشرکت کرتے ہیںاسی سلسلہ میں 11 مارچ 1945ء کومجلس حزب الانصا رکے 15 ویںسالانہ اجلاس کے آخری دن میںاس مردمجاہدنے خطاب کیااورعوام کے تحریک پاکستان کی ضرورت اورپاکستان کی اہمیت سے آگاہ کیااسی اجلاس میںقیام پاکستان کیلئے ایک شانداراوربڑی واضح قراردادپیش کی گئی خلافت راشدہ کے طرزپرقیام پاکستان کے حق میں قراردادبھاری اکثریت سے پاس ہوئی۔ سچ بات تویہ ہے کہ ایسے مجاہدین ہی دراصل تحریک پاکستان کے اصل ہیروتھے جنہوںنے نامساعدحالات میںخلوص اوردیانتداری کے ساتھ اپنی زندگیاں ایک عظیم مقصدکیلیے تیاگ دیں۔1920سے تحریک خلافت جس کوبلاشبہ خلافت راشدہ کی تحریک سمجھتے تھے کے سفرکاآغازمولاناظہوراحمدبگوی کی مختصرزندگی کے آخری لمحات تک جاری رہا۔مولاناظہوراحمدبگوی اپنی زندگی کو رب ذوالجلال کی امانت سمجھتے تھے اوراسی کی خوشنودی کواپنامقصدحیات، قیام پاکستان کے حق میںقراردادپاس ہونے کے بعدتحریک پاکستان کے کاروان کے ہراول دستے کایہ عظیم راہی اپنے مالک سے ملنے کیلیے روانہ ہوگیاکہ جاکراسے اپنے قافلے کے منزل پرپہنچنے کی خوشخبری سناسکے
خدارحمت کنداین عاشقان پاک طینت را