پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اکیسویں صدی کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ یہ حکومت ایک نظریہ پر وجود میں آئی۔ جس کی بنیاد انصاف، انسانیت اور خودداری کے اصولوں پر رکھی گئی۔ عمران خان نے قائد اعظم کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے پاکستانیوں میں خود اعتمادی اور خود انحصاری کے جذبات کو ابھارا اور انہیں منظم کر کے ان میں تبدیلی کی تڑپ پیدا کی۔ اس طرح قومی سوچ میں آنے والے نئے عزم کے بل بوتے پر 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی۔ مگر اس وقت عمران خان کو ایسا پاکستان ورثے ملا جو دنیا کے ٹاپ دس کرپٹ ملکوں کی لسٹ میں شامل تھا۔ ایک ایسا ملک ملا تھا جہاں صرف دو ہفتے کے ریزرو موجود تھے۔ ایسی عدلیہ ملی جو چور کو گھر بیٹھے ضمانت دینے کی روایت رکھتی تھی۔ نیازی کو حکومت بنانے کے لیے ناپسندیدہ ایم کیو ایم اور ق لیگ کو شامل کرنا پڑا۔ ایمرجنسی میں سعودی عرب سمیت عرب ممالک کے پاس قرضوں کے لیے جانا پڑا۔
آج کل یہ باتیں اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ لوگوں کی زبان پر عام ہیں کہ کہاں ہیں ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر اور اتنی مہنگائی ہو گئی ہے کہ آٹا مہنگا، چینی مہنگی، کوکنگ آئل مہنگا جس نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔ بجلی کے بل، پانی کا بل، گیس کا بل آسمانی بجلی بن کر لوگوں کے سروں پر ہر مہینے گرتے ہیں۔ جی ڈی پی چھ فیصد سے کم ہو کر منفی سے ہوتی ہوئی چار فیصد ہے یہ کیسی تبدیلی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مہنگائی ہوئی ہے مگر ایک بات یاد رکھنے کی ہے عمران خان نے ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا ہے اور ریاست مدینہ تین سال میں نہیں بنی تھی۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت مشکل وقت گزارا۔ بے شک راہ حق کے راستے میں بہت رکاوٹیں اور مشکلیں آتی ہیں۔ بلاشبہ پاکستان ایک مشکل وقت سے گزر رہا ہے اس مشکل وقت میں بھی وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بیس اچھے کام کیے ہیں۔ جس کا ذکر میں یہاں ضرور کرنا چاہوں گی۔
پہلا اچھا کام ہے کہ ہمارے وزیر اعظم نے پاکستان کو دنیا میں کرونا پر قابو پانے کے لیے بہتر حکمت عملی اختیار کرنے والے ملک کا اعزاز دلایا ہے۔ اس کا سہرا عمران خان اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے اور عوام کو بھی جس نے اپنے لیڈر کی بات پر عمل کیا۔ اس کے برعکس انڈیا، امریکہ اور برطانیہ میں کرونا سے مرنے والوں کی لاشیں دفنانے کے لیے لمبی قطاریں موجود تھیں۔
دوسرا بڑا کام حکومت کی آگاہی کے ذریعے لوگوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے جس سے ٹیکس ریکوری میں بھی ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ٹیکس ریکوری 3800 ارب سے بڑھ کر 4700 ارب تک جا پہنچی ہے۔ تیسرا بڑا کام ترسیلات زر میں اضافہ ہونا ہے۔ جس کا سہرا بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو جاتا ہے۔ جنہوں نے عمران خان کی قیادت پر بھرپور بھروسہ کیا اور اپنے ڈالر پاکستان بھیجے ہیں۔ اس طرح ترسیلات زر 19 ارب ڈالر سے بڑھ کر 29.4 ارب ڈالر تک جا پہنچے۔ چوتھا بڑا کام کنسٹرکشن انڈسٹری کو بوسٹ کیا۔ جس سے تیس سمال انڈسٹری کو فائدہ پہنچا اور سیمنٹ کی فروخت میں مجموعی طور پر بیالیس فیصد اصافہ ہوا ہے۔
پانچواں بڑا کام مافیا کے خلاف جنگ لڑی۔ اس حوالے سے نیب کو فعال اور متحرک کیا گیا ہے۔ تاکہ ملک میں قانون کی بالادستی قائم ہو۔ طاقت ور اور غریب کے لیے ایک قانون ہو۔ نیب نے گزشتہ اٹھارہ سال میں 290 ارب کی ریکوری کی تھی جبکہ تحریکِ انصاف کی تین سالہ حکومت میں 519 ارب کی ریکوری کی گئی ہے۔
