جامعہ پونچھ راولاکوٹ کے ساتھ جاری مذاق ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ سرکاری جامعات کو بیوروکریسی اور سیاستدان اپنی جاگیر بنانے کی روایت پر کاربند ہیں۔ سرکاری جامعات کے نظام کو چلانے کا کوئی صاف شفاف بندوبست اب تک نہیں ہو سکا اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مختلف طبقات کے مفادات ان جامعات کے ساتھ وابستہ ہیں۔ جامعہ پونچھ سے ایک قلبی تعلق ہے اس لیے وہاں کے معاملات میں کوئی گڑبڑ ہو تو تکلیف کا احساس زیادہ ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ سرکاری جامعات لوگوں کے ٹیکس کے پیسے سے چل رہی ہیں یہ کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ہیں کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے بندوں کو یہاں فٹ کراتا پھرے۔
آزاد کشمیر میں غیر ریاستی لوگوں کو اعلیٰ عہدوں پر لانے کے لیے منصوبہ بندی سے کام ہو رہا ہے، چھوٹے عہدوں سے لے کر بڑے عہدوں تک غیر محسوس انداز میں پردے کے پیچھے ہاتھ سرگرم عمل ہیں۔ میں نے ایک گزشتہ کالم میں یہ لکھا تھا کہ کیا آزاد کشمیر میں ڈرائیورز کی آسامیوں پر اب غیر ریاستی لوگوں کی بھرتی ہو گی اور یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا ریاست کے لوگ اتنے امیر ہو گئے ہیں کہ وہ ڈرائیورز کی نوکری کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ڈرائیورز کی آسامیوں پر ریاستی افراد کو نوکری دینے کے بجائے غیر ریاستی افراد کو بھرتی کیا گیا۔ کشمیر کو ایک مفتوحہ علاقہ سمجھ کر اس کی ہر چیز پر اپنا حق جتانے کی پالیسی پریشان کن ہے۔ پہلے تو چیف سیکرٹری اور آئی جی وفاق سے جاتے تھے اب دوسرے عہدوں پر تقرریوں کا سلسلہ جاری ہے۔
جامعہ پونچھ کے ساتھ ظلم کی داستان کوئی نئی نہیں ہے۔ گزشتہ آٹھ برس سے یہ یونیورسٹی راولاکوٹ میں کرائے کی دکانوں میں چل رہی ہے۔ یہاں کے سیاستدان اعلیٰ عہدوں پر تو فائز ہوتے رہے اور اپنی مرضی کے لوگوں کو یونیورسٹی میں بھرتی بھی کراتے رہے مگر یونیورسٹی کی حالت کو ٹھیک کرنے کے لیے کوئی کوشش نہیں ہوئی۔ گزشتہ دو صدور کا تعلق اسی علاقے سے تھا مگر کیا ہوا یہ ایک لمبی داستان ہے۔
جامعہ پونچھ کے وائس چانسلر کے لیے اخبار میں اشتہار آیا ہے اور جنوری کے وسط تک درخواستیں جمع کرانے کے لیے کہا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک سرچ کمیٹی بھی بنائی گئی ہے۔ جو تفصیل مجھے دستیاب ہوئی ہے اس کے مطابق ذرا ان کے اراکین پر نظر ڈالیں۔ سندھ سے پروفیسر ڈاکٹر رضا بھٹی، پنجاب سے بریگیڈیر طاہر جرال ، پروفیسر ڈاکٹر بشریٰ مرزا، پروفیسر ڈاکٹر اسلم بیگ، پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ قادر اور خیبر پختونخوا سے پروفیسر رضیہ سلطانہ کو شامل کیا گیا ہے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اس میں ایک بھی شخص کا تعلق ریاست جموں و کشمیر سے نہیں ہے۔ سندھ سے سرچ کمیٹی میں شامل ہونے والے پروفیسر کو کمیٹی کا چیئرمین بھی بنا دیا گیا۔ پونچھ یونیورسٹی کے ایکٹ کے مطابق سول سوسائٹی سے دو افراد کو سرچ کمیٹی میں شامل کرنا ضروری تھا۔ سول سوسائٹی سے لوگوں کو شامل تو کیا گیا ہے مگر ان کا تعلق سول سوسائٹی راولاکوٹ یا ریاست جموں و کشمیر سے نہیں ہیں۔ سول سوسائٹی کے اراکین کو شامل کرنے کا مطلب یہ تھا کہ ان لوگوں کا تعلق مقامی طور پر ہو مگر اس کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ یہ بھی ضروری ہے کہ کمیٹی کا چیئرمین سول سوسائٹی سے ہو۔ ایسا شخص جس کو آزاد کشمیر کے جغرافیے کا صحیح طور پر نہیں پتہ کیا وہ یہ فیصلہ کرے گا کہ جامعہ پونچھ کا وائس چانسلر کون ہو گا؟
