تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی 44 ماہی حکمرانی قوم کے لئے کسی صدمے سے کم نہیں تھی۔ چترزبانی، بدکلامی، نالائقی، نااہلی اور جھوٹ و مکر پر مبنی دور حکمرانی نے مہنگائی، غربت، بے یقینی اور انارکی کو جنم دیا۔ کووڈ نے یقینا اپنا کردار ادا کیا۔ عالمی سطح پر ہونے والی کارروائیوں نے بھی حکومتی کارکردگی پر اثرات مرتب کئے لیکن بحیثیت مجموعی عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دورِ حکمرانی، قوم کے لئے سوہان جان ہی نہیں سوہانِ روح بنا رہا یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم نے جب عمران حکومت کے خاتمے کی جمہوری جدوجہد کا آغاز کیا تو اسے عوامی پذیرائی ملی لوگوں کو امید کی ایک کرن ہی نہیں روشن سورج نظر آنے لگا۔ عمران خان نے اپوزیشن کی طرف سے پیش کردہ تحریک عدم اعتماد سے نمٹنے کیلئے جو رویہ اختیار کیا وہ کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا ہے۔ عمران خان اور ان کے جیالے حواریوں نے جس طرح ایوان کی بے توقیری کی۔ انہوں نے جس طرح مقدس دستاویزیعنی آئین پاکستان کی خلاف ورزی کی آئین کی بے توقیری کی وہ انتہائی نازک اور حقیقتاً ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ اس پر موجودہ حکومت کو سنجیدگی سے سوچنا اور پھر طے کردہ لائحہ عمل پر کام کرنا چاہئے وگرنہ آئین شکنی کی جو روایت 1958 سے جاری ہے وہ ویسے ہی چلتی رہے گی۔ 1958 میں ایوبی مارشل لاء ہو یا 1969 میں جنرل یحییٰ کا اقتدار پر قبضہ، جنرل ضیاء الحق کا 1977 کا مارشل لا ہو یا 2001 میں جنرل مشرف کا نوازشریف کی منتخب حکومت کا خاتمہ کرنا ہو یہ سب اقدامات آئین شکنی کا اظہار ہیں جو تمام آئین شکنیاں کرنے والے جرنیل تھے ان کے ایسے اقدامات کی حفاظت کرنے کے لئے فوج جیسا مضبوط و موثر ادارہ موجود ہوتا تھا اس لئے آئین شکنی کے ایسے اقدامات کرنے والوں پر گرفت نہیں کی جا سکی ہے۔ حالیہ آئین شکنی کے واقعات تو پارلیمان میں ہو رہے ہیں ایسا ادارہ (یعنی پارلیمان) جو آئین ہی نے تخلیق کیا ہو، منتخب کردہ اور منتخب شدہ ممبران اسی آئین کی بالادستی اور پاسداری کا حلف اٹھا کر پارلیمان کا ممبر بنتے ہیں اگر وہ بھی اس کے ساتھ عہدشکنی کریں، اس کی پاسداری کا حلف
اٹھانے والے اس کی خلاف ورزی کریں تو پھر ایسے لوگوں کا محاسبہ کرنا تو بنتا ہے۔ اخباری اطلاعات ہیں کہ وفاقی حکومت نے صدر پاکستان، عمران خان، قاسم سوری اور عمر چیمہ کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کا ریفرنس دائر کرے گی۔ اس حوالے سے تیاریاں بھی شروع کر دی گئی ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے خلاف جب تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو عمران خان نے اسے خوش آمدید کہا اسے اپنے لئے برکت قرار دیا پھر جب سندھ ہائوس میں تحریک انصاف کے منحرفین راجہ ریاض کی قیادت میں سامنے آئے تو تحریک انصاف کی قیادت کے طوطے ہی نہیں فاختائیں بھی اڑنے لگیں، آئین کے مطابق معاملات کی راہ میں روڑے نہیں پتھر اٹکائے جانے لگے تحریک انصاف کو پتہ چل گیا کہ وہ اپنی ننھی منی عددی اکثریت کھو چکی ہے۔ 2018 میں قائم کردہ بھان متی کا کنبہ بکھر چکا ہے اور عمران خان کو ایوان میں شکست نوشتہ دیوار بن چکی ہے تو انہوں نے مختلف قسم کی نازیبا حرکات شروع کر دیں ویسے تحریک انصاف اسی قسم کی نہیں بلکہ ہر قسم کی نازیبا حرکات کرنے کے لئے مشہور ہے تحریک انصاف کا خمیر ہی ایسی سوچ پر اٹھا ہے ناچ گانا، دشنام طرازی، بدکلامی، بدتہذیبی و غیرہم اس کا ایک شرمناک مظاہرہ گزشتہ روز حرم نبی کریمﷺ میں بھی اس وقت دیکھنے کو ملا جب پاکستانی وفد وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی قیادت میں حرم مسجد نبویؐ میں آیا تو تحریک انصاف کے جیالوں نے اپنا خبثِ باطن وہاں بھی اگل دیا ۔ شہباز شریف کی دشمنی میں انہوں نے مسجد نبوی کا تقدس ہی پامال کر دیا یہ ان کی سیاسی تربیت کا ایک چھوٹا سا شاہکار ہے۔
