سیلاب نے پاکستان پر قیامت ڈھادی اور حکمران تماشا دیکھتے رہے،ساڑھے تین کروڑ پاکستانی اپنے گھروں،مال مویشی اور کاروبار سے محروم ہونے کے بعد بھوک پیاس اور بیماریوں سے لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ یو این سیکریٹری جنرل نے پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں کے تفصیلی دورے کے بعدبجاطور پر اس تباہی کا ذمہ دار ان ملکوں کو ٹھہرایا جنہوں نے اپنی صنعتی ترقی سے عالمی درجہ حرارت کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے۔انتونیو گوتریس نے اعتراف کیا کہ موسمیاتی تبدیلی سے جتنی تباہی پاکستان میں ہوئی ہے، اس پیمانے پر انھوں نے اپنی زندگی میں کبھی تباہی نہیں دیکھی۔ زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، جس کا نقصان وہ ممالک اٹھا رہے ہیں جو ارضی درجہ حرارت میں اضافے سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔یوایس سیکرٹری جنرل نے اسے ایک عالمی بحران قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ پاکستان ڈوبا نہیں بلکہ بڑے صنعتی ممالک کی لا پروائی سے ڈبویا گیا ہے۔صنعتی ممالک نے بڑی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کرتے ہوئے قدرتی درجہ حرارت کو ڈسٹرب کیا۔ ہم اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کو ان ممالک سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ ان کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پاکستان میں جو تباہی آئی ہے اس کے نقصانات کا ازالہ کریں۔ پاکستان یہ معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کرے اور دلیل اور اعتماد سے اپنا کیس پیش کرے۔ سیکرٹری جنرل یو این کا بیان اس تباہی کے ذمہ دار ممالک کے خلا ف ایک چارج شیٹ اور پاکستان کے حق میں ایک واضح دلیل ہے۔ امریکہ، چین، روس، برطانیہ نے سب سے زیادہ قدرتی درجہ حرارت میں اضافہ کیا ہے۔ اس موقع پر ضروری تھا کہ نقصانات کے ازالے کیلئے پاکستان معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھاتا اور پاکستان کے ذمہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے قرضے معاف کرنے کا مطالبہ کرتا،یو این سیکرٹری جنرل ہماری بات کررہے ہیں مگر اس موقع پر بھی مرکزی اور صوبائی حکومتیں ایک پیج پر نہیں ہیں اور ذاتی مفادات کی جنگ میں الجھی ہوئی ہیں۔
حکومت اور اپوزیشن کا اولین فرض تھاکہ سیلاب کے نقصانات کو کم سے کم رکھنے کیلئے فوری طور پر سر جوڑ کر بیٹھتے اور ایک مشترکہ لائحہ عمل بنا کر بروقت متاثرین کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جاتی مگر قیامت کی اس گھڑی میں بھی دونوں کو آرمی چیف کی تقرری اور
نیب مقدمات کی پڑ ی ہے۔حکومت اور اپوزیشن کے رویے نے ثابت کردیا ہے کہ انہیں سیلاب متاثرین کی پریشانیوں سے کوئی سروکارہے اور نہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے ان کو کوئی پریشانی ہے۔حکومت اور اپوزیشن کی اس دھینگا مشتی نے ملک کو دیوالیہ کردیا ہے۔ عوام روٹی کے نوالے کو ترس رہے ہیں،بجلی کے بلوں میں ظالمانہ ٹیکسوں نے لوگوں کی نیندیں اڑادی ہیں۔تیل اور گیس کے نرخ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں جبکہ حکمران طبقہ اپنی عیاشیوں میں مگن اور آنے والے حالات سے بے خبر ہے۔ عوام میں حکمرانوں کے خلاف پکنے والا لاوا پھٹنے کو ہے،اگر حالات کو سدھارنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی اور اشرافیہ کے محلوں کی طرف بھوکے ننگے لوگوں کے بڑھتے قدموں کو روکنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔
