آج کے کالم کا موضوع ایک انتہائی اہم اور گمبھیر مسئلہ ہے، جس نے ملک بھر سے لاکھوں کی تعدادمیں آبادی کی نیندوں کو حرام کر رکھا ہے۔ اس میں بلا شبہ لاکھوں کی تعداد میں چھوٹی جماعتوں کے نونہالوں سے لے کر ثانوی اور اعلیٰ ثانوی جماعتوں میں زیرِ تعلیم نوجوان طلبہ اور طالبات ہی شامل نہیں ہیں بلکہ یہ کہنا بھی مبالغہ نہ ہو گا کہ لاکھوں کی تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ مرد و خواتین اساتذہ اور ہزاروں کی تعداد میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان اور منتظمین بھی شامل ہیں۔انھیں ملک بھر میں ۴۳ کنٹونمنٹ بورڈز کی اعلیٰ انتظامیہ (ایگزیکٹوآفیسرز) کی طرف سے حتمی شو کاز نوٹس ملے ہوئے ہیں کہ وہ ۳۱ دسمبر تک اپنے اداروں کو کینٹ بورڈز میں واقع رہائشی علاقوں سے باہر منتقل کریں، بصورتِ دیگر ان اداروں کی بندش کو قبول کریں۔ صرف اتنا ہی نہیں، کینٹ بورڈز انتظامیہ کی طرف سے اخبارات میں یہ تکرار اشتہارات اور نوٹسزکے ذریعے بھی پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی ۳۱ دسمبر تک رہائشی علاقوں سے باہر منتقلی کی یاد دہانی ہی نہیں کرائی جارہی بلکہ بعض مقامات پر کینٹ بورڈز انتظامیہ کی طرف سے تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
یقینا یہ ایک انتہائی اہم ، پریشان کن اور گمبھیر مسئلہ ہے جس کے لئے یہ جواز کافی نہیں ہو سکتا کہ تقریباًتین سال قبل سپریم کورٹ نے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے کینٹ بورڈز کے رہائشی علاقوں سے باہر منتقلی کا حکم (فیصلہ)دے رکھا ہے۔ لہٰذا پاکستان بھر کے کینٹ بورڈز اس فیصلے پر عمل درآمد کے پابندہیں۔ مان لیا کہ کینٹ بورڈز کے لئے اس فیصلے پر عمل درآمد کی مجبوری ہو سکتی ہے لیکن اس سے بڑھ کر تمام زمینی حقائق اور شواہد کو سامنے رکھ کر اس پہلو کو اہمیت دینا کہ اس فیصلے پر عمل درآمد کی صورت میں کتنے منفی اور تباہ کُن اثرات مرتب ہوں گے، کینٹ بورڈز کی اس سے بڑھ کر مجبوری اور ذمہ داری ہونی چاہئے ۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ کینٹ بورڈز کی طرف سے اس فیصلے پر عمل درآمد کے اثرات اتنے منفی، تباہ کُن اور ہمہ گیر ہیں کہ ان کی زد صرف پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان اور منتظمین ہی نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ان تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم طلبہ و طالبات جہاں اس کا نشانہ بن رہے ہیں یا بنیں گے وہاں ان تعلیمی اداروں سے وابستہ ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں مرد و خواتین اساتذہ اور دیگر متعلقہ شعبوں سے وابستہ خواتین و حضرات بھی بُری طرح متاثر ہوں گے۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ یہ منفی اور تباہ کُن اثرات اتنے ہمہ گیر، ہمہ جہت اور وسیع البنیاد ہوں گے کہ ان کے نتیجے میں ملک کا پورا تعلیمی نظام اور ڈھانچہ ہل کر رہ جائے گا۔