نئی دہلی: سابق بھارتی پولیس افسر این سی استھانہ نے اپنی نئی کتاب میں بڑا انکشاف کرتے ہوئے اپنے ہی ملک کی قلعی کھولتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان اس قابل ہی نہیں کہ وہ پاکستان کو جنگ کے میدان میں شکست دے سکے۔
دی وائر کرنٹ افیئرز پورٹل کے ایڈیٹر سدھارتھ ورادارجان استھانہ کا ماننا ہے کہ مہنگے ہتھیاروں کی خریداری پر خطیر رقم خرچ کرنے کے بجائے، بھارت اور پاکستان کو جنگی چیلنجز کا حل سفارتکاری کے ذریعے تلاش کرنا چاہیے، کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں کےحامل ہیں۔
ورداراجان نے بھارتی سیاست دانوں اور بیورو کریٹس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا ہے کہ ان لوگوں نے پاکستان دشمنی کا ناجائزہ فائدہ اٹھانا اپنی عادت بنا لی ہے۔ سیاست دان عوام میں پاکستان مخالف جذبات ابھارنے میں مصروف ہیں اور ایسی سازشیں کسی بھی طرح خطے کی سلامتی کےمفاد میں نہیں ہیں۔
استھانہ کا کہنا ہے کہ بھارت 2014ء سے اب تک ہتھیاروں کی خریداری پر 14 بلین ڈالر خرچ کرچکا،مستقبل میں اس میں مزید اضافے کا بھی امکان ہے۔ باوجود اس کے کہ بھارت کی فوج، فضائیہ اور بحریہ پاکستان کی نسبت بڑی ہے لیکن اگر پاکستان روایتی جنگ ہارنے کا خطرہ محسوس کرتا ہے تو وہ ایٹمی تجربہ کرنے پر مجبور ہوگا۔
استھانہ نے اپنی کتاب میں جنرل کدوائی کی سرخ لکیروں کا بھی ذکر کیا جس کے مطابق پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کا نشانہ صرف بھارت ہے۔ ''جوہری ہتھیاروں کا مقصد صرف ہندوستان میں ہے۔ اگر رکاوٹ ناکام ہو جاتی ہے تو، اگر وہ پاکستان پر حملہ کرتا ہے اور اس کے علاقے کے ایک بڑے حصے پر فتح حاصل کرتا ہے تو، بھارت اس کی سرزمین یا فضائیہ کے ایک بڑے حصے کو تباہ کر دے گا۔ پاکستان کو معاشی طور پر تنگ کرنے کی مثال دیتے ہوئے جنرل کدوائی کا کہا کہ بحری ناکہ بندی اور دریائے سندھ کے پانی کو روکنا بھی شامل پاکستان کو مسائل کا شکار کرنے کی بدیانتی کے مترادف ہے۔
انہوں نے خاص طور پر سیاسی اور بیوروکریٹک سٹیبلشمنٹ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انتخابی فوائد کے لئے پاکستان سے دشمنی کا ناجائز فائدہ اٹھانا ہندوستانی قائدین کو اپنی بیان بازی کو اپنی عادت بنا چکا ہے۔
ستھانہ ورداراجان کا بھارت کی سیاست پر کڑی نظر رکھتے ہوئے کہنا تھا کہ سیاست دانوں نے عوام کو بھی پاک بھارت جنگ کی طرف اکسا رہے ہیں جو کہ کسی طرح بھی خطے کے لئے فائدہ مند نہیں ہونا چاہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات مضبوط بنانے کے ذریعہ موجود ہیں، سلامتی چیلنجوں کا حل تلاش کرنا چاہیے تاکہ دونوں ممالک اپنی سفارتکاری میں آگے جاسکے۔