نئی دہلی: بھارتی کسانوں نے مودی حکومت سے مذاکرات ناکام ہونے کے بعد پنجاب بند کرنے کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت ریاست بھر میں مکمل ہڑتال کی جائے گی۔ کسانوں کی جانب سے یہ فیصلہ حکومت کی کسان مخالف پالیسیوں کے خلاف احتجاجاً کیا گیا ہے، جس کے تحت پنجاب کی سڑکوں، بازاروں اور تعلیمی اداروں میں تعطیلی ہوگی۔
پنجاب میں کسانوں نے احتجاج کا آغاز کرتے ہوئے ریاست کی تمام اہم سڑکوں کو بند کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں ٹریفک کا نظام مکمل طور پر متاثر ہو چکا ہے۔ کاروباری مراکز، بازار، اور دکانیں بھی بند ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی اور گرونانک یونیورسٹی نے اپنے امتحانات ملتوی کر دیے ہیں، جبکہ منڈیوں میں پھل اور سبزیوں کی ترسیل بھی معطل ہو چکی ہے۔ دودھ کی فراہمی کرنے والے دکاندار بھی سڑکوں پر نظر نہیں آئے۔
مظاہرین نے پنجاب میں 200 سے زائد مقامات پر پہیہ جام کر دیا ہے اور 50 سے زیادہ مقامات پر ریلوے ٹریک بلاک کر دیے ہیں۔ اس سے قبل کسانوں نے دہلی چلو اور ریل روکو تحریکیں بھی چلائی تھیں اور اب ’پنجاب بند‘ کا اعلان کیا گیا ہے۔
کسانوں نے اپنی تحریک کے دوران حکومت سے 14 اہم مطالبات کیے ہیں، جن میں سے کچھ اہم مطالبات درج ذیل ہیں۔ مرکزی حکومت ایک ایسا قانون منظور کرے جس میں ملک بھر میں تمام فصلوں کی خریداری کے لیے کم از کم امدادی قیمت کی ضمانت ہو۔ کسانوں اور مزدوروں کے تمام قرضوں کو مکمل طور پر معاف کیا جائے۔ ’حصول اراضی ایکٹ 2013‘ کو دوبارہ نافذ کیا جائے تاکہ زمین کی خریداری کے لیے کسان کی تحریری رضامندی لازمی ہو۔
اکتوبر 2021 میں لکھیم پور کھیری تشدد کے متاثرین کے لیے انصاف فراہم کیا جائے اور مجرموں کو سخت سزائیں دی جائیں۔
بھارت کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) سے دستبردار ہونا چاہیے اور تمام آزاد تجارتی معاہدوں کو معطل کیا جائے۔کسانوں کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے، احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ان کا موقف ہے کہ حکومت کی کسانوں کے خلاف پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف ان کی زندگیوں میں مشکلات بڑھ رہی ہیں بلکہ ملک بھر کے کسانوں کی فلاح و بہبود کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
کسانوں نے یہ بھی کہا ہے کہ حکومت کے اقدامات کے خلاف ان کی جدوجہد میں شدت لائی جائے گی تاکہ ان کے حقوق کا تحفظ ممکن ہو سکے۔