ہمارے ہاں مثالیں دینے کو یا تو 1400 سال پہلے خلیفہ راشدین کے ادوار ہیں اور اگر گزرتے لمحے کی بات کریں تو چین، یورپ، امریکہ اور مغربی ممالک کے نظام ہائے مملکت ہیں۔ جمہوریت کا بہت تذکرہ کرتے ہیں، حق رائے دہی، ووٹ کو عزت دو، حقیقی آزادی، پارلیمانی سپرامیسی، حق حکمرانی کی باتیں تو بہت کرتے ہیں۔ حیرت اس بات پر کہ یہ سب باتیں اس قطعہ ارض پر ہیں جس پر 33 سال سے زائد سیدھا سیدھا مارشل لا اور باقی ہائبرڈ نظام رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ جتنی مرضی قوت رکھتی ہے چاہے اس کا بقول مولانا فضل الرحمن کے مورچہ اب سپریم کورٹ میں ہے، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔یاد رکھئے جو بھی نظام ہو اگر تغیر اور وقت کی رفتار کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوتا وہ جوہڑ بن جاتا اور اس کے تعفن سے فضا مکدر تو ہوتی ہے معطر نہیں رہتی۔ دنیا کی تہذیبیں جوہڑ میں بدلنے کے بعد تاریخ میں کھو گئیں۔ بابل، سامی، تاتاری، منگولیا سب کدھر گئیں جبکہ ہماری سیاسی جماعتیں تو کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتیں۔ کوئی شک نہیں کہ کسی بھی تحریک اور جماعت میں شخصیت کا کردار بہت اہم ہوا کرتا ہے۔ مولانا مودودیؒ ایسی قیادت دوبارہ جماعت کو نصیب نہیں ہوئی مگر انہوں نے سیکنڈ، تھرڈ اور فورتھ یا اپنے تئیں گراس روٹ تک ایک نظام دے رکھا ہے، سیاسی حیثیت کچھ بھی مگر اہمیت مسلم رہی۔ جو سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی، اے این پی وغیرہ نظریاتی جماعتیں ہیں وہ آج بھی اپنا وجود رکھتی ہیں، ن لیگ ایک بڑی جماعت ہے۔ اب وہ بھی نظریاتی جماعت کہلاتی گریٹ بھٹو صاحب کو تو وقت نہ ملا اور بی بی شہید جدوجہد سے فرصت نہ پا سکیں مگر نتیجتاً بات کریں تو ہماری سیاسی جماعتیں دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت مہیا نہ کر سکیں۔ ایک جماعتی شکل و صورت اور نظام نہ دے سکیں۔ 1275 میں میگناکارٹا ہوا جس میں بادشاہ کو قانون کے تابع کیا گیا۔ 1789 میں کانگریس اور امریکی پارلیمنٹ کی بنیاد رکھی گئی اور آئین دیا۔ باقاعدہ ایک ارتقا کا سلسلہ ہے ایک نظام ہے جو پہلے جماعتوں کو مضبوط کرتا ہے اور پھر جماعتیں اپنی مضبوط قیادت کے ذریعے اپنے ملک کی باگ ڈور سنبھالتی ہیں۔ بے شک امریکی صدر اور انگلستان کے وزیراعظم ایک مرتبہ سے زیادہ منتخب ہوئے اور ان میں ایسی شخصیات بھی آئیں جنہوں نے تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑے، کینیڈی جیسے خاندان بھی آئے، بش جیسے خاندان بھی آئے، کلنٹن فیملی بھی آئی لیکن جماعتوں کے اندر انتخابات، انتظامات اور نظام ملکی آئین کی طرح مسلم اور پختہ طریقے سے قائم رہے۔ وہاں کی اسٹیبلشمنٹ نے اپنی جمہوری حکومتوں کی رہنمائی کی مگر ہمارے ہاں حالت یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں جوہڑ بن چکی ہیں کوئی ان میں بار بار اقتدار میں آنے والے لوگوں کی شکلیں نہیں دیکھنا چاہتا، یہ اسٹیبلشمنٹ کا ظلم ہے کہ جماعتوں کی توڑ پھوڑ اور بنانے میں مصروف رہتی ہیں ورنہ یقین کریں عوام خود فواد چودھری، فردوس عاشق اعوان، رانا تنویر، طلال چودھری، منظور وٹو، بابر اعوان ایسے لوگوں کے چہروں سے عاجز ہیں۔ پی ٹی آئی کے پی کے میں 9
