یہ 20 سال پہلے کی بات ہے۔ حاجی سخی نے اس رات افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا جب اس نے دو طالبان ممبران کو ایک نوجوان عورت کو اس کے گھر سے گھسیٹ کر نکالتے اور فٹ پاتھ پر مارتے ہوئے دیکھا۔ اس نے خوفزدہ ہو کر علی الصبح ہی اپنی تین بیٹیوں اور بیوی کو کار میں بٹھایا اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر پاکستان کی طرف روانہ ہو گیا۔ وہ طالبان حکومت کے خاتمے کے تقریباً ایک دہائی بعد کابل واپس آئے۔ لیکن اب، جب امریکی افواج کے انخلا کے ساتھ ہی ملک پرطالبان قبضہ کر چکے ہیں، 68 سالہ سخی کے حواس پر وہ پرانی تشدد بھری رات چھا رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس بار اس کے اہلخانہ انتظار کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ سخی کا کہنا ہے کہ میں اپنے اثاثے چھوڑنے سے ڈرتا ہوں نہ ہی دوبارہ نئے سرے سے زندگی کا آغاز کرنے سے، مجھے اگر کسی چیز سے خوف آتا ہے تو وہ طالبان ہیں۔ اب انہوں نے اپنے، اپنی بیوی، تین بیٹیوں اور بیٹے کے لیے ترک ویزوں کے لیے درخواست دے دی ہے۔
افغانستان بھرمیں، ایک بڑے پیمانے پر خروج سامنے آ رہا ہے جب کہ طالبان نے تیزی سے افغانستان کے دارالحکومت کابل پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی شدت پسند اور بے رحم حکومت کی واپسی یا نسلی اور مسلکی ملیشیاؤں کے مابین خونریز خانہ جنگی کے خدشات نے زور پکڑ لیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، اس سال اب تک تقریباً 3,30,000 افغان بے گھر ہو چکے، ان میں سے نصف سے زیادہ اس وقت اپنے گھروں سے نکل پڑے تھے جب امریکا نے مئی میں انخلا شروع کیا تھا۔ بہت سے لوگوں نے عارضی خیموں یا شہروں میں رشتہ داروں کے گھروں میں پناہ لے رکھی ہے، بہت سے صوبوں میں مزید ہزاروں افراد ملک چھوڑنے کے لیے پاسپورٹ اور ویزا حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سیکڑوں سمگلروں کے باربردار ٹرکوں میں گھس کر غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔
بین الاقوامی تنظیم برائے مائیگریشن کے مطابق حالیہ ہفتوں میں غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے والے افغانوں کی تعداد 30 سے 40 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ مئی کے بعد سے کم از کم 30,000 لوگ ہر ہفتے ملک سے فرار ہو رہے ہیں۔ امدادی ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ سب مہاجرین کے بڑھتے ہوئے بحران کی ابتدائی علامت ہے، جس نے پڑوسی ممالک اور یورپ میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے ترجمان بابر بلوچ نے رواں ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ افغانستان ایک اور انسانی بحران کے دہانے پر ہے۔ ”افغانستان میں امن معاہدے تک پہنچنے اور موجودہ تشدد کو روکنے میں ناکامی مزید نقل مکانی کا باعث بنے گی۔“ اچانک ہجرت میں بدامنی کے پہلے دور کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ 1979ء میں سوویت یونین کے حملے کے بعد لاکھوں لوگ افغانستان سے نکل گئے تھے۔ سویت یونین کے انخلا کے بعد ہجرت جاری رہی کہ ملک میں ہر طرف خانہ جنگی کا آغاز ہو چکا تھا۔ یہاں تک کہ 1996ء میں طالبان کے اقتدار میں آنے پر بھی صورت حالات میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی۔ تقریباً 3 لاکھ کی تعداد کے ساتھ افغان اس وقت پناہ گزینوں اور پناہ کے متلاشی دنیا کی سب سے بڑی آبادیوں میں
