اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پانامالیکس کیس کی سماعت کے دوران نیب ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈارنے چیئرمین نیب کو معافی کی تحریری درخواست خود دی تھی اور معافی مل جانے کے بعد وہ ملزم نہیں رہے۔وزیر اعظم کے بیٹوں کے وکیل کے دلائل کا مقصد یہ ہے کہ پانامالیکس انکشافات سے قبل تمام معاملات ٹھیک چل رہے تھے اور سب تعاون کررہے تھے ،جبکہ عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ ہمیشہ قرض لینے کیلئے بنکوں سے رجوع کیا جاتاہے لیکن رقوم کی منتقلی کیلئے بنکوں کی طرف نہیں جاتے یہ حقیقت ہے کہ حسین نواز وزیراعظم کے بیٹے ہیں اورحسین نواز کہتے ہیں کہ وہ کمپنیوں کے بینیفیشل مالک ہیں اس لئے ریکارڈ سامنے لائیں تو حقائق کا پتا چل سکتا ہے، آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ جائیدادیں حسین نواز کی ہیں اور یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ نواز شریف لندن فلیٹس کے مالک نہیں۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا ہے کہ کیارقم اونٹ پر لاد کرلائی گئی،جبکہ وزیر اعظم کے بیٹوںکے وکیل سلمان اکرم راجہ نے موقف اختیار کیا ہے کہ یہ میاں شریف کا دستیاب پرانا ریکارڈ پیش کردیا جس میں قرض سے متعلق کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں لیکن یہ تسلیم شدہ ہے کہ دبئی کی گلف فیکٹری 1973 میں قائم کی گئی اورگلف فیکٹری کے 75 فیصد شیئرز کی رقم بینک قرضے کی مد میں واپس کردی گئی۔ یہاں میاں شریف مرحوم کا ٹرائل ہورہا ہے، 1970 کے دہائی میں میاں شریف نے فیکٹری لگائی،چالیس سالہ ریکارڈ سنبھالنے کی کیا ضرورت تھی یہ اکائونٹ میاں شریف کے تھے، حسن اور حسین کے نہیں بارہ ملین درہم شریف فیملی کو فیکٹری کی فروخت سے ملے، ان چیزوں کا ریکارڈ مانگا جارہا ہے جن کا تعلق میاں شریف مرحوم سے ہے۔
سپریم کورٹ میں پانامالیکس کیس کی سماعت کے دوران وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان کی جانب سے میاں محمد شریف کے انتقال کے بعد ان کی وراثتی جائیداد کی تقسیم کی تفصیلات جمع کرادیں ۔ جائیداد کی تمام تفصیلات بند لفافے میں عدالت تک پہنچائی گئیں ۔ علاوہ ازیں نیب کی جانب سے اسحاق ڈار کی معافی سے متعلق ریکارڈ بھی پیش کردیا گیا ہے تاہم عدالت نے نیب حکام کو حکم دیا ہے کہ اس اجلاس کی کاروائی کے منٹس عدالت میں پیش کئے جائیں جس میں اسحاق ڈار کو معافی دینے کافیصلہ کیاگیا،عدالت نے اٹارنی جنرل سے تحریری جواب طلب کرتے ہوئے کہاہے کہ بتایاجائے اسحاق ڈار کو دی گئی معافی کے فیصلہ کیخلاف نیب، ایس ای سی پی اور سٹیٹ بینک نے اپیل کیوں دائر نہیں کی۔پیر کو جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمی کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے پانامالیکس کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو نیب نے اسحاق ڈار کی معافی سے متعلق ریکارڈ عدالت میں جمع کرا دیا ۔
اس دوران وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ اسحاق ڈار کی نااہلی کیلئے لاہو ر ہائیکورٹ سے درخواست اورانٹرا کورٹ اپیلیں خارج ہوئیں ، نواز شریف اور دیگر کے خلاف ریفرنس خارج کرنے کا معاملہ رپورٹ کیا جا چکا ہے جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ فیصلہ میں ریفرنس خارج اور تفتیش نہ کرنے کا کہا گیا ؟ وکیل نے جوا ب دیا کہ دوبارہ تفتیش پر 2رکنی بینچ میں اختلاف تھا اسلئے فیصلہ ریفری جج نے سنایا ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ منی لانڈرنگ کسی میں ریفری جج کو اپنی رائے پر فیصلہ دینا تھا۔ آپ دلائل مکمل کرلیں پھر پراسیکیوٹر جنرل نیب سے پوچھیں گے کہ اسحاق ڈار کو مکمل معافی دی گئی ، اسحاق ڈار نے چیئرمین نیب کو معافی کی تحریری درخواست خود دی اور معافی کے بعد اسحاق ڈار ملزم نہیں رہے ۔