ہمارا مسئلہ ساڑھے تین کروڑ متاثرین سیلاب کی جلد ازجلدبحالی ہے۔ قوم کو یقین دلاتے ہیں کہ آخری متاثرہ شخص کی آباد کاری تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ دوسروں کیلئے جینے والے عظیم لوگ ہیں،عوام کے ایثار اور قربانی کے جذبہ کو سلام پیش کرتا ہوں،اس وقت قوم بہت بڑی آزمائش سے دوچار ہے جبکہ کوئی اس کا پرسان حال نہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ڈوبنے والے چیخ و پکار کرتے رہے مگرکوئی ان کی مدد کو نہیں پہنچا۔ اس جرم میں جہاں پاکستان کے جاگیردار اور وڈیرے شامل ہیں جنہوں نے اپنے محلات اور فصلیں بچانے کیلئے غریبوں کی بستیوں کی طرف پانی چھوڑ دیا وہاں وہ صنعتی ممالک بھی شریک جرم ہیں جن کی نشاندہی سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ نے کی ہے۔ انسانیت کے مفاد میں ان صنعتی ممالک کے اس جرم کا نوٹس لیا جانا ضروری ہے۔ اقوام متحدہ نے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے ابتدائی اعدادوشمار جاری کیے ہیں۔ پاکستان میں 30لاکھ ایکڑ زرعی رقبہ زیر آب ہے،12ہزار کلو میٹر سڑکوں کو نقصان پہنچا۔ براہ راست10ارب ڈالر جبکہ بالواسطہ طورپر27ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔تباہی کے اس سونامی کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ سکول کے بچے شہید ہوئے۔ پاکستان میں 23ویں بار سیلاب آیا ہے ہر بارلوگوں کو روتے دھوتے دیکھا مگر مستقل انتظام کسی نے نہیں کیا۔ہر بار مزیدحادثے اورسانحے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے انسانی المیے جنم لے رہے ہیں۔ قوم بار بار نظام کی درستی کا موقع ملا مگر ہم نے مواقع ضائع کیے۔ 2010 کے سیلاب کے حوالے سے فلڈ کمیشن کی رپورٹ کی تیاری پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے مگرکسی ایک تجویز پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔
اگروزیراعظم نے بھی میری طرح متاثرین کیلئے چندہ ہی مانگنا ہے توپھر ایٹمی ملک کے وزیراعظم اور مجھ میں کیا فرق ہے۔ وزیر اعظم کو چاہیے تھاکہ ہاتھ پھیلانے سے پہلے اپنی طرف سے کم ازکم 10ارب روپے اس کار خیر میں حصہ ڈالتے۔ یہی مطالبہ میں منشاء گروپ، ملک ریاض، بلاول بھٹو زرداری، عمران خان، علیم خان، شوکت ترین، جہانگیر ترین اور مخیر حضرات سے بھی کرتا ہوں۔ لوگ جان بچانے کیلئے چیخ و پکار کرتے رہے۔ ہم نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ایمرجنسی فون کیے کہ لوگوں کی جانیں جاسکتی ہیں ہیلی کاپٹر بجھوائیں مگر ہمیں کہاگیا کہ فضائی جائزہ لیا جارہا ہے۔ متعدد لوگوں کی شہادتیں محض اس وجہ سے ہوئیں کہ حکمران فضائی جائزے لیتے رہے مگر زمین پر قدم رکھنے کو تیا رنہیں ہوئے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ حکمرانوں کے پاس جانی و مالی نقصانات کا کوئی ڈیٹا ہی نہیں ہے۔ہم سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ الخدمت ڈیٹا فراہم کرے۔حکمرانوں کی نااہلی کا رونا کس سے روئیں۔ جولائی میں بارشیں شروع ہوگئی تھیں۔ این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے پہلے سوئے رہے اور تباہی کے بعد متاثرین کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔عالمی اداروں کی رپورٹوں کے بعداین ڈی ایم اے نے اگست میں خیموں کیلئے ٹینڈر جاری کیا۔ہم کہتے ہیں کہ آباد کاری کیلئے وزیراعظم دنیا کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے وسائل کو استعمال کریں۔ شروعات تو کی جائیں۔ متاثرین کی آباد کاری کیلئے پچاس ہزار نوجوانوں پر مشتمل رضا کار فورس بنائی جائے۔ مصیبت کی اس گھڑی میں پولیس نظر نہیں آئی دیگر اداروں کے اہلکار بھی تب نظر آئے جب حکومت نے انہیں طلب کیا۔ حکمران اگر اب بھی مل کر نہ بیٹھے تو یہ قوم کے کس دن کام آئیں گے۔ جو حکومت مریضوں کو ایک پینا ڈول نہ دے سکے اس کے ادارے کس کام کے۔ ہم سیاست سے بالاتر ہوکر متاثرین کی بحالی کیلئے جدوجہد کررہے ہیں اور ہماری جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک آخری متاثرہ شخص اپنے گھر کو نہیں چلا جاتا اور متاثرین کے چہروں پر مسکراہٹ نہیں آجاتی۔ ہم متاثرین کی آواز بنیں گے اوراگر حکومت نے ہماری آواز نہ سنی تو قوم سے رجوع کریں گے۔ متاثرین کی آباد کاری کویقینی بنانا اور معمول کی خوشحال زندگی کی طرف لے کر جانا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