جن افراد کو سرچ کمیٹی کا رکن بنایا گیا ہے ان کے حوالے سے مختلف خبریں گردش میں ہیں۔ ڈاکٹر ثمینہ قادر وویمن یونیورسٹی باغ میں سینیٹ کی رکن ہیں اور ان کو سینیٹ میں لانے والے وائس چانسلر بھی جامعہ پونچھ کے وائس چانسلر کے امیدوار ہیں کیا اس طرح دیانتداری سے کوئی فیصلہ ہو سکے گا۔ اسی طرح ڈاکٹر بشری مرزا آزاد کشمیر یونیورسٹی کی سرچ کمیٹی کی رکن بھی تھیں۔ بار بار انہیں ہی سرچ کمیٹی میں کیوں شامل کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر رضیہ سلطانہ کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ جامعہ پونچھ کی سینیٹ کی رکن ہیں۔ ان حالات میں ان کی غیر جانبداری مشکوک ہو جائے گی۔ اس کمیٹی پر ہونے والے اعتراضات کو دور کرنا ضروری ہے ورنہ یہی گمان کیا جائے گا کہ اس کمیٹی کو مخصوص افراد کو نوازنے کے لئے بنایا گیا ہے یہ خود کمیٹی کے اراکین کی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے بھی ضروری ہے کہ ان معاملات کی وضاحت ہو۔
ریاست میں پی ایچ ڈی کرنے والوں کی تعداد کم نہیں ہے اور دیانتداری کا تقاضا ہے کہ اگر اہل افراد مقامی طور پر موجود ہیں تو باہر سے لوگوں کو کیوں شامل کیا جا رہا ہے۔ کیا ہمارے لوگ اپنی یونیورسٹیوں کو صحیح طریقے سے چلانے کے لیے موزوں امیدوار کا انتخاب کرنے کے اہل نہیں یا ان پر اعتماد نہیں۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو غیر جانبداری سے فیصلے کرنے کے اہل ہیں۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر مختار احمد سابق چیئرمین ایچ ای سی کو شامل کیا جا سکتا تھا۔ ریاست سے تعلق رکھنے والا فرد جس نے پاکستان کے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو چلایا، کیا اسے کمیٹی کا رکن نہیں بنایا جا سکتا تھا؟ پروفیسر منظور خان ، پروفیسر رستم خان، پروفیسر ڈاکٹر حبیب الرحمن، جسٹس ریٹائرڈ مجید ملک، جسٹس ریٹائرڈ مصطفی مغل، شمشاد ایڈووکیٹ سمیت کئی لوگ ایسے ہیں جن پر لوگ آج بھی اعتماد کرتے ہیں۔
ایک معصومانہ سا سوال یہ بھی ہے کہ کیا جب پنجاب میں وائس چانسلرز کا تقرر ہوتا ہے تو سرچ کمیٹی کے اراکین کا تقرر سندھ اور خیبر پختونخوا سے کیا جاتا ہے۔ اس سے تو بہتر تھا کہ پنجاب کی سرچ کمیٹی کو یہ فریضہ تفویض کر دیا جاتا۔ تین چار مخصوص نام ہیں جن کو بار بار یونیورسٹیوں کا وائس چانسلر منتخب کرنے کے لیے کمیٹیوں میں شامل کیا جاتا ہے اور وہ امیدواروں کا فیصلہ میرٹ پر کرنے کے بجائے اپنی پسند اور ناپسند کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔
کشمیر میں پہلے ہی احساس محرومی بہت زیادہ ہے۔ ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر خاموشی ایک قومی جرم ہو گا۔ جامعہ پونچھ کا وائس چانسلر کون ہو گا اس کا فیصلہ سرچ کمیٹی نے کرنا ہے لہٰذا مسئلہ کی سنگینی کو سمجھا جائے اور ریاستی افراد پر مشتمل سرچ کمیٹی بنائی جائے جس پر کسی کو اعتراض نہ ہو اور وہ سرچ کمیٹی میرٹ پر موزوں امیدواروں کا انتخاب کرے۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ جن لوگوں کے نام میں نے سرچ کمیٹی کے طور پر پیش کیے ہیں انہیں ہی لیا جائے مگر جس کو بھی سرچ کمیٹی میں لیا جائے ایک تو اس کاتعلق ریاست سے ہو اور دوسرا اس کی دیانت پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔
اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ کیا قانون یہ نہیں کہتا کہ اگر ریاست کے اندر موزوں امیدوار موجود ہوں تو باہر سے کسی کو بھرتی نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کسی کمیٹی کا رکن بنایا جا سکتا ہے؟
کشمیر میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور وزیر اعظم کے علاوہ ساری کابینہ کافی تجربہ کار ہے اس لیے وہ اس مسئلہ پر بحث کریں اپوزیشن کو بھی چاہیے کہ وہ ان معاملات پر آنکھیں اور کان بند نہ کرے بلکہ جو ناانصافی ہو اس کے خلاف آواز بلند کرے۔ یہ معاملات چھوٹے نہیں کہ چپ سادھ لی جائے۔ اپنے عمل سے ثابت کریں کہ ہم کٹھ پتلی نہیں بلکہ آزاد ریاست جموں و کشمیر کے حقیقی وارث ہیں۔