شاہد حامد نے جواب دیا کہ ریفری جج نے نیب کی دوبارہ تحقیقات کی درخواست مسترد کی جس پر جسٹس گلزار احمد نے شاہد حامد کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا اس عدالتی فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ؟اسحاق ڈار کے وکیل نے دلائل دیئے کہ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا گیا اور اب عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا وقت ختم ہو چکا ۔جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈار کا اعترافی بیان وعدہ معاف گوا ہ بننے کے بعد ریکارڈ ہوا، کیا وعدہ معاف گواہ بننے والے کی حفاظت کیلئے اسے تحویل میں رکھا جاتا ہے ،بتایا جائے کیا بیان ریکارڈ کرانے والا مجسٹریٹ عدالت میں پیش ہواتو وکیل نے بتایا کہ اس وقت نیب قوانین کے تحت مجسٹریٹ کا پیش ہونا ضروری نہیں تھا ۔ اسحاق ڈار پر منی لانڈرنگ کیس ختم ہو گیا اب صرف الزام کی بنیاد پر نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ یہ 25سال پرانا معاملہ ہے جسے 13سے زائد ججز سن چکے ہیں ۔منی لانڈرنگ کے الزام کے وقت اسحاق ڈار کے پاس عوامی عہدہ نہیں تھا ۔
نیب ریکارڈ کے مطابق اسحاق ڈار اب ملزم نہیں رہے۔ شاہد حامد نے بتایا کہ ہائیکورٹ کے 5ججز نے کہا کہ ایف آئی اے کو بیرونی اکائونٹس تحقیقات کاا ختیار ہے۔ شاہد حامد نے کہاکہ ضابطہ فوجداری میں دفعہ چھبیس کے تحت اسحآق ڈار کا دوبارہ ٹرائل نہیں ہوسکتا، تو جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ یہاں ہم اسحاق ڈار کے اعترافی بیان پر قانون کے علاوہ غور نہیں کریں گے، جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ یہاں اسحاق ڈار کیس پر ڈبل جیوپرڈی کا اصول لاگو ہو گا،آپ اس نکتے پر دلائل دیں کہ ایک شخص کا دو مرتبہ ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں، جسٹس گلزار نے کہاکہ اسحاق ڈار کو اس کیس میں معافی کے بعد سزا نہیں ہوئی، شاہد حامد نے کہاکہ مشرف دور میں رانا ثنا اللہ کا سر اور بھنویں منڈوا دی گئیں تھیں۔انہوں نے کسی بینک یا مالیاتی ادارے کی ایک روپیہ بھی نہیں دینا تھا اور نہ کوئی مقدمہ تھا، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد اسحاق ڈار کیخلاف نااہلیت کا حکم جاری نہیں کیا جا سکتا، شاہد حامد کے دلائل مکمل ہوئے تو پراسیکیوٹر جنرل وقاص قدیرڈار نیب نے اسحاق ڈار کیس سے متعلق دلائل شروع کرتے ہوئے کہاکہ نیب کے اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ حدیبیہ پیپر ملز کیس میں اپیل دائر نہیں کی جائے گی، جس پر عدالت نے اس اجلاس کی کاروائی کے منٹس طلب کر لیے،پراسیکیوٹر نیب کاکہنا تھاکہ 20 اپریل کو اسحاق ڈار نے معافی کی درخواست دی، جسٹس آصف کھوسہ نے سوال اٹھائے کہ کیا اسحاق ڈار نے درخواست خود لکھی تھی، اورٹارنی جنرل بتائیں کہ نیب، ایس ای سی پی اور سٹیٹ بینک نے اپیل کیوں دائر نہیں کی۔
