عالمی سطح پر جامعات کی تعلیمی کارکردگی کو جانچنے کا ایک معیار مقرر ہے، عرف عام میں اسے ”رینکنگ“ کہتے ہیں، جس کاتعلق تحقیق سے ہے، جو طلبہ و طالبات سے نگران اساتذہ کی زیر نگرانی کرائی جاتی ہے، اس کے اطلاق سے سماجی اور دیگر مسائل کا حل نکالا جاتا ہے، ہمارے ہاں اس طرح کی روایت کبھی پختہ نہیں رہی، رینکنگ کی صف میں شامل نہ ہونے کا جامعات کی انتظامیہ نے مقامی میڈیا کی وساطت سے ”عوامی مقبولیت“ کا نیا حل نکالا ہے، اسے وہ عالمی رینکنگ کا نعم البدل گردانتے ہیں۔ مگر تلخ حقیقت یہ ہے بہت سے سکالرز اپنے نگرانوں کی”عنایات“ کی تاب نہ لانے کی پاداش میں تحقیق کی دوڑ ہی سے باہر کر دیئے جاتے ہیں، اس نالائقی کا سارا ملبہ بھی سکالرز پر ڈال دیا جاتا ہے،دلیل یہ دی جاتی ہے کہ پوری دنیا کا راہنما اصول یہ ہے کہ کبھی سپروائزر کی ناراضی مول نہ لیں،ورنہ ”ڈاکٹر“ بننے کی حسرت دل ہی میں رہ جائے گی۔
راقم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا،یہ2008 کی بد قسمت صبح تھی جب ہم نے ایک پیارے دوست سید محسن ارشد خاں بختیاوری کے ساتھ ان کے مشورہ سے بہاولپور کا رخت سفر باندھا اور جامعہ اسلامیہ بہاولپور شعبہ سیاسیات میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لے لیا،کورس ورک کی تکمیل میں یہ اعزاز حاصل ہوا سب فیلوز میں سے امتیازی نمبر لئے، اب ریسرچ کا مرحلہ درپیش تھا، اس وقت ڈیپارٹمنٹ میں ڈاکٹر رضیہ مسرت تھیں وہ چیئرپرسن کی کرسی پر بھی برا جمان تھیں، حکم صادر ہوا کہ جلد از جلد ریسرچ پرپوزل جمع کرائیں تاکہ بورڈ آف ایڈوانس سٹڈیز میں آپ کا کیس بھیجا جائے، مگر یہ مرحلہ2014 میں طے ہوا وہ بھی دوسری نگران محترمہ ڈاکٹر یاسمین روفی کی زیر نگرانی،اس دوران حیلے بہانوں سے ہمیں اپنے دوست اور دیگر کلاس فیلوز سمیت تحقیق کے عمل سے باہر کرنے کی دانستہ کاوش کی گئی، یوں چھ سال ہم مختلف الزامات کی زد میں رہے، بحیثیت طالب علم مودبانہ انداز میں منت سماجت سے لے اعلیٰ حکام تک اپنی بات پہنچانے کی سنجیدہ کاوش کی، فارمیسی کے ہیڈ ڈاکٹر محمود جو برسر کی اضافی ذمہ داری انجام دے رہے تھے انھوں نے ایک روز سرکاری فون نمبر سے خوش خبری دی کہ آپ کی درخواست پر ریسرچ ورک دوسری جامعہ میں منتقل کیا جا رہا ہے، مگر یہ مرحلہ تاحال نہیں آیا، ہماری منت سماجت کا فائدہ یہ ہوا کہ شعبہ اردو کے استاد شفیق نے سابقہ چیئر پرسن ڈاکٹر رضیہ مسرت سے ڈاکٹر
مصور بخاری موجودہ چیئرمین کی موجودگی میں معافی تلافی کرائی اور طے ہوا کہ بخاری محترم کی زیر نگرانی تحقیق کا عمل مگر نئے عنوان کے تحت مکمل کیا جائے گا، ان کی قدم بوسی کی، کچھ ہدایات لے کر ہم دونوں دوست رخصت ہوئے ہفتہ کے بعد نئے ٹاپک پر synopsis جمع کرانے کا طے ہوا، ملتان روانگی سے قبل فون کیا تو ڈاکٹر مصور بخاری محترم نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ میڈم رضیہ مسرت سابق چیئرپرسن نے آپ کی نگرانی سے مجھے منع کیا ہے، اب مزید گھوڑے دوڑائے، جماعت اسلامی کے راہنما ممبر صوبائی اسمبلی ڈاکٹر سید وسیم اختر مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوئے استدعا کی کہ ہمارا ریسرچ ورک پنجاب کی کسی بھی جامعہ میں منتقل کر دیا جائے، اس سے چیئر پرسن صاف انکاری ہو گئیں، یہ نشست میڈم رضیہ کے بھائی کے گھر ماڈل ٹاؤن بہاولپور میں ہوئی وہ بھی کسی شعبہ کے سربراہ تھے، طے ہوا کہ نئے عنوان اور نئی سپروائزر کے ساتھ کام کرنے کی اجازت ہو گی، یوں نیا synopsis پیش کیا گیا، جس کی منظوری محترم پروفیسر ڈاکٹر ایاز محمد رانا سابق ڈین فیکلٹی آف آرٹس بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی نے دی، راقم کی موجودگی میں انھوں نے محترم ڈاکٹرمصور بخاری سے کہا آپ اسے کام کیوں نہیں کرانا چاہتے جب کہ سکالر کرنا چاہتا ہے، کلاس ورک کی تکمیل کے سات سال بعد محترمہ ڈاکٹر یاسمین روفی کی زیر نگرانی پی ایچ ڈی کیریئر میں 2014 میں میرا کیس پہلی دفعہ بورڈآف ایڈوانس سٹڈیز میں گیا، ڈاکٹریٹ کے لئے یونیورسٹی کی طے کردہ مدت میں اس وقت صرف سولہ ماہ باقی تھے بورڈ کی طرف سے جاری کردہ اعلامیہ میں اس کا کوئی تذکرہ نہ تھا۔
