اگر آپ اظہار رائے میں ضرورت سے زیادہ غیر جانبداری کا مظاہرہ کریں گے تو آپ کی اپنی شناخت مدہم ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے صف اول کے مبصرین نے خود کو کسی نہ کسی کیمپ سے وابستہ کر رکھا ہے۔ وہ تجزیے کی آڑ میں پارٹی لائن فالو کر رہے ہوتے ہیں اس لیے ان کی بات شروع ہونے سے پہلے ہی قارئین یا سامعین کو پتہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کیا کہنا ہے لیکن یہ ہے کہ ہمارے ہاں ان کا ایک اپنا مقام ہے۔
دوسری طرف ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے دوست و احباب مجھے ن لیگ اور نواز شریف کا حمایتی سمجھتے ہیں جبکہ ن لیگ کے ہاں ہمارا تاثر ہمارے کالموں کی وجہ سے اتنا اچھا نہیں ہے گویا
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ان دونوں پارٹیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے ہماری نئے سال کی ریزولیوشن یہ ہے کہ ہم نے یہ سلسلہ جاری رکھنے کا عزم کیا ہے کہ پارٹی کوئی بھی ہو جو اچھا کام کرتا ہے اس کی تعریف کی جائے اور جو غلط کرتا ہے اس کی نشاندہی کی جائے لیکن اچھا کام ایک مفروضہ سے زیادہ کچھ نہیں اس لیے اس فیلڈ میں تنقید ہی باقی بچتی ہے جو ہماری نا مقبولیت کی بڑی وجہ ہے۔ بہرحال ہم نے اپنی یہ روش نہ چھوڑنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔
اس وقت سیاست کے کسی غیر روشن جزیرے پر مستقبل کے فیصلے ہونے جا رہے ہیں۔ حکمران پارٹی کی بوکھلاہٹ اور ان کے آنسو بتا رہے ہیں کہ معاملات ان کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ سلطنت کو خود پتہ نہیں چل رہا کہ ردعمل کیا دینا ہے۔ وزیراعظم صاحب کہتے ہیں کہ نواز شریف کی واپسی کے راستے نکالے جا رہے ہیں جبکہ ان کے وزیر باتدبیر کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو ہم خود واپس لائیں گے۔ حکومت نہایت بے بسی سے معاملات کو اپنی آنکھوں کے سامنے طے ہوتے دیکھ رہی ہے مگر کچھ کر سکتی ہے نہ بول سکتی ہے۔ یہ بھی خبریں ہیں کہ فریقین کے درمیان ساری بات چیت ضامنوں کے ذریعے ہو رہی ہے اور اس دفعہ بھی ان ضامنوں کا تعلق پاکستان سے نہیں بلکہ دوست ممالک کے ساتھ ہے۔ جن تین ملکوں کا کہا جا رہا ہے، ان میں سعودی عرب اور امارات کے علاوہ ایک نیا ملک بحرین بھی شامل ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ گزشتہ ہفتوں میں بحرین سے تعلق رکھنے والی اعلیٰ شخصیات نے اسلام آباد کے متواتر دورے کیے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب پاکستان میں ہر کوئی سعودیہ اور اماراتی حکام کے بارے میں اتنا sensetized ہو چکا ہے کہ وہ شکار کے لیے بھی تشریف لائیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی بات ضرور ہے کچھ ہونے جا رہا ہے اس لیے اس دفعہ بحرین کو سفارتکاری کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ بحرین، سعودی عرب اور امارات کے شاہی خاندان آپس میں رشتہ داریوں کے بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں لہٰذا ان کے درمیان اس طرح کا لائحہ عمل غیر معمولی بات نہیں ہے۔ آج کل سعودی عرب ویسے بھی خود سامنے آنے کے بجائے امارات اور بحرین کو فرنٹ لائن پر رکھتا ہے جیسا کہ اسرائیلی سفارتخانوں کا قیام ان دو ممالک سے شروع کیا گیا۔
میاں نواز شریف کی واپسی کے معاملے سے قطع نظر اس وقت گورننس کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے آئی ایم ایف کی ٹیکسوں میں چھوٹ کے خاتمے اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کو چلانے کے لیے آئی ایم ایف کی مرضی کے قوانین کا نفاذ دو ایسے کام ہیں جو پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر نہیں ہو سکتے۔ 350 ارب روپے کے نئے اضافی ٹیکس نافذ ہوں گے۔ تو ملک میں مہنگائی کا لیول اتنا بلند ہو جائے گا کہ آپ گزشتہ تین سال کی مہنگائی کو بھول جائیں گے۔ آئی ایم ایف کے 6 ارب پیکیج سے مذکورہ قانون سازی کے بعد ایک ارب ڈالر ملنے کی توقع ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ اس کے سوا کوئی حل ہے تو اپوزیشن بتائے۔ا پوزیشن کہتی ہے کہ آپ کے پاس جو 20 ماہرین کی ٹیم ہے وہ کہاں ہے ابھی تو صرف 3-4 ٹرائی کئے گئے ہیں۔
