مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کی طرف سے غیر مقامی لوگوں کو ووٹ کا حق دینے کے فیصلے نے کشمیریوں کو ہلا کررکھ دیا۔اب اگلااقدام انہیں اپنے گھر چھوڑنے کیلئے کہا جا سکتا ہے،بھارتی حکومت کا ہدف جبری ڈیموگرافک تبدیلی، کشمیریوں پر قبضہ اور کشمیریوں کی سیاسی شناخت کو مٹانا ہے۔ پچھلے تین برسوں میں کشمیر پرہرایک فیصلہ مودی سرکارنے کشمیری عوام کی رضامندی کے بغیر کیا ہے، غیر مقامی لوگوں کو ووٹ کا حق دینے کا فیصلہ بی جے پی کے ایجنڈے سے کشمیر میں بی جے پی کی زیرقیادت حکومت تیار کرنا ہے جو 5اگست 2019 کے خود مختاری کو منسوخ کرنے اور ریاست کو تقسیم کرنے کے فیصلے کی باضابطہ توثیق کر سکتی ہے۔2011 کی مردم شماری کے مطابق، جموں و کشمیر کی آبادی کا 68 فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں جبکہ ہندو تقریباً 28 فیصد ہیں۔ مودی کا مقصد اس مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنا ہے۔ حد بندی کمشن نے 90 رکنی جموں و کشمیر اسمبلی میں جموں کو مزید چھ نشستیں دیں جبکہ کشمیر کو صرف ایک نشست دی گئی، یوں منصوبے کے تحت جموں کے پاس کل 43 نشستیں اورکشمیر کے پاس 47 رہ جائیں گی۔ باوجود کہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی کل آبادی ایک کروڑ 25لاکھ ہے جن میں سے وادی کشمیر کی آبادی 70 لاکھ تھی جبکہ جموں کی آبادی 5.3 ملین تھی، کشمیر کی موجودہ آبادی یقیناً زیادہ ہے۔ان میں سے 97فیصد مسلمان ہیں۔ آئندہ سال ہونے والے اسمبلی انتخابات کیلئے انتخابی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کرنے کا عمل شروع ہو گیا ہے، جس کی حتمی فہرست نومبر میں جاری ہونے کی امید ہے۔ اس اقدام سے76لاکھ موجودہ ووٹرز میں سے 25لاکھ مزید ووٹرز شامل ہوں گے جو کہ30فیصد اضافہ ہے۔نئے ووٹروں میں عارضی طور پر خطے میں مقیم ہندوستانی شامل ہوں گے، خاص طورپر ہندوستانی فوجی اہلکار، سرکاری اور نجی شعبے کے ملازمین، اور تارکین وطن اعلان میں کہا گیا کہ وہ تمام لوگ جو پہلے ووٹر کے طور پر اندراج نہیں کیے گئے تھے، آرٹیکل370 کی منسوخی کے بعد ووٹ دینے کے اہل ہیں۔ اگست 2019تک، ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں ووٹنگ کے حقوق صرف اس کے مستقل باشندوں تک محدود تھے، جس کی ضمانت ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370کے تحت دی گئی تھی، آرٹیکل 370کی منسوخی کا مقصد خطے کی آبادی کو تبدیل کرکے مقبوضہ وادی میں متعین 10لاکھ بھارتی فوجیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیناہے، اب وہ کشمیر سمیت جہاں تعینات ہیں وہ وہیں پر ووٹر لِسٹ میں اندراج کرواکر ووٹ کا حق استعمال کر سکتے ہیں، اس فیصلے کا اصل مقصد آہنی ہاتھوں سے جموں وکشمیر پر بی جے پی حکومت قائم کر کے کشمیریوں کو مزید بے اختیار بنانا ہے۔
5 اگست 2019 نے مقبوضہ کشمیر کی مظلوم تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کیا جس نے کشمیری عوام کی حالت زار میں شدت پیدا کردی۔ طویل ظالمانہ لاک ڈاون، مواصلاتی بلیک آوٹ اور سخت فوجی محاصرہ کے ساتھ پریس مسلط ہو گیا اورکشمیری رہنماوں کواس اقدام کے خلاف عوامی بغاوت روکنے کیلئے جیلوں میں بند کرکے کشمیری عوام کے تمام حقوق سلب کر لیے گئے۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بڑے پیمانے پر تشدد اورمن مانی گرفتاریوں کی اطلاع دی، ہزاروں افراد کو انکے گھروں سے اٹھا لیا گیا اور بچوں کو پیلٹ گن کے استعمال سے اندھا کر دیا گیا۔ من مانی حراست، عوامی اجتماع پر پابندی، پریس پر سخت پابندی اور اجتماعی قید، سیاسی رہنماوں اور صحافیوں کے خلاف بغاوت کے قوانین جیسے ظالمانہ اقدامات کا استعمال تاحال جاری ہے۔