نیا چیئر مین نیب کون ہو گا ؟ یہ بحث ان دنوں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری ہے ،اس وقت ملک میں سب سے زیادہ ضرورت شفاف اور بے لاگ احتساب کا عمل آگے بڑھانے کی ہے مگر کیا حکومتیں اس اہم مسئلہ پر سمجھوتوں کی سیاست سے باہر نکل سکیں گی؟ اگر چہ احتساب کے نام پر ڈرامے بازی ضیا ء الحق کے دور سے ہو رہی ہے مگر کسی دور میں شفاف اور بے لاگ احتساب دکھائی نہیں دیا،ہر حکومت نے اپنی مرضی اور سیاسی مفاد میں احتسابی عمل کو آگے بڑھایا،جس کے نتیجے میں وقت کے حکمران مقدس گائے بنے رہے اور اپوزیشن زیر عتاب رہی اس کوشش نے احتسابی عمل کو نہ صرف مشکوک بنایا بلکہ اس پر سے اعتماد بھی اٹھ گیا، اہم بات یہ ہے کہ ملک کے طاقت ور طبقات حکومت میں ہوں ،حزب اختلاف میں یا پھر مختلف شعبوں میں ،سب کسی بھی قسم کا احتساب نہیں چاہتے وہ سیاست، جمہوریت، قانون کی حکمرانی کا سیاسی سہارا لے کر احتساب کے عمل کو پیچھے چھوڑ کر ملک میں بدعنوانی اور کرپشن کی سیاست کی آزادی چاہتے ہیں اور یہ ہماری سیاسی تاریخ کا المیہ بھی ہے۔ احتساب کا عمل ہمیشہ سے سیاسی سمجھوتوں، مصلحت پسندی، عدم شفافیت، من مرضی سمیت کمزور ریاستی اور حکومتی سطح پر اقدامات اورعدم ترجیحات کا عکاس رہا ہے،یہی وجہ ہے کہ ملک میں احتسابی عمل جس تیزرفتاری سے آگے بڑھنا چاہئے تھا، اصلاحات ہونی چاہیے تھیں ہر دور میں اس کا فقدان نظر آتا ہے۔،حکومت کے ساتھ ساتھ اصل بحران ملک کی طاقت ور اشرافیہ یا مختلف شعبوں کی سطح پر طاقت ور طبقہ کمزور حکومتوں کے سامنے زیادہ بالادست یا طاقت ور نظر آتا ہے،احتسابی عمل کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے نیب کا اپنا ادارہ بھی وہ کچھ نہیں کر سکا جو اس کی تشکیل کے مقاصد تھے،اور اس کی ایک بڑی وجہ نیب سربراہ کی سیاسی تقرری بھی رہی،ماضی کی دو بڑی حکومتوں جن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون شامل ہیں نے عملی طور پر اس ادارے کو سیاسی و قانونی مفلوج کر دیا تھا، لیکن تحریک انصاف کی حکومت بھی دعوؤں اور اعلانات کے باوجود کوئی ایسا کارنامہ انجام نہ دے سکی جو اس ملک میں ہر سطح پر بے لاگ اور شفاف احتساب کے عمل کو نئی سیاسی طاقت فراہم کرسکے،موجودہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کے حوالے سے اپوزیشن نے شبہات کا اظہار کیا جبکہ ان کے دور میں ادارہ نے کچھ غیر معمولی اہمیت کے کام بھی کئے جن کی تعریف نہ کرنا بخیلی ہو گی،خاص طور پر غیر قانونی اور جعلی ہاؤسنگ سکیموں کے متاثرین کو ادائیگی کرانا قابل ذکر کارنامہ ہے،حکومت ان کو توسیع دینا چاہتی تھی مگر اپوزیشن کی مخالفت کے بعد نئے احتساب سربراہ کی تقرری کی ضرورت پیش آگئی۔ ہمارے نظام عدل کی بہت بڑی خامی فیصلوں کا فالو اپ نہ ہونا ہے،ہمارے احتسابی نظام میں بھی ایسی نوعیت کے بہت سقم ہیں،کیس احتساب عدالت سن کر سزا دیتی ہے اور ملزم کسی دوسری اعلی عدالت سے ریلیف حاصل کر لیتا ہے،ضروری ہے کہ پہلے احتساب عدالت کو اپنا کام اطمینان سے مکمل کرنے دیا جائے اس کے بعد نظر ثانی اپیل کی سماعت کی جائے اور نیب کا موقف جانے بغیر کسی ملزم کی ضمانت نہ لی جائے،نیب میں بھی احتساب کا اندرونی اور خود کار نظام وضع کیا جائے غلط انکوائری اور بغیر ثبوت مقدمات اور پسند نا پسند پر سزاوں کی روک تھام کی جائے،تب جا کر احتساب کا عمل شفاف ہو سکے گا۔ حالیہ دنوں میں نیب کے قانون میں متعدد ترامیم بھی کی گئی ہیں،جن میں سب سے زیادہ تنقید چیئرمین نیب کو ہٹانے کے طریق کار پر سامنے آئی ہے، نئی ترمیم کے تحت چیئرمین نیب کو ہٹانے کا اختیار عملًا صدر مملکت کو دے دیا گیا ہے، حکومت کے بقول چیئرمین نیب کی تقرری کا طریق کار تو آئین میں موجود تھا البتہ ہٹانے کا طریق کار موجود نہیں تھا اور اس ترمیم سے اس ابہام کو دور کیا گیا ہے، اس کے لیے وہی طریق کار رکھا گیا ہے جو سپریم کورٹ کے جج کو ہٹانے کا موجود ہے، اس سے قبل جو ترمیم کی گئی تھی اس میں یہ اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کو دیا گیا تھا کہ وہ چیئرمین نیب کو اسی بنیاد پر ہٹا سکتے ہیں جس بنیاد پر سپریم کورٹ کے جج کو ہٹایا جاسکتا ہے،تنقید یہ ہو رہی ہے کہ جو اختیار صدر مملکت کو دیا گیا ہے وہ عملی طور پر وزیر اعظم کی مشاورت سے جڑا ہو گا اورچیئرمین نیب کوئی ایسا اقدام نہیں کرے گا جو وزیر اعظم کی خواہش کے برعکس ہو، حزب اختلاف کے بقول ان کو اس نئی ترمیم کی مدد سے سیاسی انتقام یا سیاسی دیوار سے لگایا جائے گا اور حکومت نے اس ترمیم سے خود کو این آر او دیا ہے،ان ایشوز پر بھی اتفاق رائے ضروری ہے۔ اس وقت سب سے اہم ترین کام چیئرمین نیب کی میرٹ پر تقرری ہے،غیر جانبدار سربراہ ہی ادارہ کو آئین کے مطابق بہتر چلا سکتا ہے۔نیب آئین کے تحت سپریم کورٹ ہائیکورٹ کے جج صاحبان،آرمی کے لیفٹیننٹ جنرل عہدہ کے افسر اور بیوروکریسی کے 22سکیل کے برابر افسر کو اس عہدہ پر تعینات کیا جا سکتا ہے،اس پابندی کے بعد حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے کئی نام سامنے آئے ہیں،اپوزیشن جماعت ن لیگ نے ناصر محمود کھوسہ ، پیپلز پارٹی نے جلیل عباس جیلانی جبکہ جمعیت العلما اسلام(ف) کی طرف سے جسٹس (ر)دوست محمد خان کے نام پیش کئے گئے ہیں، گو وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اس کی تردید کی ہے مگر غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق حکومت کی جانب سے سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر،سیکرٹری مذہبی امور اعجاز جعفراور ایف آئی اے کے سابق سربراہ عملیش چودھری کے نام سامنے آئے ہیں۔پنجاب کے صوبائی محتسب میجراعظم سلیمان کا نام بھی اس عہدے کیلئے سنا جاتا رہا ہے ۔اکثر لوگوں کی نظر میں ناصر محمود کھوسہ،یوسف نسیم کھوکھر اور میجراعظم سلیمان جیسے افسر اس سلاٹ کے لئے بہترین ثابت ہو سکتے ہیں ۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو شائد ان ناموں پر اتفاق رائے میں بھی کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے سامنے آنے والے ناموں کا جائزہ لیا جائے تو نظر آ رہا ہے کہ ویسے بھی اس دفعہ اس عہدے پر کسی بیوروکریٹ کا نام فائنل ہوگا،جو ایک اچھی سوچ ہے ۔پچھلے عرصے میں احتساب کے عمل نے سب سے زیادہ نقصان ہمارے انتظامی معاملات کو پہنچایا ،بڑے اہم بیوروکریٹس کو کئی کئی سالوں تک جیلوں میں بند رکھا گیا جن میں فواد حسن فواد اور احد چیمہ جیسے محنتی اور اچھے بیوروکریٹس بھی شامل تھے ،اس وجہ سے ہماری بیوروکریسی نے عملی طور پر فیصلے کرنا ہی چھوڑ دیے اور نظام حکومت سست روی کا شکار رہا۔ اس دفعہ جن بیوروکریٹس کے نام سامنے آ رہے ہیں وہ تمام اچھے اور مثبت سوچ کے حامل ہیں ،اگر ان میں سے کسی کانام فائنل کیا جاتا ہے تو یقینی طور پر اس سے بیوروکریسی کو ریلیف ملے گا اور یوں امور مملکت اچھے انداز میں چلیں گے۔