گزشتہ کئی برس سے ہمیں توانائی کابحران درپیش ہے۔ 2008 کا زمانہ کسے یاد نہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستانی عوام کو بدترین لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ملک کے بیشتر حصوں میں بیس بیس گھنٹے بجلی کی بندش ہو ا کرتی تھی۔ 2013 میں مسلم لیگ (ن) نے اقتدار سنبھالا تو بجلی کے منصوبوں پر کام کا آغاز کیا۔اس ضمن میں ہمسایہ ملک چین نے پاکستان کو خصوصی تعاون فراہم کیا۔ چین کی مدد سے ہی بجلی کے کارخانے قائم ہوئے اور لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل ہو گیا۔ تاہم کچھ برس بعد ایک مرتبہ پھر بجلی کے بحران نے سر اٹھا لیا۔ بالکل اسی طرح وقتا فوقتا پٹرول اور گیس کا بحران بھی سامنے آجاتا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے عالمی منڈی میں تیل اور دیگر ایندھن کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ جب ہم مہنگے داموں تیل خریدتے ہیں تو لامحالہ قومی معیشت پر دباو بڑھتا ہے۔نتیجتا عوام الناس کو بھی پٹرول، بجلی، اور ایندھن مہنگے داموں خریدنا پڑتا ہے۔ ماہرین اور دانشور کئی بار یہ تجویز دے چکے ہیں کہ ہمیں توانائی کے متبادل زرائع استعمال میں لانے چاہییں۔ اس حوالے سے شمسی توانائی کا ذکر خاص طور پر کیا جاتا ہے۔ وفاقی کابینہ کے کل کے اجلاس میں ایک اچھی خبر سننے کو ملی ہے۔
پیش رفت یہ ہے کہ ملک میں توانائی کے بحران کے پیش نظر وفاقی حکومت نے توانائی بچت کے ایک ہنگامی منصوبے کی منظوری دی ہے۔کابینہ میں پیش کرنے سے پہلے اس منصوبے کے حوالے سے متعلقہ اسٹیک ہولڈروں سے مشاورت کی گئی۔ کابینہ میں منظوری سے پہلے بھی اس منصوبے پر سیر حاصل بحث ہوئی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے ہدایت کی کہ تمام صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کی حکومتوں کے ساتھ مزید مشاورت کی جائے۔ مشاورتی عمل مکمل ہونے کے بعدفوری طور پر اس منصوبے کا نفاذ کیا جائے گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے سرکاری دفاتر میں بجلی کی کھپت کو 30 فیصد کم کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔ اس حوالے سے ایک کمیٹی بنائی جائے گی۔ کمیٹی میں وفاقی وزیر توانائی، وفاقی وزیر منصوبہ بندی، وزیر مملکت برائے پٹرولیم اور قدرتی وسائل اور متعلقہ سیکرٹریز شامل ہوں گے۔کابینہ میں الیکٹرک بائیکس کے استعمال کو ملک بھر میں عام کرنے کے حوالے سے بھی تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ بتایا گیا کہ ملک میں پٹرول سے چلنے والی موٹر سائیکلوں کو مرحلہ وار الیکٹرک بائیکس سے تبدیل کیا جائیگا۔ اس طرح ایندھن کی مد میں خاطر خواہ بچت ہو گی۔ یہ بھی طے ہوا کہ بجلی چوری روکنے کے لئے کریک ڈاون کیا جائے گا۔ ایک اہم فیصلہ یہ ہوا کہ نجی اور سرکاری اداروں کی عمارتوں کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جائے گا۔