معاملے کی اس گمبھیر اور پریشان کُن صورت حال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی نمائندہ تنظیمیں اور جوائنٹ ایکشن کمیٹیاں اپنے اپنے فورمز پر اس مسئلے کی نازک صورت حال اور اس کی شدت کو اربابِ اقتدار و اختیار کے نوٹس میں لانے کے لئے پر زور اور بھر پور احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔انھیں اس احتجاج میں جہاںاپنے ہاں زیرِ تعلیم طلبہ و طالبات کے والدین کا تعاون حاصل ہے وہاں سول سوسائٹی، سوشل اورریگولر میڈیا کے مختلف حلقوں اور بنیادی حقوق کی علمبر دار تنظیموں کا بھی بھر پور تعاون حاصل ہے۔ یہ سب اپنے اپنے انداز میں اس پریشان کُن مسئلے کو اُجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک اس انتہائی نازک مسئلے کو اعلیٰ حکومتی حلقوں، مقتدر اداروں اور اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے وہ شنوائی یا پذیرائی نہیں ملی ہے۔ جو اسے ملنی چاہئے تھی۔ ریاستیں، حکومتیں اور مستقل ریاستی ادارے ملک کے باشندوں کے لئے ماں باپ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ملک کے باشندے یا آبادی کے مختلف حلقوں کو جن مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کا حل ڈھونڈنا بلاشبہ ریاست اور حکومتی اداروں اور مقتدر حلقوں کا فرض بنتا ہے۔ اس سے اغماض برتنے کی صورت میں جو تباہ کُن اثرات سامنے آتے ہیں اور جو مایوسی نامرادی اور عدم تحفظ کا احساس اُبھرتا ہے وہ کسی بھی ریاست، حکومت یا مستقل ریاستی اداروں اور مقتدر حلقوں کے لئے انتہائی منفی اثرات کا حامل ہو سکتا ہے۔ ہمارے مقتدر حلقے اور ادارے پہلے ہی اسی طرح کی صورتِ حال کا سامنا کر رہے ہیں کیا اس انتہائی اہم معاملے کو اہمیت نہ دے کر یا اسے نظر انداز کر کے وہ اپنے خلاف سول سوسائٹی اور تعلیم یافتہ مہذب اور سلجھے اور باشعور افراد میں اپنے لئے منفی جذبات اُبھارنا پسند کریں گے۔ یقینا ایسا کوئی بھی نہیں چاہے گا لیکن بر سر زمین جو کچھ سامنے آرہا ہے وہ اس کے اُلٹ ہے ذرا کھل کر بات کی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ کینٹ بورڈز سے متعلقہ اس مسئلے کی وجہ سے ہمارے اہم ترین مستقل ریاستی ادارے کے حصے میں بدنامی آرہی ہے ہے اور یہ منفی پروپیگنڈا (غلط یا صحیح) اُبھر رہا ہے یا اُبھارا جا رہا ہے کہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی کینٹ بورڈز کے رہائشی علاقوں سے منتقلی یا بندش کے فیصلے پر عمل درآمد کرانے میں فوج کا بھی ہاتھ ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تک آواز پہنچے تو ان سے درخواست کی جا سکتی ہے کہ خدا کے لئے اس غلط یا صحیح منفی پروپیگنڈے کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ بلا شبہ یہ ملک اور اس کے مستقل ریاستی ادارے خواہ فوج ہو یا اعلیٰ عدلیہ وہ ہم سب کے ہیں۔ وہ ہمارا مان ہیں اور ان پر ہم سب کا حق ہے اور ان کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ کسی صورت میں اس حقیقت کو نظر انداز نہ کریں۔