عمران خان حکومت کا چھٹا بڑا کام کامیاب نوجوان پروگرام کے پلیٹ فارم پر ایک لاکھ بیالیس ہزار نوجوانوں کو ٹیکنیکل اور ڈیجیٹل کی تعلیم دینا ہے۔ ان میں پندرہ ارب روپے بھی تقسیم کیے۔ اب اس پروگرام کو کامیاب پاکستان پروگرام میں تبدیل کیا جا رہا ہے جس میں 40 لاکھ گھرانوں کے بچوں کو ٹیکنیکل کی تعلیم دی جائے گی، بغیر سود کے پانچ لاکھ تک کے قرضوں کے ساتھ آسان شرائط پر گھر دیئے جائیں گے۔
ساتواں بڑا کام کسان کارڈ کا اجرا ہے۔ پہلی دفعہ کسانوں کو اجرت وقت پر دی گئی ہے۔ جس سے گندم، چاول اور گنے میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ کسانوں کو گندم کی اضافی قیمت کی مد میں 1100 ارب روپے دیئے گئے ہیں۔ جس سے زرعی ٹریکٹر، موٹر سائیکل اور گاڑیوں کی سیل میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔
آٹھواں بڑا کام ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجرا ہے۔ جو اس سال دسمبر کی آخر تک تمام پاکستانیوں کو مل جائے گا اور وہ دس لاکھ روپے تک کا علاج سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں کرا سکیں گے۔ نواں بڑا کام گھر بنانے کے لیے سستے قرضے دیے جا رہے ہیں۔ جس کے تحت اب تک 45 ارب روپے دیئے جا چکے ہیں۔ مزید گھروں کے لیے تین سو ارب روپے آسان شرائط پر دینے کا ارادہ ہے جو تین فیصد سود پر دیئے جائیں گے۔ ہاؤسنگ سکیم کے تحت 30 ہزار غریب لوگوں کو گھر دیئے جا چکے ہیں اور 70 ہزار گھروں کا یونٹ مکمل ہونے کے قریب ہے۔ دسواں بڑا کام احساس ایمرجنسی پروگرام ہے۔ جو دنیا کا تیسرا بڑا پروگرام ہے۔ جس کے تحت کرونا کے دنوں میں ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو بارہ ہزار روپے دیئے گئے ہیں۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان کا گیارہواں بڑا کام احساس نشوونما سینٹر کا قیام ہے۔ گیارہ اضلاع میں پچاس نشوونما سینٹر بنائے جائیں گے۔ بارہواں بڑا کام غریبوں کے لئے لنگر خانے قائم کرنا ہے۔ تاکہ غریب بھوکا فٹ پاتھ پر نہ سوئے۔ تیرہواں بڑا کام دس بلین درخت لگانے ہیں۔ اس سلسلے میں اب تک پہلے فیز میں ایک ارب درخت لگ چکے ہیں۔ دوسرے فیز میں پچاس کروڑ درخت لگنے ہیں تاکہ ماحول کو سرسبز و شاداب اور صاف شفاف بنایا جا سکے۔
چودہواں بڑا کام پاکستان میں بسنے والوں کو ایک قوم بنانے کے لیے پہلے قدم کی طرف بڑھنا ہے۔ اس ضمن میں تعلیم کے شعبے کا انتخاب کیا گیا ہے۔ جس میں یکساں قومی نصاب رائج کرنے کا وعدہ پورا کرنا ہے۔ تمام سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں میں ایک نصاب کر دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ دسویں جماعت تک سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھائی جائے گی۔
پندرہواں بڑا کام دس سال کی مدت میں ملک میں دس ڈیم بنائے جائیں گے۔ اس میں مہمند ڈیم 2025 میں مکمل ہو گا۔ حکومت کا سولہواں بڑا کام بہترین خارجہ پالیسی اختیار کرنا ہے۔ جس کے تحت کشمیر اور افغانستان کے ایشوز پر بھارت کو منہ کی کھانا پڑی ہے۔ سترہواں بڑا کام الیکٹرانک ووٹنگ مشین ہے۔ اٹھارواں بڑا کام جو کیا وہ یہ ہے کہ اکاؤنٹ خسارہ بیس ارب ڈالر سے کم ہو کر 1.4 ارب ڈالر رہ گیا ہے۔ انیسواں بڑا کام شرح سود تیرا فیصد سے کم ہو کر پانچ فیصد تک آ گئی ہے۔ بیسواں بڑا کام عمران خان نے سیاحت کو فروغ دیا ہے۔
بالاسطور میں حکومت کے جن بڑے کاموں کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ چیدہ چیدہ ہیں۔ جبکہ موجودہ حکومت کے ان تین سال کے دوران ہر ایک کام پر بات کی جائے تو کسی ایک مضمون میں ان تمام کا احاطہ کرنا ممکن ہی نہیں ہو سکتا۔ یا بیس بڑے کاموں میں سے ہر ایک پروگرام کے اغراض و مقاصد اور ان کی جزیات کو کھول کر بیان کروں تو بھی تفصیل طویل ہوتی چلی جائے گی۔ کیونکہ وزیراعظم عمران خان اپنے عزم میں پختہ ہیں اور دھن کے پکے ہیں۔ وہ عملاً کام کر رہے ہیں۔ سابقہ حکمرانوں نے صرف شو کیا ہے۔
موجودہ حکومت کے ان اقدامات سے لگتا ہے کہ اگلی باری پھر نیازی۔ ان شاء اللہ۔