توانائی کے بحران کے پیش نظر یہ اچھے فیصلے ہیں۔ ان پر عمل کیا جاتا ہے تو یقینا صورتحال میں بہتری آئے گی۔ برسوں سے ہم یہ تجویز سنتے ہیں کہ مہنگے داموں خریدے گئے ایندھن سے بجلی پیدا کرنے کے بجائے ہمیں شمسی توانائی کا استعمال شروع کرنا چاہیے۔ سورج کی روشنی سے تیار ہونے والی بجلی نہایت کم قیمت میں دستیاب ہو گی۔
شمسی توانائی کے استعمال کو فروغ دینے کا فیصلہ نہایت صائب ہے۔الیکڑک بائیکس کے استعمال سے بھی تیل کی بچت ہو گی۔ماہرین معیشت بتاتے ہیں کہ توانائی کے متبادل زرائع استعمال کئے جائیں تو سالانہ اربوں ڈالر کی بچت ہو سکتی ہے۔ کابینہ اجلاس میں اراکین کو بتایا گیا کہ اس طریقے سے معیشت پر دباو کم کر کے معاشی استحکام حاصل کیا جا سکتا ہے۔
یہ اقدامات اٹھائے جاتے ہیں تو اس کا فائدہ مہنگائی میں دبے عوام کو(صفحہ3پر بقیہ نمبر1)
پہنچے گا۔ تاہم لازم ہے کہ عوام بھی اپنے رویے پر کچھ نظر ثانی کریں۔ دیکھا گیا ہے کہ بسا اوقات بجلی اور تیل کا ضیاع کیا جاتا ہے۔ سرکاری اداروں میں یہ چلن نہایت عام ہے۔ بغیر ضرورت کے دفاتر کی بتیاں ِ، پنکھے، ائیر کنڈیشنر چلتے رہتے ہیں۔ سردیوں میں گیس کے بجائے الیکٹرک ہیٹر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات الیکٹرک چولہے بھی استعما ل ہوتے ہیں۔اس رویے کی وجہ یہ ہے کہ ملازمین جانتے ہیں کہ بل کی ادائیگی ان کی جیب سے نہیں ہونی۔یہی حال سرکاری گاڑیوں میں استعمال ہونے والے پٹرول کا ہوتا ہے۔ اسے بھی مال مفت دل بے رحم کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ اپنے افسران کے انتظار میں کھڑے ڈرائیور حضرات گھنٹوں گاڑی اسٹارٹ رکھتے ہیں۔ پروٹوکول کی گاڑیاں بھی تیل پینے والی مشینوں کی مانند ہوتی ہیں۔
سرکاری گاڑیوں کے پٹرول کی چوری کی وارداتیں بھی عام ہیں۔
میں خود ایک سرکاری جامعہ میں پڑھاتی ہوں۔یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ کلاس ختم ہونے کے بعد طالب علم کلاس رومز میں بجلی بند کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ ایسا بھی ہوا کہ کلاس روم کا اے۔ سی خراب ہونے کی وجہ سے ٹھنڈک دینے سے قاصر ہے، لیکن بار بار کہنے کے باوجود ملازمین اسے بند کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔نجی اداروں میں نگرانی کا ایک نظام ہوتا ہے۔ وہاں صورتحال نسبتا بہتر ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بجلی، گیس، پٹرول کا بل اپنی جیب سے ادا کرنا پڑتا ہے تو انہی افسران، ملازمین، اور نوجوانوں کا رویہ مختلف ہوتا ہے۔ تب بجلی بھی دھیان سے استعمال کی جاتی ہے اور پٹرول کی بھی بچت کی جاتی ہے۔
بہرحال کابینہ نے توانائی کی بچت کا فیصلہ کرلیا ہے تو لازم ہے کہ اپنے گھر سے اس کام کا آغاز کرئے۔ وزیروں، مشیروں، اور سرکاری بابووں سے بجلی اور پٹرول کی بچت کا آغاز ہونا چاہیے۔ ایسا کیا جاتا ہے تو عوام کو بہت اچھا پیغام جائے گا۔ عوام الناس کا بھی فرض ہے کہ اپنے رویے میں تبدیلی لائے۔ تاکہ توانائی کی بچت ہو سکے۔ اس ضمن میں میڈیا کی ذمہ داری نہایت اہم ہے۔ میڈیا کو چاہیے کہ عوام کو توانائی کی بچت کی اہمیت سے آگاہ کرئے اور انہیں اپنا طرز عمل تبدیل کرنے کی طرف مائل کرئے۔