یہ دنیا حادثات، سانحات اور تجلیات سے بھری پڑی ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر جب تک روئے زمین قائم و دائم ہے اس پر آفات، زلزلے ، سیلاب اور طوفان آتے رہیں گے۔ کیوں کہ یہ ”نیچر“ کا ایک حسین امتزاج ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہم ان سے بچاﺅ کیسے کرتے ہیں؟ اور سب سے اہم بات کہ یہ چیز ہم سب کے علم میں بھی ہے کہ یہاں ہر آفت آنے والے دنوں میں ہماری مہمان ہوگی، مگر پھر بھی ہم نہ تو حفاظتی تدابیر اختیار کرتے ہیں، نہ ان آفتوں کے آگے بندھ باندھتے ہیں اور نہ ہی ان کا سد باب کرتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کا سدباب کیسے ہو؟ اس کی مثال آپ جاپان سے لے لیں، جہاں خطہ زمین کے سب سے زیادہ زلزلے آتے ہیں اور یہ زلزلے پاکستان میں آنے والے 2005 کے زلزلوں جتنی شدت (7.1-7.9) رکھتے ہیں۔ لیکن وہاں کبھی جانی و مالی نقصان نہیں ہوتا، بلکہ یوں کہہ لیں کہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ انہوں نے حادثات سے بچنے کے لیے زلزلہ پروف عمارتیں بنا رکھی ہیں، سونامی سے بچنے کے لیے کنکریٹ کے بیسمنٹ بنا رکھے ہیں اور جہاں طوفانوں کا خدشہ ہو وہا ں کی عمارتوں کے شیشے بھی بلٹ پروف قسم کے بنائے جاتے ہیں۔ یہی حال یورپ کا ہے، جہاں ہر سال شدید برف باری ہوتی ہے مگر انہوں نے ایسے انتظامات کر رکھے ہیں کہ کبھی کوئی سانحہ رونما نہیں ہوتا۔ مگر یہاں آج ایک بار پھر آدھا پاکستان ڈوب چکا ہے، 12ارب ڈالر کے نقصان کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے، مطلب جو پاکستان ایک ڈیڑھ ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہو ئے تھا اسے مزید 12ارب ڈالر کے نقصان کا دھچکا لگا ہے۔
چلیں یہ حالات بھی سہہ لیں گے، مگر اس دوران جو انسانی المیے نے جنم لیا ہے وہ بھی کسی سے کم نہیں، پشاور میں ڈوبنے والی بچی اٹک سے مل رہی ہے،ڈیرہ غازی خان میں لاشوں کے ڈھیر لگ چکے ہیں۔تین کرو ڑ سے زائد آبادی کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔2010میں آنیوالے سیلاب کو پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیلاب کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے، جس میں تقریباً دو کروڑ شہری متاثر ہوئے تھے مگر حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں نے 2010ءکے سیلاب کے ریکارڈ بھی توڑ دئیے ہیں۔مگر حیرت یہ ہے کہ ہم بے شرموں کی طرح اپنی غفلت چھپانے کے لیے ان بارشوں کو اللہ کا عذاب
کہہ کر اپنے آپ کو وقتی دلاسا دے رہے ہیں۔ حالانکہ یہ عذاب نہیں ہماری غفلت ہے، اگر عذاب ہی آنا ہوتا تو چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں پر آتا، ہیرا پھیریاں کرنے والوں پر آتا، رمضان میں بھی ملاوٹ کرنے والوں اور حج و عمرہ کے نام پر فراڈ کرنے والوں پر آتا، عذاب آتا تو کرپٹ سیاستدانوں پر آتا، ، عذاب آتا تو ان لوگوں پر آتا جن کے فیصلوں سے آج تک ہم یہاں تک پہنچے ہیں، عذاب آتا تو غلط فیصلے کرنے والے ججز پر آتا، عذاب آتا تو ان ”لوٹے“ سیاستدانوں پر آتا جو اپنے ذاتی مفادات کیلئے وفاداریاں بدلتے دیر نہیں لگاتے۔ عذاب آتا تو غیر قانونی منافع کمانے والوں پر آتا، عذاب آتا تو کالا باغ ڈیم نہ بنانے والوں پر آتا، بلکہ اگر واقعی عذاب آتا تو ہمارے ملک کی پانچوں اسمبلیاں نہ بچتیں۔ عذاب آتا تو ان پر آتا جنہوں نے دریا کنارے ہوٹل بنانے کے لیے غلط لائسنس جاری کیے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جہالت کی وجہ سے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے کہ یہ واقعی عذاب ہے، یقین مانیں اس دوران میری نظر سے ایسی ایسی ویڈیوز گزر رہی ہیں کہ جیسے لوگوں نے سیلاب کو قرآن دکھایا، پھر زمین پھٹی اور سیلاب اس پھٹی ہوئی زمین میں چلا گیا! یہ کیا ہے؟ مطلب سادہ لوح لوگوں کو اینی میشن کے ذریعے بے وقوف بنایا جا رہا ہے اور ہم بن رہے ہیں! لہٰذاحالیہ سیلاب کا تعلق عذاب سے نہیں بلکہ ٹھوس منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے ہے، ہمارے ہاں ڈیم نہیں بن رہے جبکہ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت ایک ایک دریا پر سیکڑوں ڈیم بنا کر بجلی پیدا کر رہا ہے۔اس کے برعکس پاکستان میں 73 ڈیم ہیں جن میں سے 60 گزشتہ صدی میں مکمل ہوئے تھے۔ پچھلے 22 برس میں اس شعبے میں ہونے والا بیشتر کام ابھی زبانی جمع خرچ یا تکمیل کے مرحلوں میں ہے۔ ہاﺅسنگ سوسائٹی مافیا، چائنا کٹنگ کے ماہرین اور کچھ مراعات یافتہ ریاستی محکموں نے پہلے سے موجود آبی ڈھانچے کا ستیاناس کر دیا۔
معذرت کے ساتھ مسئلہ سیلاب کا بھی نہیں، یہ پانی اگلے چند دنوں میں اپنا تاوان لے کر بحیرہ عرب میں جا گرے گا لیکن اس کے بعد اناج، سبزیوں اور دالوں کی مہنگائی کا طوفان آئے گاہم اس سے کیسے نمٹیں گے، یقین مانیں میںخود چند خیمے خرید کر سیلاب زدگان کی مدد کرنا چاہتی تھی مگر میں نے جیسے ہی لاہور کی بڑی مارکیٹ سے خیموں کے ریٹ پتہ کرائے تو وہاں 4ہزار والا خیمہ 12ہزار روپے کا ہو چکا تھا۔ مطلب! یہاں ان ناجائز منافع خوروں پر عذاب کیوں نہیں آتا؟ اور پھر ابھی تو سیلاب کی نذر ہونے والے مال مویشی کا نقصان دودھ اور گوشت کی قیمتوں میں اضافہ بھی دیکھنے کو ملے گا۔ سیلابی پانی اترنے کے بعد وباﺅں اور بیماریوں کا سلسلہ شروع ہو گا۔ جس ملک نے روزمرہ اخراجات کے لئے آئی ایم ایف اور بیرونی ممالک کی طرف ہاتھ پھیلا رکھا تھا، وہ ملک کے ایک چوتھائی رقبے پر انفرا سٹرکچر کی تباہی سے کیسے نمٹے گا۔ مکمل افلاس کا شکار ہونے والوں کی بحالی کیسے کرے گا؟
الغرض اس کے لیے یقینا ٹھوس حکمت عملی کی ضرورت ہے، ان اداروں کی ضرورت ہے جو اس حوالے سے نیک نیتی سے کام کریں، آپ کے علم میں اضافے کے لیے یہاں یہ بھی بتاتی چلوں کہ پاکستان میں فلڈ کمیشن بنا ہوا ہے ، جس نے چوتھا فلڈ پروٹیکشن پلان دیا ہے لیکن اس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔ تقریباً ہر دس سال بعد بڑا فلڈ آتا ہے اور ہر بار پہلے سے زیادہ نقصان ہوتا ہے۔فلڈ سے زیادہ نقصان پہاڑی علاقوں یا پہاڑوں کے دامن میں واقع میدانی علاقوں میں ہوتا ہے۔ پہاڑی ندی نالوں کے اپنے مقررہ راستے ہیں۔ ان کے اوور فلو سے جو سیلاب آتے ہیں ، ان کے بھی مقررہ راستے ہیں۔ دریاﺅں میں پانی زیادہ ہونے سے سیلاب آتے ہیں۔ ان سیلابوں کے بھی راستے بنے ہوئے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ان سیلابوں کو اسی طرح کنٹرول نہیں کیا جا سکا ، جس طرح دنیا کے دیگر ممالک نے کیا؟ انہوں نے سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کےلیے ڈیم بنائے۔ سیلاب کے راستوں میں آبادیاں قائم نہیں ہونے دیں اور جو آبادیاں بنیں ، انہیں بھی دوسرے علاقوں میں منتقل کر دیا۔ ہماری ہاں صرف پانی کا راستہ روکنے کے لیے بند بنائے جاتے ہیں ، جو سیلابوں میں بہہ جاتے ہیں۔ ان بندوں کی تعمیر و مرمت میں اربوں روپے کی خورد برد ہوتی ہے۔ اس طرح فلڈ مینجمنٹ نہیں ہوتی۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر ان لوگوں کو پکڑا جائے جو سیلاب اترنے کے بعد اور پہلے تک دریاﺅں کے کنارے پر رہائش رکھنے اور بڑی بڑی بلڈنگز بنانے کے لیے لائسنس جاری کرتے ہیں۔ انہیں روکا جائے بلکہ انہیں بھی پکڑ کر جیلوں میں بند کیا جائے جو اپنی غفلت چھپانے کے لیے ایسی آفات کو مذہب کے ساتھ جوڑ کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