نیب کی جانب سے اسحاق ڈار کی معافی سے متعلق جواب 50صفحات پر مشتمل ہے ،جس میں بتایا گیا ہے کہ نیب ریکارڈ کے مطابق 20اپریل 2000کو اسحاق ڈار نے معافی کی درخواست دی اور 21اپریل کو چیئرمین نیب نے معافی کی درخواست منظور کی،جس کے بعد 24اپریل کو تحقیقاتی افسر نے بیان ریکارڈ کرنے کی درخواست دی۔جس کی بنیاد پر25 اپریل کو اسحاق ڈار کا اعترافی بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ ھوا۔جس پر عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں اسحاق ڈار کے خلاف پیش کئے جانے والے ریفرنس کی منسوخی پر نیب کو تشویش ہونی چاہیئے تھی ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیا نیب ریفرنس میں صرف ایک ثبوت یا شہادت کافی تھی ، اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نیب لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے سے مطمئن ہے ، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کیا کیس کی ازسر نو تحقیقات کے معاملے پر اپیل نہیں کرنی چاہیئے تھی ۔اس موقع پروزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان کی جانب سے میاں محمد شریف کے انتقال کے بعد ان کی وراثتی جائیداد کی تقسیم کی تفصیلات جمع کرادیں ،جائیداد کی تمام تفصیلات بند لفافے میں عدالت تک پہنچائی گئیں۔
پراسیکیوٹر جنرل نیب کے دلائل مکمل ہونے پر وزیر اعظم کے بیٹوں حسین نواز اورحسن نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل کا آگاز کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ میرے کیس کے تین پہلو ہیں، تینوں پہلوں پر دلائل دونگا،ان کاکہناتھا کہ حسین نواز لندن فلیٹس کے بینیفیشل اونر ہیں، نواز شریف کا لندن فلیٹ سے تعلق نہیں،جبکہ الزام یہ ہے کہ حسین نواز بے نامی دار ہیں اور اصل مالک نواز شریف ہیں، جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ جائیدادیں حسین نواز کی ہیں اور یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ نواز شریف لندن فلیٹس کے مالک نہیں،سلمان اکرم نے کہا کہ درخواست گزار کی استدعا میں تضاد ہے، درخواست گزار چاہتا ہے کہ لوٹی گئی رقم سے متعلق تحقیقات کی جائیں، جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ اس مقدمہ میں الزام ہے کہ لوٹی ہوئی رقم سے منی لانڈرنگ کی گئی، سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ منی لانڈرنگ کا تعین آرٹیکل 184/3 کے مقدمے میں نہیں ہوسکتا۔آرٹیکل 184 /3میں عدالتی اختیارات وسیع ہے تاہم دوسرے اداروں کا کام عدالت نہیں کرسکتی اورعدالت کے سامنے الزام لگانے والوں نے شواہد نہیں رکھے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ یہ حقیقت ہے کہ حسین نواز وزیراعظم کے بیٹے ہیں اورحسین نواز کہتے ہیں کہ وہ کمپنیوں کے بینیفیشل مالک ہیں اس لئے ریکارڈ سامنے لائیں تو حقائق کا پتا چل سکتا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کمپنیوں کے ریکارڈ تک رسائی حسین نواز کو ہے،آف شور کمپنیوں کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا جائے، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہاکہ عدالت پہلے قانون کو دیکھ لے جس کے مطابق شواہد فراہم کرنا الزام لگانے والے کی ذمہ داری ہے۔ملزم الزام ثابت ہونے تک معصوم ہوتا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال اٹھاتے ہوئے استفسارکیا کہ بتایاجائے گلف فیکٹری کب سے کمرشلی آپریشنل ہوئی؟ گلف فیکٹری کے لیے قرض کب لیاگیا؟ گلف فیکٹری کے لیے قرض کن شرائط پر لیا گیا، قرض کس چیز پر لیا گیا یہ تو واضح ہی نہیں، ؟جس پر سلمان اکرم راجانے کہاکہ یہ میاں شریف کا پرانا ریکارڈ ہے جو پیش کر رہا ہوں جس میں قرض سے متعلق کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں لیکن یہ تسلیم شدہ ہے کہ دبئی کی گلف فیکٹری 1973 میں قائم کی گئی اورگلف فیکٹری کے 75 فیصد شیئرز کی رقم بینک قرضے کی مد میں واپس کردی گئی۔