دوحہ: امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ حتمی مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ طالبان کونسل نے معاہدے پر دستخط کے لیے عارضی جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔
جنگ بندی کی حتمی منظوری طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ دیں گے تاہم جنگ بندی کی مدت واضح نہیں۔ یہ دس دن کے لیے بھی ہو سکتی ہے جبکہ امن معاہدے کے دو ہفتے بعد انٹرا افغان مذاکرات شروع ہو سکتے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق طالبان نے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں عارضی جنگ بندی معاہدے پر رضامند ہو گئے ہیں اس دوران امریکا کیساتھ امن معاہدے پر دستخط کا بھی امکان ہے۔
خیال رہے کہ 18 سال سے افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کی وطن واپسی کیلئے طالبان کیساتھ یہ امن معاہدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس وقت افغان سرزمین پر کم وبیش 12 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں۔
امریکی حکام چاہتے ہیں طالبان اس امن معاہدے میں انھیں یہ یقین دہانی بھی کروائیں کہ افغان سرزمین کسی دہشتگرد گروپس کیلئے استعمال نہیں ہونگی۔
امریکی حکام نے زلمے خلیل زاد کو ستمبر 2018ء میں افغان امن عمل کیلئے اپنے خصوصی ایلچی مقرر کیا تھا۔ انہوں نے ہی سالوں کے تعطل کے بعد طالبان کے ساتھ مذاکرات کو آگے بڑھایا۔
امریکا طالبان امن مذاکرات کے چار اہم نکات ہیں جن میں جنگ بندی، افغان حکومت اور طالبا کے درمیان مذاکرات، امریکی فو کا انخلا اور افغان سرزمین کا دہشتگرد کارروائیوں کیلئے استعمال نہ ہونا شامل ہے۔
اس کے بعد ایک ماہ بعد ہی گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستان نے اپنی قید سے ملا عبدالغنی برادر کو رہا کر دیا جنہوں نے فروری 2019ء میں دوحہ میں طالبان کے دفتر کا چارج سنبھالا اور 14 رکنی مذاکراتی ٹیم کا اعلان کیا۔
حال ہی میں امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد نے اہم بیان میں کہا تھا کہ پاکستان نے افغان لیڈر ملا برادر عبدالغنی کو امریکا کی درخواست پر رہا کیا تھا تاکہ افغان امن مذاکرات کو تیز کرنے میں مدد مل سکے۔ اس سلسلے میں پاکستانی حکومت نے تعمیری کردار ادا کیا۔