نیب آرڈیننس میں ترمیم یہ بتاتی ہے کہ حکومتی چاہتی ہے کہ جب وہ اقتدار سے رخصت ہو تو نیب ان پر ہاتھ نہ ڈال سکے لہٰذا ترمیم customised یا آرڈر پر تیار کی گئی ہے کہ ہم اس کے شکنجے میں نہ آسکیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران گھر کی راہ دیکھ رہے ہیں۔
اگر فنانس بل جو کہ آج پارلیمنٹ میں لایا جا رہا ہے اس پر حکومت کو ناکامی ہوتی ہے تو یہ آئینی طور پر عدم اعتماد لینے کی پوزیشن ہو گی ورنہ حکومت کی چھٹی ہو جائے گی۔ حکومتی وزراء کے چہروں پر گھبراہٹ کے آثار نمایاں ہیں اور وہ پارٹی میں اپنے مستقبل کے بارے میں شش و پنج کا شکار ہیں۔ یہ پارٹی اقتدار سے محرومی کی صورت میں اپنی یکجہتی برقرار نہیں رکھ پائے گی۔ وزراء اور ممبران اسمبلی اپنے لیے نئی راہیں تلاش کریں گے خصوصاً electables کی پارٹی سے دلچسپی تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ پاکستان کی سیاسی روایت بھی یہی ہے کہ یہاں کسی سیاسی پارٹی کو مسلسل دوسری بار اقتدار نہیں ملتا یہاں نہری نظام کی طرح ’’وارہ بندی‘‘ کا اصول کار فرما ہے کہ اپنی اپنی باری کا انتظار کریں ۔ وارہ بندی کا قدیم نظام پٹواری کی صوابدید پر چلتا تھا۔ ہمارا سیاسی اور ریاستی نظام میں بھی کافی حد تک اسی سے مماثلت رکھتا ہے۔
ویسے تو اس وقت جو خبریں چل رہی ہیں اس میں حکومت کا اپنی مدت پوری کرنا بہت بڑا سوالیہ نشان ہے لیکن اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ن لیگ چوتھی بار اقتدار میں آ کر ملکی معیشت کا رخ متعین کر لے گی یا عام آدمی کی مشکلات کا حل تلاش کرے گی یہ بہت مشکل نظر آتا ہے۔ آئی ایم ایف کی تاریخ بتاتی ہے کہ جس ملک نے بھی اس کا سہارا لیا ہے، وہ قرضوں میں ہی ڈوبا ہے۔ ہمیں پتہ ہے کہ یہ ریلیف فوری نہیں مل سکتا لیکن اگر پہلا قدم صحیح سمیت میں رکھا جائے تو کم از کم ڈائریکشن یا سمت درست کرنے سے کچھ بہتری کا امکان تو ہو گا۔ نواز شریف کی پارٹی کے برسراقتدار آنے سے کم از کم انڈیا کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا عمل شروع ہو جائے اور سی پیک پر معاملات بہتر ہو جائیں تو کچھ نہ کچھ بہتری آ سکتی ہے جس سے ہمارے دفاعی بجٹ میں کمی آ سکے گی۔
اب سوال یہ ہے کہ نواز شریف عدالتوں سے سزا یافتہ ہیں تو کیسے اقتدار میں آئیں گے اس کا جواب آسان ہے کیونکہ ماضی میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو عدالتیں مقدمات سے کلیئر کرتی رہی ہیں وہ سب کے سامنے ہے ویسے بھی سزا کے خلاف میاں نواز شریف کی اپیل زیر التوا ہے انہیں تو ان اپیلوں پر ریلیف مل سکتا ہے ۔ یہاں سیاست دو طرح کی ہے ایک وہ جو نظر آتی ہے اور دوسری وہ جو نظر نہیں آتی۔ فیصلہ کن وہ ہوتی ہے جو نظر نہیں آتی وہی دراصل پاور گیم ہے۔ میاں نواز شریف کو ان دونوں میدانوں میں مہارت حاصل ہے۔ اگر ایک سابق آرمی چیف اور سابق صدر پاکستان ریٹائرمنٹ کے بعد خود ساختہ جلا وطنی پر مجبور ہیں تو اس کی وجہ سب کو پتہ ہے۔
پاکستان کی سیاست میں مفاہمت یا Reconciliation کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے لیکن موجودہ حکومت نے اس کو طنزیہ طور پر NRO کا نام دیا اور اسے قوم کے سامنے ایک گالی بنا کر پیش کیا گیا یہ ایک غلط اپروچ تھی جس کا خمیازہ حکمران جماعت کو بھگتنا پڑے گا بلکہ کافی حد تک وہ بھگت بھی چکے ہیں۔ عمران خان کی سیاست کا لائف سائیکل ابھی پورا نہیں ہوا یہ تب مکمل ہو گا جب وہ اقتدار سے اتر کر اپوزیشن میں آئیں گے۔ پھر انہیں احسا س ہوگا کہ سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا۔ جن پر انہیں انحصار تھا جب وہ لوگ پارٹیاں بدل کر اقتدار میں شراکت کریں گے تو انہیں Re Awakening ہو گی کہ ہماری سیاسی روایات کیسے بنتی اور ٹوٹتی ہیں۔