ان کاکہنا تھا کہ : یہاں میاں شریف مرحوم کا ٹرائل ہورہا ہے، 1970 کے دہائی میں میاں شریف نے فیکٹری لگائی،چالیس سالہ ریکارڈ سنبھالنے کی کیا ضرورت تھی،کیونکہ یہ اکائونٹ میاں شریف کے تھے، حسن اور حسین کے نہیں۔انہوں نے کہاکہ بارہ ملین درہم شریف فیملی کو فیکٹری کی فروخت سے ملے، ان چیزوں کا ریکارڈ مانگا جارہا ہے جن کا تعلق میاں شریف مرحوم سے ہے، سلمان اکرم راجانے مزید کہاکہ 1980 میں دبئی اسٹیل کی فروخت کے دستاویز پر طارق شفیع نے خود دستخط کئے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ طارق شفیع کے دستخطوں میں بہت زیادہ فرق لگتا ہے،طارق شفیع کے بیان حلفی اور فیکٹری فروخت کے معاہدے پر دستخط میں فرق واضح ہے، جس پر سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ وقت گزرنے کے ساتھ دستخط میں فرق آہی جاتا ہے،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نقطہ اٹھایا کہ 1972 میں فیکٹری کا پیسہ دبئی گیا، کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ پیسا کہاں سے آیا، صرف کہا گیا کہ قرض لیکر فیکٹری لگائی ،،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ دبئی فیکٹری کے لیے پیسہ پاکستان سے دبئی نہیں گیا۔ پاکستان سے دوبئی نہیں گیا کسی کے پاس حقائق ہیں تو سامنے لائے ،اس موقع پر جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ آہستہ آہستہ ہمیں ساتھ لیکر چلیں کیونکہ آپ نے ہمارے زہین کو کلیئر کرنا ہے، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ انہیں کوئی جلدی نہیںجسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ ہم کیس کے ہر پہلو کو جاننا چاہتے ہیں لیکن آپ جو کہانی سنا رہے ہیں وہ پہلے بھی سنی جاچکی ہے ۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں تو صرف فیکٹری سے متعلق معاہدوں کو پڑھ رہا ہوں۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ تقریروں بیانات میں دوبئی جدہ لندن کا زکر تھا ۔ وزیر اعظم نے کہا تھا ثبوتوں کا انبار ہے۔ سلمان اکرم کاکہنا تھا کہ عدالت میں معاملہ چار فلیٹوں کا ہے ،جسٹس آصف سعید نے کہا کہ طارق شفیع کے پہلے بیان حلفی میں زکر نہیں کہ فیکٹری واجبات کیسے ادا ہوئے ۔
سلمان اکرم نے کہا کہ دوسرے بیان حلفی میں طارق شفیع نے بتایا ہے 12ملین قسطوں میں قطری کو دیئے۔جسٹس عظمت سعید نے برجستہ کہاکہ کیا اونٹوں پر لاد کر یہ رقم پہنچائی گئی۔سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ نقد رقم پر دنیا بھر میں کاروبار ہوتا ہے غلط مطلب نہ لیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ دوسری جانب سے میرے خلاف کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا۔جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ جن سوالات کے جواب نہ آئیں تو ان کا کیا کیا جائے ۔ سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ مجھ سے حسن و حسین کے متعلق پوچھا جائے۔جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ اس کا مطلب ہے پیچھے کوئی نہیں رہ گیا ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے دلائل کا مقصد یہ ہے کہ پانامالیکس انکشافات سے قبل تمام معاملات ٹھیک چل رہے تھے اور سب تعاون کررہے تھے ،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ آپ ہمیشہ قرض لینے کیلئے بنکوں سے رجوع کرتے ہین لیکن رقوم کی منتقلی کیلئے بنکوں کی طرف نہیں جاتے ۔
سلمان اکرم راجہ کے دلائل جاری تھے کہ عدالتی وقت ختم ہونے پر کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