سے ایک ہیں۔ یہ شام کے بعد یورپ میں پناہ کے خواستگاروں کی دوسری بڑی تعداد ہے۔
اب ملک ایک اور خونی باب کی دہلیز پر ہے لیکن افغانوں کا نیا اخراج اس وقت سامنے آیا ہے جب دنیا بھر کا رویہ تارکین وطن کے ساتھ انتہائی سخت ہو چکا ہے۔ جنگ سے متاثرہ ممالک سے نقل مکانی روکنے کے لیے 2016ء میں وطن واپسی کا معاہدہ کرنے کے بعد، یورپ نے ہزاروں افغان مہاجرین کو ملک بدر کر دیا ہے۔ لاکھوں افراد کو ترکی کے ساتھ ساتھ پڑوسی پاکستان اور ایران کی طرف سے واپس بھیجا جا رہا ہے، جو دنیا بھر میں تقریباً 90 فیصد بے گھر افغانوں کے میزبان ہیں، انہوں نے بھی حالیہ برسوں میں ریکارڈ تعداد میں افغانیوں کو ڈی پورٹ کیا ہے۔
کورونا وائرس کی پابندیوں نے قانونی اور غیر قانونی نقل مکانی کو مزید مشکل بنا دیا ہے، کیونکہ اقوام عالم نے اپنی سرحدیں بند کر دی ہیں اور پناہ گزینوں کے آبادکاری پروگراموں کو کم کر دیا ہے، جس سے ہزاروں تارکین وطن زیادہ خطرناک راستوں سے یورپ کا سفر کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ امریکا میں افغانوں کے لیے سپیشل امیگریشن ویزا پروگرام کے لیے عوام کا ایک شدید دباؤ موجود ہے، ایسے افغان جو امریکی حکومت کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے خطرات کا شکار ہیں۔ ایسے تقریباً 20,000 اہل افغان اور ان کے خاندان امریکا کے حملے کے دوران اس کا ساتھ دینے یا اس کی ملازمت کرنے کے باعث مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ افغان اتحادیوں کی حفاظت کے لیے شدید دباؤ میں ہے کیونکہ امریکا نے طالبان کی شورش کے دوران فوج اور فضائی مدد واپس بلا لی ہے۔
کابل میں ایک حالیہ صبح، لوگ پاسپورٹ آفس کے باہر جمع ہوئے۔ چند گھنٹوں کے اندر، شہر کے تین بلاکوں تک ترک وطن کے خواہشمندوں کی قطار لگ چکی تھی۔ جہاں دیوار پر انتباہ درج تھا کہ ”اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی کو خطرے میں نہ ڈالیں۔ ہجرت اس کا حل نہیں ہے“۔ پھر بھی بہت کم لوگ باز آئے۔
41 سالہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ مجھے پاسپورٹ لینا ہے اور اس ملک سے باہر نکلنا ہے۔ جنوب مشرق میں ایک تجارتی مرکز کابل اور غزنی کے درمیان ٹیکسی چلانے والے عبداللہ کے مطابق حالیہ لڑائی شروع ہوتے ہی لوگ دارالحکومت کابل کی طرف بھاگے، بڑی تعداد میں افغان فوجی اس نے گاڑی میں شفٹ کیے۔ دو دن بعد اس کے مالک نے فون کیا کہ طالبان ایک ڈرائیور کے بارے میں پوچھ رہے ہیں جس نے سکیورٹی فورسز کو کابل سے نکلتے ہوئے دیکھا تھا۔ انہوں نے عبداللہ کی گاڑی کی نمبر پلیٹ بھی بتائی تھی۔ صورت حالات سے گھبرائے ہوئے عبداللہ کا کہنا ہے کہ وہ کسی طرح وہاں سے نکلنا چاہتا ہے۔ ”قانونی طور پر بیرون ملک جانا مہنگا جبکہ غیر قانونی طور پر ایسی کوشش خطرناک ہے، لیکن ملک میں رہنا اور بھی خطرناک ہے۔“
افغانوں کی ایک بڑی تعداد ملک کے مغربی صوبے نیمروز میں غیر قانونی نقل مکانی کے مرکز زرنج کی طرف منتقل ہو چکی ہے، جہاں سمگلروں کے باربردار ٹرک ہر روز سرحد پار کر کے ایران جاتے ہیں۔ برٹش اوورسیز ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے مائیگریشن ریسرچر اور کنسلٹنٹ ڈیوڈ مینس فیلڈ کے مطابق مارچ میں تقریباً 200 کاریں روزانہ زرنج سے ایرانی سرحد کے لیے روانہ ہوئیں - جو کہ 2019 کے مقابلے میں 300 فیصد اضافہ ہے۔ جولائی کے اوائل تک ہر روز 450 کاریں سرحد کی طرف جا رہی تھیں۔
