لندن: نئی قسم کے وائرس سے لندن اور انگلینڈ کے مشرقی علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق نیا وائرس ستمبر میں دریافت ہوا۔ پرانا وائرس دس میں سے دو افراد کو جبکہ نیا وائرس دس میں سے چار یا چھ افراد کو متاثر کر سکتا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس وائرس سے بچوں کے زیادہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ وائرس کے پھیلاؤ سے متعلق متضاد آراء بھی سامنے آ رہی ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق وائرس کسی دوسرے ملک سے لندن پہنچا جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ یہ خود انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے۔
نئے وائرس پر ویکسین کا اثر ہو گا یا نہیں، ماہرین کیلئے بڑا سوال بن گیا ہے؟ تاہم ماہرین پرامید ہیں کہ ویکسین موثر ثابت ہو سکتی ہے۔ وائرس تیزی سے اپنی ہیت تبدیل کرتا ہے، جو ماہرین کیلئے ہر سال نئی ویکسین کی تیاری کا بڑا چیلنج کھڑا کر سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے بہتر تو یہ ہے کہ عوام خود احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کریں، وگرنہ حکومت کو وسیع پیمانے پر لاک ڈاؤن نافذ کرنا ہوگا۔ یعنی پہلے وائرس نے اپنی شکل تبدیل کر کے یہ مہلک صورت اختیار کر لی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ لندن میں یہ وائرس کیسے ظاہر ہو گیا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ برطانیہ میں سب سے ایڈوانس Genome coding ہوتی ہے۔ یعنی ڈی این اے پر تحقیق سب سے اگلی اسٹیج پر ہے۔
ماہرین طب کا کہنا ہے کہ ویکسین نے بعض افراد میں لرجی کی صورت میں شدید ری ایکشن کیا ہے، تاہم اس سے پریشانی کی بات نہیں ہے کیونک بڑی تعداد میں عوام کو ویکسین لگنے سے اس طرح کے کیسز سامنے آ سکتے ہیں۔
نئی Moderna's vaccine، چار جنوری سے برطانیہ میں آئے گی اور حکومت نے 40 لاکھ ویکسین کا آرڈر دے دیا ہے، عوام کو نئی اور پرانی، دونوں ویکسینز دی جائیں گی۔
ماہرین اس بات پر بھی متفق ہے کہ اسپتالوں پر بے انتہا دباؤ آگیا ہے، اس لئے حکومت کو مکمل لاک ڈاون کرنا پڑے گا۔ ماہرین نے عوام سے اپیل کی ہے کہ گھر سے باہر نکلیں تو اپنے اور دوسروں کا خیال رکھتے ہوئے فیس ماسک پہن کر رکھیں، ہاتھوں کو بار بار دھوئیں، ہلکی پھلی ورزش کریں اور باہر کے کھانوں سے پرہیز کرتے ہوئے حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق Healthy Eating کریں۔