کینٹ بورڈز کے رہائشی علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں قائم پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے حوالے سے کچھ اور پہلو بھی ایسے ہیں جو اپنی جگہ بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ سپریم کورٹ کے جس فیصلے کو بنیاد بنا کر کینٹ بورڈز انتظامیہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی رہائشی علاقوں سے منتقلی پر تُلی بیٹھی ہے اس فیصلے کے خلاف پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی تنظیموں کی طرف سے سپریم کورٹ میں نظر ثانی درخواستیں کب سے دائر ہیں لیکن بدقسمتی ہے ابھی تک ان کی سماعت نہیں ہوسکی۔ اب پانچ جنوری ۲۰۲۲ء سماعت کی تاریخ ملی ہوئی ہے۔ امکان غالب ہے کہ ان شاء اللہ کچھ مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ اس کے علاوہ بھی کینٹ بورڈز کے رہائشی اور کمرشل علاقوں میں تخصیص اور کمرشل اور رہائشی سر گرمیوں کی صحیح تو ضیح و تشریح نہ ہونے کے بارے میں جو ابہام اور غیر واضح صورتِ حال پائی جاتی ہے اس بارے میں بھی لاہور ہائیکورٹ کے راولپنڈی بنچ میں کچھ درخواستیں یا درخواست زیرِ سماعت ہے۔ دانائی، سمجھ داری اور مثبت انداز فکر و عمل کا تقاضا یہ ہو سکتا ہے کہ کینٹ بورڈز انتظامیہ عجلت اور جلد بازی سے کام نہ لے اور اعلیٰ عدلیہ میں زیرسماعت آنے والی درخواستوں کے حتمی فیصلوں کے سامنے آنے کا انتظار کرے۔ اور اس پہلو کو بھی کسی صورت میں نظر انداز نہ کرے کہ وہ اپنے فیصلوں پر حتمی طور پر عمل کراتے ہوئے اپنی حاکمیت یا برتر حیثیت کا نقش تو ثبت کرلیں گے لیکن اس کے مقابلے میں جو نقصانات ہوں گے اور جو تباہی پھیلے گی اور جو معیاری تعلیم و تربیت کے قتل عام کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں مرد و خواتین اساتذہ اور دیگر افراد کا جومعاشی قتلِ عام ہوگا۔ وہ اتنا ہمہ گیر، ہمہ جہت اور وسیع اثرات کا حامل ہو گا کہ اس کا تصور کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
آخر میں راقم کم و بیش پچھلے چھ عشروں سے زائد عرصے سے تعلیم و تدریس کے شعبے سے اپنی طویل وابستگی کو سامنے رکھتے ہوئے بڑی دردمندی اور انکساری سے اس حقیقت کا اظہار کرنا چاہے گا کہ بطور ایک ورکنگ ٹیچر اور بطور ایک سربراہ ادارہ راقم کوبفضلِ تعالیٰ بہت کچھ سیکھنے، سمجھنے، جاننے اور پرکھنے کے مواقع ملے ہیں راقم بلاخوف تردید کہہ سکتا ہے کہ ملک میں تعلیمی شعبے میں یہ پرائیویٹ سیکٹر کی اتنی زیادہ اور شاندار خدمات ہیں جن کو آسانی کے ساتھ رد نہیں کیا جا سکتا۔ بلا شبہ ملک میں معیاری تعلیم کے فروغ میں نجی سیکٹر کے تعلیمی اداروں کا بہت بڑا کردار ہے۔اب اگر ہم ان اداروں کی نفی کرتے ہیں اور کینٹ بورڈز ایریاز میں انھیں بندش یا دیگر پابندیوں کا نشانہ بناتے ہیںتو جان لینا چاہئے کہ ملک بھر میں تعلیمی شعبہ جو پہلے ہی دگر گوں صورتِ حال سے دو چار ہے اسے اتنی تباہی کا سامنا کرناپڑے گا کہ اس کے لئے سنبھلنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو گا۔ پھر یہ پہلو بھی سامنے رہنا چاہئے کہ کینٹ بورڈز کے رہائشی علاقوںمیں پرائیویٹ تعلیمی ادارے کوئی ایک دن میں قائم نہیں ہوتے یا زمین سے کھمبیوں کی صورت میں اُگ کر سامنے نہیں آئے ہیں۔ ایک پورا طریقہ کار اور تمام لوازمات اور مختلف محکمانہ قواعد و ضوابط اور قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد ہی رواں دواں ہوتے رہے ہیں۔ اب ان کو اُٹھا کر باہر پھینک دینا کسی صورت میں بھی عدل و انصاف کے تقاضوں پر پورا نہیں اُترتا۔