آڈیو ہنگامہ اور ڈار کی واپسی

آڈیو ہنگامہ اور ڈار کی واپسی

وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا کہ ہم ایک نیوکلئیر طاقت ہیں، ہمارا دفاع مضبوط ہے،دُشمن ہماری طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔وزیر اعظم نے یقینا صحیح کہا ہے لیکن اس میں کتنا دُرست ہے اور کتنا غلط اور کیا واقعی ہم اتنے ہی محفوظ ہیں جتنا کہ وزیر اعظم صاحب بیان کرر ہے ہیں؟ فوری کسی دُرست نتیجے پر پہنچنا، شاید ممکن نہ ہوگا۔ وزیر اعظم کا کہنا بجا ہے لیکن کہیں حقیقت حال اس سے کچھ مختلف تو نہیں؟ حالیہ واقعات بتاتے ہیں کہ سب کچھ اتنا بھی محفوظ نہیں ہے جتنا کہ وزیر اعظم کا کہنا، یا کم ازکم ان کا خیال ہے۔ کئی میلی آنکھیں اور کان وزیر اعظم ہاؤس تک ضرور پہنچ چکے ہیں اور اپنے مذموم مقاصد میں سارے نہ سہی اس حد تک تو ضرور کامیاب رہے وہاں ہونے والی اہم گفتگو کو باآسانی ریکارڈ کرکے اُڑن چھو ہوچکے ہیں۔بتایا جارہا ہے کہ یہ ریکارڈنگ کچھ سیکنڈز یا چند منٹ کی نہیں بلکہ مکمل ڈیٹا لگ بھگ 8جی بی پر مشتمل ہے۔ گویا آڈیوز کے ساتھ ویڈیوز بنائے جانے کا بھی احتمال ہے۔یوں یہ کہانی اتنی لمبی تو ضرورہوسکتی ہے کہ ہم کہہ سکیں کہ کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں۔درجنوں ’قابل اور ماہر ترین‘ ملکی ا یجنسیوں کی موجودگی میں ساتویں ایٹمی قوت کے طاقتور ترین شخص کے دفتر سے جہاں عام آدمی کی آزادانہ رسائی کا تصور تک ممکن نہیں، کسی کاباآسانی ریکارڈنگ کرکے چھو منتر ہوجانا، کوئی آسان بات تو نہیں، چنانچہ یہ فیصلہ کرنا یقینا مشکل ہے کہ سیکورٹی ایجنسیاں زیادہ تیز ہیں یا پھر ریکارڈنگ کرنے والا؟ کہیں ایسا تو نہیں کے گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق یہ کام کوئی اپنا ہی سرانجام دے گیا ہے۔بہرحال اب تو ایسے ہی ہے جیسے سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنا۔ دُنیا بھی میں جو جگ ہنسائی ہونی تو وہ تو ہوچکی۔خود وزیر اعظم شہباز شریف کو یہ کہنا پڑا کہ اب دُنیا بھر سے ہمیں امداد دینے کے لئے کوئی کیوں آئے گا۔
 اب تو بس یہی دُعا ہے کہ اس سارے عمل میں کچھ ایسی باتیں بھی نہ سامنے آجائیں جن کے سامنے آنے سے ریاست پاکستان کے اہم مفادات کو کئی خطرہ لاحق ہو۔ باقی رہ گئی تحقیقا ت اور انکے لیے بنائے جانے والے تحقیقاتی کمیشن تولیاقت علی خان کی شہادت کی تحقیقات سے لیکر حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ اور یا پھر ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ، سب لا حاصل۔آج تک نہ تو ذمہ داروں کا تعین ہوسکا اور نہ ہی انکے خلاف کوئی ایکشن۔ یعنی پردہ ہے پردہ۔اور چلمن کے پیچھے کون چھپا ہے کچھ معلوم نہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس دوبارہ طلب کرلیا ہے۔وہ اسکی صدارت خود کرینگے۔ لیکن کیا اس سے کوئی نتیجہ نکل پائے گا، کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔پاکستان میں آڈیوز اور ویڈیوز لیکس کا سلسلہ کافی عرصہ سے چل رہا ہے۔ اہم سیاستدانوں، ججوں اوربیوروکریٹس کی وڈیو منظر عام پر آچکی ہیں۔حالیہ آڈیو لیکس پر چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان خاصے خوش نظر آرہے ہیں وہ اپنے جلسوں اور خطابوں میں اسکا ذکر کرتے نظر آئے۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اس آڈیو لیکس سے مریم نواز اور وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف سیاسی محاذ پر بہت کچھ کہنے کو مل گیا ہے۔ تاہم ایسے میں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ بھی زیرِلب مسکراتے ہوئے ایک انٹرویو میں کہہ گئے کہ انہوں نے بھی انکی کچھ ایسے وڈیو زدیکھی ہیں جو کسی کو دکھائی نہیں جاسکتیں۔ ارے بھئی! اس میں ایسا بھی کیا ہے۔ اب تو انہیں دیکھنے کا اشتیاق مزید بڑھ گیا ہے۔ ویسے سیاستدانوں کو سمجھ جانا چاہیے کہ ان وڈیوز اور آڈیوز کو بنانے والے بڑے تیز ہیں۔یہ اپنا کام بڑی رازداری سے اسی وقت شروع کردیتے ہیں جب سیاستدان اپنے سیاسی کئیریر کے ابتدائی سیڑھیاں چڑھ رہے ہوتے ہیں۔ ان کے خلاف ثبوت اکھٹے ہوتے رہتے ہیں اور انہیں اس کی بھنک بھی نہیں پڑتی۔ جب انکی فائلیں تیار ہوجاتی ہیں تو یہ ثبوت اکھٹا کرنے والوں کے ہاتھوں میں اسی طرح پھنس جاتے ہیں جیسے کسی طوطے کی جان۔ آنے والے دنوں میں دیکھتے ہیں کہ کس طوطے کی جان کس کے ہاتھ میں ہے۔زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب تحریک انصاف کے کچھ زعماء میڈیا پر پی ڈی ایم کی قیادت کو درخواستیں کرتے نظر آئے کہ عمران خان کی ایسی کوئی وڈیوز لیکس کرنے کی حماقت نہ کرے ورنہ ان کی جانب سے بھی وڈیو لیکس سامنے آسکتی ہیں۔ یوں ایک نیا پنڈورا باکس کھل سکتا ہے۔  
ویسے اس سارے ہنگامہ میں اسحاق ڈار وزیر اعظم شہباز شریف کے طیارے میں سرزمین پاکستان پر لینڈ کرگئے، بلکہ اپنے عہدہ کا حلف بھی اُٹھا لیا۔ انکے سامنے دو بڑے چیلنجز ہیں۔ پہلا ڈالر کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمت کو زمین پر لانا اور دوسرا پاکستان کی تاریخ کی ریکارڈ27فیصد مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنا۔عوام اس مہنگائی سے تنگ آچکی ہے اور اسی وجہ سے پی ڈی ایم خاص طور پر مسلم لیگ نواز کا عوامی مقبولیت کا گراف سجدہ ریز ہوچکا ہے۔ اسکا بالواسطہ فائدہ عمران خان کو پہنچ رہا ہے۔ مہنگے پٹرول اور بجلی نے عوام کی تکالیف میں بے پناہ اضافہ کر رکھا ہے اور ایسے میں اشیا خورونوش کی ہوشربا قیمتیں جلتی پر تیل کا کام کررہی ہیں۔
 سوال یہ ہے کہ کیا اسحاق ڈار کچھ کر پائیں گے؟ ہنوز حل طلب ہے۔ جہاں تک ڈالر کو قابو میں کرنے کا سوال ہے تو وہ ماضی میں اسمیں کس قدر کامیاب نظر آئے۔ ان کے پچھلے دور میں بطور وزیر خزانہ ڈالر کو فری مارکیٹ فورسز کے رحم و کرم رکھنے کی غلطی کے بجائے قابو میں رکھا گیا جس سے ہچکولے کھاتی پاکستانی معیشت ڈوبنے سے بچی رہی۔ تاہم پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت نے اسے فری مارکیٹ فورسز کے حوالے کرنے کی جو تباہ کن غلطی کی اس نے پاکستانی معیشت کو بُری طرح ہلا کر رکھ دیا اور اسکے آفٹر شاکس ابھی بھی جاری ہیں۔ پاکستان کو اس وقت ایک طرف امپورٹ بل کے لیے30ارب ڈالر چاہئیں جس میں لگ بھگ 25ارب ڈالر پٹرولیم مصنوعات، تین ارب ڈالر خوردنی تیل اور دو ارب ڈالر کوئلہ کی درآمد کے لیے چاہئیں۔ اگرچہ اسحاق ڈار کی واپسی کے ساتھ ہی ڈالر کی قیمت میں 6روپے تک کی کمی دیکھی گئی ہے اور اسٹاک ایکسچینج میں بھی تیزی ہے جس کا وہ کریڈٹ بھی لے رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے آنے ہی سے1350ارب روپے کے قرضے کم ہوگئے ہیں۔ تاہم اسکا کریڈٹ عمران خان کو بھی جاتا ہے جنہوں نے چند روز قبل عندیہ دیا تھا کہ اگر امریکی سائفر کی دُرست تحقیقات ہوجائیں تو وہ اسمبلی میں جانے کو تیار ہیں۔لانگ مارچ کے انکے بیانات سے جو سیاسی بے چینی پائی جاتی تھی،انکے اس بیان سے قدرے کم ہوئی ہے۔ لگتا ہے فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ پاکستان کو سیاسی انتشار کے حوالے کرنے کے بجائے فی الوقت استحکام کی طرف لانے کی کوشش کی جائے گی تاکہ بیرون دُنیا سے نہ صرف امداد آنے کا سلسلہ کسی تعطل کے بغیر چلتا رہے بلکہ اس امداد کو اسکے اصل حقداروں تک بھی پہنچایا جاسکے۔

مصنف کے بارے میں