2013ء کے بعد سے صوبہ خیبر پختونخوا تحریک انصاف کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں جب دو بارہ صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو دلیل یہ دی گئی کہ اس صوبے کے عوام نے دوسری بار تحریک انصاف کو ووٹ دیا ہے ورنہ اس سے قبل ماضی میں سیاسی جماعتیں اور اتحاد ایک ایک بار ہی حکومت بنا سکے اور اگلی بار عوام نے اُنھیں مسترد کردیا۔2013ء میں آزاد اُمیدواروں ، جماعت اسلامی اور آفتاب شیر پائو کی قومی وطن پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت قائم کی تھی۔ آفتاب شیر پائو تو 2017ء میں خیبر پختونخوا سے الگ ہوگئے اور ان کے اراکین نے صوبائی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ مگر جماعت اسلامی پورے پانچ سال تحریک انصاف کے ساتھ رہی۔ اسے تاریخ کا جبر ہی کہا جاسکتا ہے کہ پرویز مشرف کے دور اقتدار میں تشکیل پانے والے ایم ایم اے نے جب صدر پرویز مشرف کے وردی نہ اُتارنے پرملک بھر میں احتجاجی جلسوں کا اآغاز کیا تواُن جلسوںمیں عمران خان کی شرکت ایم ایم اے کی قیادت کے موڈ پر منحصر ہوا کرتی تھی۔ ایک جلسے میں اب مجھے یاد نہیں کہ لاہور کا تھا یا اسلام آباد کا ، جس میں عمران خان کی آمد پر جلسے کے شرکاء نے بھرپور گرم جوشی کا مظاہرہ کیا تھا ، اس کے نتیجے میں اگلے جلسے میں عمران خان کو مدعو ہی نہیں کیا گیا۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ یہ فیصلہ جماعت اسلامی کی خواہش پر کیا گیا تھا جو اس زمانے میں ایم ایم اے کی اہم ترین جماعت تھی۔ اُس زمانے میںیہ خبر بھی گرم رہی کہ قاضی حسین احمد عمران خان کو اسلامی جمعیت طلبا کا ناظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب وہی جماعت اسلامی عمران خان کی جماعت کی حکومت میں ایک اتحادی بننے پر مجبور ہوئی۔ قاضی حسین احمد مرحوم کی محبت میں ہی عمران خان کا سیاسی اتحاد ترقی پسند جماعت اور مشہور مزدور رہنما طفیل عباس مرحوم کے ساتھ ختم ہوا اور عمران خان ایک ترقی پسند لیڈر کے بجائے طالبان خان کے نام سے مشہور ہوئے۔ قاضی حسین احمد مرحوم ہی کی امارت کے دوران عمران خان کو جمعیت کے کارکنوں نے پنجاب یونیورسٹی میں زدوکوب کیا اور عمران خان کی گرفتاری میں مشرف حکومت کی مدد کی۔
تحریک انصاف کا گڑھ تصور کیے جانے والے کے پی کے میں حالیہ بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف نے ووٹ تو 24فیصد کے قریب حاصل کیے مگر نشستیں کم ملیں، تحصیلوں اور شہروں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔مئیر کی ایک نشست نہ مل سکی اور تحصیلوں میں بھی تحریک انصاف دوسرے نمبر پر رہی۔ تحریک انصاف اپنی ہار کو مہنگائی، ٹکٹوں کی تقسیم میں اقربا پروری اور جماعت کی اندرونی لڑائی قرار دیتی ہے۔ عمران خان نے ہار کو نالائقی قرار دیا اور انتخابات کے لیے اُمیدواروں کا چنائو خود کرنے کا فیصلہ کیا۔ شاید اسی طرح جس طرح فواد چودھری، شیخ رشید، سرور خان، شہباز گِل اور شہزاد اکبر وغیرہ اُ ن کا ’’حُسنِ انتخاب ‘‘ہیں۔عمران خان جنھیں شدت سے یہ زعم ہے کہ وہ ایک سپورٹس مین ہیں اور جتنا دبائو وہ برداشت کر سکتے ہیں کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ مگر کے پی کے کی شکست سے وہ اس قدر پریشان ہوئے کہ اپنی پارٹی کی ساری تنظیمیں ہی تو ڑ دیں۔پھر طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ پارٹی کی زمام کار اُن نگینوں کے حوالے کردی جو سیاسی تنظیم سازی کی ابجد سے بھی واقف نہیں اور جنھیں کارکنوں ہی سے بو آتی ہے ۔ تصور تو کریں کہ اسد عمر مرکزی سیکرٹری جنرل اور عامر کیانی ایڈیشنل سیکرٹری جنرل نامزد ہوئے ہیں، علی زیدی، قاسم سوری، شفقت محمود خسرو بختیار اور پرویز خٹک صوبائی صدور نامزد ہوئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ افراد جماعتی ذمہ داریاں ملنے کے بعد اپنا کوئی پروگرام پیش کرتے مگر انھیں عہدے ملنے پر وہ خوشی ملی ہے کہ ان کا عمران خان کا شکریہ ادا کرنا اور کو رنش بجا لانا ہی ختم نہیں ہورہا۔
اگر تجزیہ کیا جائے تو ایسے موقع پر جب حکومت نے ہر میدان میں ناکامی کے جھنڈے گاڑھ رکھے ہوں، کارکنوں سے نچلی سطح تک رابطہ مفقود ہو،کنٹونمنٹ انتخابات، ضمنی انتخابات اور اب کے پی کے کے بلدیاتی انتخابات میں شکست پانے والی حکومتی جماعت کو تنظیمیں توڑنے سے مزید نقصان ہوگا۔ وہ ایک محاورہ ہے کہ نانی نے خصم کیا بُرا کیا کرکے چھوڑا اور بُرا کیا، یہ محاورہ تحریک انصاف پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ 2023ء انتخابات کا سال ہے، 2022ء کا آغاز ہونے کو ہے۔ نئی تنظیم سازی کے لیے جن کا انتخاب جناب عمران خان نے کیا ہے یہ ایک سال میں بھی اگر تنظیم سازی کرلیں تو غنیمت ہے۔ جے اے رحیم مرحوم پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری ہواکرتے تھے ، وہ اپنے ساتھ چھوٹا ٹائپ رائٹر لے کر چلا کرتے اور جہاں جاتے نامزدگی ہو یا اور برطرفی موقع پر ہی پروانہ ٹائپ کرکے تھما دیا کرتے تھے۔ تحریک انصاف کے نئے عہدیداران کے پاس اس قسم کا کوئی جذبہ ہے نہ سلیقہ۔ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی ایک بار پھر نئے جوش کے ساتھ حکومت مخالفت کے لیے سرگرم ہیں۔ نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے خبریں گرم ہیں۔ عمران خان اِس پر بھی سیخ پا ہیں۔ ایسے ماحول میں تحریک انصاف کو اگر بڑے جلسوں یا عوامی مہم کے لیے کارکنوں کی ضرورت پڑتی ہے تو ایک تو ویسے ہی ان کا کارکنوں سے رابطہ نہیں ہے اور پھر تنظیمیں فعال نہ ہونے کے سبب اس محاذ پر بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اقتدار اور اختیار ابھی تک عمران خان کے پاس ہے۔اگر وہ اقتدار کو قائم رکھنا چاہتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ اپنی معاشی پالیسی کو بہتر بنائیں جس کے جلد اور فوری ثمرات نچلی سطح تک محسوس کیے جائیں۔ ورنہ اب جو تحریک انصاف کے ساتھ ہورہا ہے وہ ان کی کارکردگی ہی کا نتیجہ ہے۔