بات ہو رہی تھی ایوان اقتدار میں، آئین کے ساتھ کھلواڑکی۔ تحریک انصاف کی اعلیٰ اور ادنیٰ قیادت نے ایٹمی طاقت کے حامل ریاست پاکستان کا دنیا کے سامنے مذاق بنایا۔ ایوان صدر میں بیٹھے شخص نے بھی تحریک انصاف کے ایک ادنیٰ جیالے کے طور پر ایکٹ کر کے صدر مملکت کے برتر عہدے کے وقار کو نقصان پہنچایا۔ پارلیمان میں اسد قیصر اور قاسم سوری جیسے آئینی عہدوں پر فائز افراد نے بھی انتہائی پست فکروعمل کا مظاہرہ کیا۔ اگر سپریم کورٹ مداخلت نہ کرتی اور مملکت کے بڑے اپنا مطلوبہ کردار ادا نہ کرتے تو کھلاڑی اپنی ٹیم سمیت مملکت پاکستان کو گمبھیر بحران میں دھکیلنے کی تیاری کر چکا تھا۔ یہاں وہ ساری تفصیلات بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے وگرنہ قوم کو پتہ چلے کہ عمران خان اور ان کا حقیر سا ٹولہ پاکستان کے ساتھ کیا کرنے جا رہا تھا۔ ویسے پاکستان کی ایسی تیسی کرنے اور یہاں خانہ جنگی کرانے کی تیاریاں تو اب بھی جاری ہیں۔ 20 لاکھ افراد اکٹھا کرنے اور لانگ مارچ اور دھرنا دینے کے اعلانات کئے جا چکے ہیں سردست پوری پی ٹی آئی قیادت پر ناکامی اور شکست کی جھنجھلاہٹ طاری ہے۔ عمران خان کے جیالے عمران خان کی ذلت آمیز شکست کو ہضم نہیں کر پا رہے ہیں وہ ہر شے کو تہہ و بالا کرنے کے موڈ میں تلملا رہے ہیں۔ شیخ رشید گھیرائو جلائو اور اسلام آباد بند کرنے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔
تحریک انصاف اپنی ایسی ہی آئین شکن اور غیرقانونی حرکات کو پنجاب میں دہرا رہی ہے بزدار حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد، ان کے وزارت اعلیٰ سے مستعفی ہونے کے باعث پہلے ہی کامیاب ہو گئی تھی پھر حمزہ شہباز شریف کا بطور وزیراعلیٰ پنجاب انتخاب بھی عمل میں آ چکا ہے۔ لیکن تحریک انصاف کے حامی و ساتھی بننے والے سپیکر چودھری پرویز الٰہی بھی ایسی ہی غیرآئینی و قانونی حرکات کر رہے ہیں جیسی مرکز میں پی ٹی آئی کی قیادت نے کی تھیں لیکن انہیں حتمی طور پر شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ چودھری پرویز الٰہی پی ٹی آئی کے شریک سفر بن کر نہ صرف اپنی پارٹی تڑوا بیٹھے ہیں بلکہ اپنی خاندانی شرافت و نجابت کا جنازہ بھی نکلوا بیٹھے ہیں۔ عمر سرفراز چیمہ، بطور گورنر پنجاب قطعاً غیرآئینی و قانونی حرکات کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ حمزہ شہباز کا وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھانا مقدر ہے آج نہیں تو کل، کل نہیں پرسوں، وہ وزیراعلیٰ پنجاب کی مسند پر بیٹھے ہوں گے اور پی ٹی آئی کے جیالے ایسے ہی گلی گلی نعرہ زن ہوں گے جیسے وہ آج کل عمران خان کی پارلیمان میں شکست پر سیخ پا ہو رہے ہیں۔ آرٹیکل 6 کے تحت آئین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ریفرنس لانا وقت کی آواز نہیں بلکہ پوری قوم کا مطالبہ ہے کہ آئین شکنوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