جو لوگ اخراجات برداشت کر سکتے ہیں وہ ترکی اور پھر یورپ کے سفر کے لیے ہزاروں ڈالر ادا کرتے ہیں۔ لیکن بہت ساری فورسز سمگلروں اور غیر قانونی تارکین وطن سے نمٹتی ہیں، ایران میں غیر قانونی طور پر کام کرنا انتہائی مشکل ہے چہ جائیکہ آپ اس سے اگلے سفر کے مرحلے کو برداشت کر سکیں۔ محمد ادیب، جو غیر قانونی طور پر ایران ہجرت کرنے پر غور کر رہے ہیں، کا کہنا تھا ”ہمارے پاس ویزا حاصل کرنے کے لیے پیسے یا ذرائع نہیں ہیں“۔ ادیب نے ملک کے شمال مغرب میں واقع شہر قلعہ سے جولائی کے اوائل میں اس وقت اپنا گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا جب طالبان نے ایک رات شہر کا محاصرہ کیا۔ اس کے مطابق جیسے ہی صبح طلوع ہوئی، فائرنگ کی آواز پڑوسیوں کے نوحوں سے بدل گئی۔ بجلی کی تاریں زمین پر پڑی تھیں، گھروں کے دروازے ٹوٹے ہوئے جبکہ سڑک خون سے رنگین تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ترک وطن کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
تاجکستان میں 1600 افغان مہاجرین منتقل ہو چکے، جبکہ حکام نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ تقریباً ایک لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کے لیے تیار ہیں۔ دیگر پڑوسی ممالک نے افغانوں کی میزبانی کے لیے آمادگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنی سرحدوں کی سکیورٹی بڑھا دی ہے اور خبردار کیا ہے کہ ان کی معیشتیں مہاجرین کا مزید بوجھ نہیں سنبھال سکتیں۔ وسطی یورپ کے رہنماؤں نے بھی اپنی سرحدوں کی سکیورٹی انتہائی سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے، خدشہ ہے کہ موجودہ خروج 2015ء میں سامنے آنے والے بحران میں بدل سکتا ہے جب تقریباً ایک ملین تارکین وطن، زیادہ تر شامی، یورپ میں داخل ہوئے تھے۔دوسری طرف اقوام متحدہ کے مطابق، افغانستان میں ملک کی نصف آبادی کو پہلے ہی، پچھلے سال کے مقابلے میں دوگنا اور چار سال پہلے کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ، انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔
40 سالہ محمد نبی محمدی نے 36 رشتہ داروں کو کابل لانے کے لیے ایک ہزار ڈالر قرض لیا جب طالبان نے مالستان ضلع میں ان کے گاؤں پر حملہ کیا۔ آج اس کا تین کمروں کا اپارٹمنٹ جو شہر کے کنارے پر واقع ہے، گھر سے زیادہ پُر ہجوم پناہ گاہ کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ مرد ایک بڑے کمرے میں سوتے ہیں، عورتیں دوسرے میں اور بچے اپارٹمنٹ کے ایک چھوٹے سے بیڈ روم میں کپڑوں کے بیگ اور دیگر ضروری سامان کے ساتھ گھس جاتے ہیں۔ محمدی روٹی اور چکن خریدنے کے لیے، جس کی قیمتیں بڑھ کر تقریباً دوگنا ہو چکی ہیں، پڑوسیوں سے ایک بڑی مقدار میں قرض لے چکے ہیں۔ اب، کسی سہولت یا آسانی کے بجائے وہ مسلسل قرض کی دلدل میں ڈوب رہا ہے اور پریشان ہے کہ کیا کرے۔ ”یہ خاندان بیمار اور صدمے کا شکار ہیں، انہوں نے اپنا سب کچھ کھو دیا ہے،“۔ باورچی خانے کے ایک کاؤنٹر ٹاپ کے قریب کھڑے محمد نبی نے خود کلامی کی۔۔۔ ”جب تک حالات بہتر نہیں ہوتے، میں نہیں جانتا کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔“
(بشکریہ: دی نیویارک ٹائمز)