اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس ہوا جس میں ایڈیشنل ہوم سیکریٹری فضیل اصغر نے ساہیوال واقعے پر بریفنگ دی۔
ایڈیشنل ہوم سیکریٹری پنجاب فضیل اصغر نے جے آئی ٹی رپورٹ کا نتیجہ کمیٹی کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ رپورٹ ابھی تک مکمل نہیں ہوئی اور اب تک یہ واضح ہے کہ خلیل اور اس کی فیملی بے گناہ تھی۔ مجھے معلوم ہے جے آئی ٹی کی رپورٹ کیا آئے گی اور ذیشان دہشتگرد ثابت ہو گا اور باقی لوگوں کو بے گناہ قرار دیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آپریشن کے کنڈکٹ کو غلط قرار دیا جائے گا جب کہ آپریشن کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی تجویز کی جائے گی۔
ایڈیشنل ہوم سیکرٹری فضیل اصغر نے کہا کہ ایک بات ثابت شدہ ہے کہ ذیشان کے دہشتگردوں کیساتھ روابط تھے جبکہ ذیشان کی عدیل کیساتھ سیلفی اور عدیل کی ذیشان کے گھر آمد دو ثبوت ہیں۔ ذیشان کی آلٹو گاڑی جو اوپن ٹرانسفر تھی اس کا اصل مالک عدیل تھا جبکہ دونوں کے فون اور انکی گفتگو اور میسجز بھی ثبوت ہیں کیونکہ 13 جنوری کو دونوں کی گاڑیوں نے اکٹھے ساہیوال کا سفر کیا تھا۔
ایڈیشنل ہوم سیکرٹری پنجاب نے تسلیم کیا کہ انسداد دہشت گردی کارروائی کا طریقہ درست نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ خدشات کے باوجود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ غلط کیا گیا اور اہلکاروں کو دیکھنا چاہیئے تھا کار کے اندر کون بیٹھا ہے۔ اگر بچے ہیں تو کسی منزل پر پہنچ کر دیکھتے اور اس واقعہ میں ساہیوال ریجن کے ڈی ایس پی اور ایس پی چین آف کمانڈ میں آتے ہیں۔ سی ٹی ڈی آئی جی کے انچارج ہیں جبکہ ایک سب انسپکٹر اور پانچ کاسٹیبل گرفتار ہیں۔ جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں ان کے خلاف کارروائی ہو گی اور انہیں کس نے فائرنگ کے احکامات دیے۔
ارکان کمیٹی نے گاڑی میں خودکش جیکٹ کی موجودگی کا دعوی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بریفنگ سے تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ فائرنگ کرنے والوں کو گاڑی میں خودکش جیکٹ کی موجودگی کا خدشہ ہوتا تو کبھی چار فٹ سے گولیاں نہ چلاتے بلکہ پچاس فٹ دور رہتے۔ ڈگی سے بیگ بغیر چیکنگ کے نکال کر لے گئے اور 13 سال کی بچی کو براہ راست گولیاں ماریں کیا اندھے تھے۔
سینیٹر بیرسٹر سیف نے کہا کہ اگر آپ کا مقصد صرف مارنا تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کلنگ اسکواڈ بنے ہوئے ہیں۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ روزانہ دہشتگردوں کو مارتے ہیں پتہ نہیں وہ کیسے دہشتگرد مارتا تھا جن کی طرف سے ایک فائر بھی نہیں ہوتا تھا۔
سینیٹر عثمان کاکڑ نے سی ٹی ڈی کے اب تک کیے گئے تمام آپریشنز پر پارلیمانی کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار ریاستی ادارے میں رہتے ہوئے دہشت گرد تھا۔ ریاست نے اس کے خلاف کیوں کاروائی نہیں کی۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار بھی اس کے سامنے بے بس تھے اور اس کے خلاف کاروائی ہوتی تو ساہیوال کا واقعہ رونما نہ ہوتا اگر ہم بہت کمزوری بھی دکھائیں تو اس معاملے پر کم از کم جوڈیشل کمیشن بننا چاہیے۔