تیسرے سمسٹر کا آغاز ہوا تو شعبہ کے ایڈمن نے فون پر مطلع کیا کہ اس کی فیس جمع کرائی جائے، قابل ذکر ہے کہ دوران تعلیم ہمیں کبھی شعبہ کی طرف کوئی تحریری حکم نامہ کسی بھی ہدایت کی صورت میں جاری نہیں کیا جاتا تھا، دلچسپ یہ ہے کہ شعبہ کی ڈاکٹریل کمیٹی بھی تب وجود میں آئی جب ہمارا ایشو زیر بحث آیا۔ جب فیس جمع کرانے گئے تو ایڈمن کی موجودگی میں چیئرپرسن نے ہماری فیس جمع کرنے سے منع کر دیا، بعد ازاں ہم نے یہ جرمانے کے ساتھ ادا کی۔ شو مئی قسمت خدا خدا کر کے ہمارا ٹاپک ایڈوانس سٹڈی بورڈ سے منظور ہوا، اس کے چند ماہ بعد ہی ہماری نئی سپروائزر محترمہ ڈاکٹر یاسمین روفی پوسٹ ڈاکٹریٹ کے لئے سویڈن سدھار گئیں، ہمیں شعبہ کی جانب سے سرکاری طور پر مطلع کیا گیا نہ ہی انکی عدم موجودگی میں ”کو سپروائزر“ مقرر کیا، تاہم میڈم نے ای۔ میل سے رابطہ رکھنے کا حکم صادر فرمایا، یہ بھی فرمایا انکے خیال میں جب سپر وائزر اور مقالے کا عنوان تبدیل ہو تو مقالہ جمع کرانے کی مدت بڑھ جاتی ہے، دلچسپ امر یہ ہے کہ راقم نے جامعہ کی مقرر کردہ مدت میں ہی سافٹ فارم میں مکمل مقالہ برائے پی ایچ ڈی اپنی سپروائزر کو بیرون ملک بذریعہ ای۔میل بھجوا دیا انھوں نے بھی شفقت فرماتے ہوئے اس وقت کی چیئر پرسن کو تحریری آگاہ کر دیا۔ ہم نے انصاف کے حصول کے لئے عدالت عالیہ کے در پر دستک دی، معزز جج نے عطار کے اس لونڈے کے پاس بھیج دیا جس کے سبب ہم بیمار تھے، وی سی محترم نے ذاتی شنوائی کی موقف سے اتفاق مگر یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ آپ کو ریلیف دینے کا مطلب بہت سے سکالرز کے لئے نیا در کھولنا ہے، انکے حکم کو پھر چیلنج کیا، دوسرے معزز جج نے ہماری بات سے اتفاق کیا مگر وہی سلوک کیا جو پہلے معزز جسٹس نے کیا، اتنا اضافہ کیا کہ آپ کا آرڈر تعصب پر مبنی ہے حکم نامہ لکھ کر دوبارہ وائس چانسلر کے پاس ذاتی شنوائی کے لئے بھیج دیا، انھوں کمال مہارت سے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پہلے وی سی کے فیصلے کے عین مطابق عدالت کو لکھ بھیجا۔ رعایت یہ دی کہ دوبارہ پی ایچ ڈی میں داخلہ لیں تو انھیں ڈگری ضرور دیں گے۔
تمام مواقع پر ہم نے دستاویزی ثبوت فراہم کیے اور کہا کہ غلطی جامعہ کی ہے اسکی سزا مجھے کیوں دی جا رہی ہے، ایچ۔ ای۔ سی کا حکم نامہ پیش کیا اور دلیل دی کہ مقالہ جمع کرانے کے لئے زائد المعیاد مدت کیس حکم نامہ کا اطلاق ان سکالر ز پر ہے جو اس کے بعد داخلہ لیں گے ہماری رجسٹریشن 2008 کی ہے، اس کے باوجود شنوائی نہ ہوئی۔ چانسلر، چیئرمین ہائر ایجوکمیشن کی توجہ بذریعہ درخواست چاہی مگر ندارد۔ بالآخر میڈیا میں نوحہ لکھنے پر مجبور ہوں، قلم کار، اخبار نویس جو جامعہ اسلامیہ بہاولپور کی شان میں رطب اللسان ہیں، انھیں متاثرین جامعہ کی حق گوئی کے لئے بھی اپنی آواز بلند کرنی چاہئے، یہ تو ایک مثال ہے، ملک بھر کی جامعات سے متاثرین کو شمار کیا جائے یہ تعداد ہزاروں میں ہو سکتی ہے جو چیئر پرسن یا سپروائزر کی جھوٹی انا یا ضد اور انتظامیہ کی لاعلمی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں، اگر چانسلرز اور ایچ ای سی کی انتظامیہ خواب غفلت سے بیدار رہتی تو شائد یہ رسوائی ہمارا بھی مقدر نہ بنتی اور ہم یہ نوحہ رقم کرنے پر مجبور نہ ہوتے۔