اگست 2019 کے بعد سے، مودی حکومت نے اپنے کنٹرول کو مستحکم کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر اور جابرانہ اقدامات کا استعمال کیا ہے اور اس کے غیر قانونی اقدامات کو جائزقرار دینے کیلئے بالآخر وہاں انتخابات کرانے کیلئے اقدامات کیے جارہے ہیں اور ایک متنازع ڈومیسائل قانون متعارف کرایا گیا جو خطے میں 15 سال سے زیادہ عرصے سے رہنے والے ہر ہندوستانی کو شہریت کے حقوق اورخطے میں زمین خریدنے کا اہل بنانے والے نئے قوانین بھی منظور کیے گئے۔خطے کے غیر کشمیری رہائشیوں کو مقامی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی اجازت دینے کا فیصلہ بی جے پی کے ایجنڈے سے کشمیر میں بی جے پی کی زیرقیادت حکومت تیار کرنا ہے جو 5 اگست 2019کے خود مختاری کو منسوخ کرنے اور تاریخی ریاست کو تقسیم کرنے کے فیصلے کی باضابطہ توثیق کر سکتی ہے۔یہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔ کشمیر پر اقوام متحدہ کی 11 قراردادیں ہیں، جبکہ سلامتی کونسل کی قرارداد 38 کے پیرا 2 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ تنازعہ کا کوئی بھی فریق کشمیر کی صورت حال میں مادی تبدیلی نہیں لا سکتا۔بھارتی حکومت کا یہ اقدام یقینا بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کے چارٹر اور چوتھے جنیوا کنونشن کی واضح خلاف ورزی ہے۔ یوں واحدمسلم اکثریتی ریاست کشمیرکوآئینی طورپر دی گئی خودمختاری کو چھیننے کے مودی کے فیصلے نے واضح کر دیا ہے کہ مسلم کشمیریوں کو بھارتی آئین کے متعین تحفظات بھی کمزور ہیں۔ مسلمان بھارتی آبادی کا 19فیصد سے زیادہ ہیں تاہم پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں4فیصد سے بھی کم ارکان ہیں جبکہ بی جے پی کے395 ارکان پارلیمنٹ میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ بھارتی سیاستدان اورمیڈیا شخصیات متعصبانہ فائدے کیلئے نسلی قوم پرستی کو ہوا دے رہی ہیں۔قیام پاکستان اور تقسیم ہند کے 75سال بعد بھارتی مظلوم مسلمانوں کو اس پسماندگی اور وحشیانہ تعصب کا سامنا ہے جس کی پیشگوئی بانی پاکستان قائداعظم نے 75 سال قبل کردی تھی۔مودی کی ہندو قوم پرست حکومت نے مسلم آبادی کے خلاف واضح طور پر دشمنی اختیار کر لی، ہندوستانی مسلمانوں کو سیاست دانوں، میڈیا اور انتہا پسند ہجوم نے نشانہ بنایا، عدالتوں اور پولیس کے ساتھ ساتھ حکومت کی تمام سطحوں میں تعصب پھیل گیاہے۔مسلمانوں کو ختم کرنے کی کھلی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔مودی حکومت نے ایسے قوانین بنائے جس سے لاکھوں مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کیا جارہا ہے۔غیرمقامی شہریوں کو یہاں کی سیاست، تجارت اور ملازمت میں شریک کرنا عوام اور جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ دھوکہ ہے۔75سال سے زیادہ عرصے سے بھارت نے کشمیر پر ایک فاشسٹ حکومت قائم کرنے کی ناکام کوشش کی ہے جسے عوام کی اکثریت نے ہمیشہ مسترد کردیا ہے۔ آخری ہدف جبری ڈیموگرافک تبدیلی، کشمیریوں پر قبضہ اور کشمیریوں کی سیاسی شناخت کو مٹانا ہے۔ یقینابی جے پی کشمیر کے حقیقی ووٹروں کی حمایت بارے اتنی غیر محفوظ ہے کہ اسے سیٹیں جیتنے کیلئے عارضی ووٹروں کو درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ مودی انتخابی دھوکہ دہی سے 25لاکھ ووٹرز کو لاکراورفاشسٹ حکمرانوں کے ذریعے کشمیری آبادی میں تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں۔یوں بی جے پی کی حکومت کشمیر میں اسرائیل طرز کی پالیسی نافذ کرنا چاہتی ہے۔اسی طرح انڈیا اور بی جے پی کے مذموم عزائم کامیاب نہیں ہوں گے۔اگران نام نہاد دھوکہ دہی کے انتخابات کی مشق کی گئی تو گزشتہ انتخابات کی طرح کشمیری اس کا بائیکاٹ کریں گے۔ کشمیر کا واحد حل کشمیری عوام کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہی ممکن ہے۔