اسلام آباد: اڈیالہ جیل حکام نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت کے سلسلے میں سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر نواز شریف کو کل عدالت میں پیش کرنے سے معذرت کر لی۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس کی سماعت کی جس سلسلے میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو سخت سیکیورٹی میں اڈیالہ جیل سے عدالت لایا گیا۔
نواز شریف کی عدالت آمد پر لیگی رہنماؤں کی بڑی تعداد کمرہ عدالت میں آ گئی جس پر جج ارشد ملک نے سیکیورٹی اہلکاروں کو طلب کر کے کچھ افراد کو باہر بھجوا دیا۔
سماعت کے آغاز پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جرح کا آغاز کیا تو جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے شماریات کی اصلاحات سے متعلق سوالات کے جواب دینے سے گریز کیا۔
واجد ضیاء نے عدالت سے مکالمہ کیا کہ خواجہ صاحب مکمل طور پر تکنیکی ٹرمز سے متعلق سوالات کر رہے ہیں۔ جنرل نالج اور سمجھ کے مطابق بتا سکتا ہوں اور غلطی کی گنجائش ہو سکتی ہے۔
خواجہ حارث نے سوال کیا کہ جےآئی ٹی نے سعودی حکام سے ایچ ایم ای کے آڈٹ شدہ اکاؤنٹس کی فنانشل اسٹیٹمنٹ مانگی تھی؟ اس پر واجد ضیاء نے بتایا کہ اس سوال کا جواب دینے کیلئے مجھے ریکارڈ دیکھنا پڑے گا۔ سعودی حکام کو لکھا گیا ایم ایل اے والیم ٹین میں موجود ہے۔ والیم 10 سر بمہر ہے اور اس وقت میرے پاس دستیاب نہیں۔
عدالت نے واجد ضیاء اور پراسیکیوٹر کی درخواست پر والیم ٹین کا متعلقہ حصہ لانے کی ہدایت کی۔
خواجہ حارث نے کہا کہ شریک ملزمان کی جمع کرائی گئی دستاویزات بھی ہمارے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔ اس پر نیب پراسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ جب یہ دستاویزات آپ نے نہیں دیں تو پھر ان پر جرح کیوں کر رہے ہیں۔
العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت میں کچھ دیر کا وقفہ کیا گیا جس کے بعد عدالت نے نواز شریف کو واپس اڈیالہ جیل بھیجنے کی ہدایت دے دی جب کہ اس موقع پر جیل حکام نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر کل نواز شریف کو پیش کرنے سے معذرت کر لی۔
جیل حکام نے عدالت کو بتایا کہ کل دھرنے اور ریلیوں کا امکان ہے لہٰذا کل نواز شریف کو سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے پیش نہیں کر سکتے۔
کمرہ عدالت میں نواز شریف سے شاہد خاقان عباسی، چوہدری تنویر، آصف کرمانی، پرویز رشید، راجہ ظفر الحق، سینیٹر غوث نیاز اور میئر اسلام آباد شیخ انصر نے ملاقات کی۔