سال سے حکومت میں ہے، اس کے لوگوں نے اتنے جھوٹ بولے، اتنے دعوے کیے اور قوم و معاشرت کو ایسا ناقابل یقین حد تک نقصان پہنچایا کہ لوگ ان کا چہرہ بھی نہیں دیکھنا چاہتے۔ لہٰذا سیاسی جماعتوں کی قیادتوں کو چاہئے کہ وہ خود پارٹی عہدے بھلے اپنے پاس رکھیں لیکن انتخابی عمل میں نئے اور باکردار چہرے اتاریں۔ ایک نظام دیں جماعتی نظام جو سیاسی جماعت کو جوہڑ نہ بننے دے۔ دوسرے، تیسرے اور چوتھے درجے کی قیادت فراہم کریں۔ وطن عزیز میں دائیں اور بائیں بازو کی جماعتیں باقاعدہ کارکنان کی تربیت کے لیے ورکشاپ کا اہتمام کیا کرتی تھیں آمریت کے سیلابی ریلے بار بار سب کچھ بہا لے گئے مگر اس کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں نے بھی کردار سازی اور تنظیم سازی کے ساتھ سیاسی تربیت نہ کی اور نہ ہی دوسرے درجے کی قیادت کو برداشت کیا گیا نتیجہ یہ ہوا کہ سیاسی جماعتیں سکڑ کر صرف اپنی پہلے نمبر کی قیادت بلکہ ایک شخصیت کی صورت اختیار کر گئیں۔ بیورو کریسی کے مسلسل جبر، لوٹ مار اور سیاہ کاریوں کے خلاف انقلاب نہیں آتا، اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھی یہی معاملہ ہے اور عدلیہ کی صورت حال بھی یہی ہے کیونکہ ان کی قیادتیں جوہڑ نہیں بنتیں۔ قوموں کی تاریخ میں 75 سال زیادہ عرصہ نہیں ہوتا لیکن اگر تاریخ واقعات کے بجائے سانحات پر مبنی ہو تو جغرافیہ بھی برقرار نہیں رہ سکتا۔ آج ملک سیلاب کی زد میں ہے، صوبائی حکومتوں کے پاس 98 فیصد ذرائع ہیں، اطلاعات تھیں کہ سیلاب آئیں گے۔ ایک مولوی صاحب یہ کہہ کر فارغ ہو گئے کہ یہ اللہ کی ناراضی ہے۔ اللہ کی ناراضی ہوتی تو تمہاری جاگیر کیوں بچ گئی، بنی گالا، جاتی عمرہ، بلاول میڈیا ہاؤس، قلعہ نما درگاہیں اور پیرخانے کیوں بچ گئے۔ آسٹریلیا کے جزیرے کیوں بچ گئے۔ لاکھوں کے جلسوں کے دعوے کرنے والو آج تم سے سیکڑوں بھی نہ نکل سکے کہ تم اپنے جلسہ کے شرکا کی مدد کو ہی پہنچ پاتے۔ مجھے یاد ہے علیمہ خان چترال میں موسمی خرابی میں پھنس گئی تھی، ہیلی کاپٹر پہنچ گئے۔ مگر 4 دوست، والدین، بچے جو مدد کو پکارتے رہے کوئی ہیلی کاپٹر نہ پہنچا۔ سیلاب کی خبریں انسانوں کو تو سونے نہیں دیتیں، وطن عزیز ایک جزیرہ بن کر رہ گیا ایک اینکر تہہ خانے میں بیٹھ کر سیلاب پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹی وی پر دیکھ کر دل جگر ایک ہو گیا ۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما کی ہوس اقتدار، نفرت کا معیار تو دیکھیں حالانکہ پونے چار سال وفاق میں دوران حکومت مافیاز کو نوازا، 4 صوبوں میں اب بھی اس کی حکومت ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے، فرح گوگی کی ہو شربا داستانوں، توشہ خانہ لوٹنے، پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنانے، ملک کی معیشت اور معاشرت برباد کرنے کے بعد بھی دوسروں کو چور ڈاکو کہہ رہا ہے، نفرت، انتشار اور الزام کی سیاست کر رہا ہے جبکہ وطن عزیز میں اس وقت ہم آہنگی اور رواداری کی ضرورت ہے اپنی حکومت کے دور میں کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس تاخیر سے گئے پھر انٹرنیشنل معاہدوں کی خلاف وزی کی۔ اب آئی ایم ایف سے معاہدے کی راہ میں رکاوٹ ہے، اس کے حواری اس کی مرضی سے بیرونی ممالک کو پاکستان کے سیلاب متاثرین کی مدد سے روک رہے ہیں۔ سیلاب میں کروڑوں لوگوں کی بربادی ناقابل فراموش دکھ ہے۔
میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری، عمران نیازی، مولانا فضل الرحمان، مولانا طارق جمیل، چودھری پرویز الٰہی، چودھری شجاعت حسین، طاہر القادری، بڑی درگاہوں کے گدی نشینوں، اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے والے، عدلیہ، بیوروکریسی کے عہدیداران، ترین، علیم خان، گورنر سرور، بڑے میڈیا ہاؤسز کے مالکان، بدنام زمانہ میڈیا پرسنز وغیرہ کو ایک ایک ارب روپیہ سیلاب فنڈ میں دینا چاہیے۔ وطن عزیز کے ادارے اور نظام جوہڑ کی صورت اختیار کر چکا، اس میں نئی قیادت کو داخل کرنا ہو گا۔