افغانستان کی چین آف کمانڈ ٹوٹی تو حجاموں کو داڑھی نہ مونڈھنے کے احکامات سے لے کر سڑک پر کھڑے اہلکارکو بندہ روکنے کے لیے کس سے پوچھنا ہے کا معلوم نہیں …… جہاں چین آف کمانڈ ہوتی ہے وہاں بھی توازن بگڑتا رہتا ہے …… چہ جائیکہ کہ ایسی سیاسی ابتری کا عالم ہونا تجربہ کاری اور فتح کانشہ الگ …… سوال یہ نہیں افغانستان کے لیے کون ساسیاسی نظام بہتر ہے سوال یہ ہے کہ ازخود تربیتی مراحل میں توعرصہ دراز درکار ہوگا مختلف النوع بیان آتے رہیں جو مختلف سیاسی تصویر پیش کرتے رہیں گے کوئی واضح افغان پالیسی آسمان سیاست پر طلوع نہ ہوسکے گی …… بے انداز پراپیگنڈہ بیرونی تسلط اور مسلسل بڑی طاقتوں کے استعمال کا قطعہ بن کر یہ خطہئ زمین ایک بار پھربے یارومددگار چھوڑ دی گئی ہے پاکستان کی سیاسی بصیرت ویسے ہی سامنے ہے بنے بنائے ملک کو جس مقام پر لے آیا گیا ہے اس کے لیے تو بڑی کاوش چاہیے……وہ ملک جو ہزار مرتبہ کا اُجڑاہوا ہے وہاں تعلیم، صحت، اکانومی کا مندہ حال ہے اطراف کے ملکوں کی اعلانیہ وغیر اعلانیہ دخل اندازی جاری ہے اتنے متنوع مفادات اور خالی خزانے کے ساتھ ایک روایتی ملک جس کی تاریخ بہت پرانی ہے چلنا چاہتا ہے ایک ایسا ملک جس کی تاریخ، سیاست پر اس کی ثقافت کہیں زیادہ حاوی ہو اور انہی ثقافتی علمداروں کے بچوں کے ہاتھ علاقے کی ڈور آجائے تو نظام کیسے چلے…… بھارت ویسے ہی خوف محسوس کرکے پہلے سے زیادہ سازشیں کرنا شروع کردے گا کیونکہ سازش ہمیشہ کمزور اور ڈراہوا بندہ کرتا ہے اور بھارت ایسے بندوں کا ایک مجموعہ ہے …… پاکستان کی سیاسی بصیرت کا تذکرہ ہوچکا دیگر سرحدی علاقے اپنے اپنے کلچر و مفادات کے امین ہیں۔ یہ فکر کہ جسمانی طاقت نے خباثت کے مکینیکل جن کو شکست دے دی ہے مزید نقصان کا باعث بن سکتی ہے …… مکینیکل جن میں جذبات نہیں ہوتے اور وہ ہمہ وقت اپنی آبیاری ومفادات کے جنگل کی کانٹ چھانٹ میں لگے رہتے ہیں۔
یہ شکست وفتح کے فلسفے بھی اب ہوا ہوئے زمینی فتوحات کا دورتو ویسے ہی ختم ہوچکا فضائی، علاقائی وبحری فتوحات بھی اب دیگر درجات پر ہیں، دنیائے سیاست کے لیے افغانی سیاست ایک نیا تجربہ تو ہے بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ جذبہئ حب الوطنی علاقائی ثقافت اور نوجوانی کی فتح ہوئی ہے، حالانکہ اس تناظر میں صرف خوف …… جیتاہے وہ خوف جو امریکہ کو نڈر لیڈر شپ سے ہے اس سے بھی زیادہ اس سسٹم سے عاری طاقتور ملیشیا سے ہے جس سے وہ خائف ہوکر ملکوں کے ملکوں کو اپنے ساتھ جنگ میں شریک کرتا چلا جاتا ہے۔ امریکی مجبوریاں زبردستی ہماری مجبوریاں بن جاتی ہیں ہمارے ہاں کے ماضی و حال (مستقبل بھی ملالیں) کے لیڈر امریکہ سے پوچھ کر بڑھکیں مارتے ہیں …… بالکل جیسے یوسف رضا گیلانی امریکی اجازت سے میاؤں کرتے تھے کہ ہم امریکہ کو ڈرون برسانے کی اجازت نہیں دیں گے جبکہ سروں پر مسلسل ڈرون برس رہے تھے ……ایسے مضحکہ خیز بیانوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں …… امریکہ آتا ہے اور اسامہ بن لادن کو ہمارے ہاں سے دریافت کرلیتا ہے اس کی ملنے والی ”سپاری“ کاطعنہ مارکر دوسری حکمت عملی کی طرف محو ہوجاتا ہے۔
اب بھی کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ وہ خطے کی سیاست اور اپنے تسلط شدہ علاقے سے بے نیاز ہوگیا ہو ……ہم یہ رونا نہیں روتے کہ انسان کیاکررہا ہے اور کیوں کررہا ہے مذہب، معاشرت اور خوف کی بنیاد پر اس نے کتنی جنگیں لڑیں اور کتنی جیتیں جبکہ اس جیت میں اپنے ہی جیسے انسانوں کی ہار اسے مکمل جیت کارتبہ نہیں دیتی جیت ان جنگوں میں ہوتی ہے جو بیماریوں کے خلاف کی جاتی ہیں جو انسانیت کی بقا کے لیے کی جاتی ہیں جو اناج کے بھڑولے بھرنے اور زمین کے ”روگوں“ کے علاج کے لیے کی جاتی ہیں …… ایسی جنگیں جن میں انسان مارتے ہیں اور انسان ہی مرتے ہیں …… کسی فتح شکست کے باب میں مذکورنہیں ہوسکتیں اپنا ہی جسم توڑ کر کھانے والی بات ہے ……
سوال اپنی جگہ ایستادہ ہے کہ موجود سیاسی صورت حال میں کیا ہوگا؟ تو عرض ہے کہ نہ ملی نغمے ویکسین کی جگہ لے سکتے ہیں اور نہ جذباتی نعرے وقت اگر سکھائے گا تو اپنا خراج لے گا……بنا بنایا سیاسی فارمولہ بھی ”سیزن“ لوگوں کے لیے ہوتا ہے کون کون سی سیاسی قوت درپردہ سیاسی شفقت کا ہاتھ رکھے گی الگ سوال ہے سیاسی پنڈتوں کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت یوں بھی نہیں کہ چلتا ہوا وقت حالات اور تقاضے تصویر میں بارہا رنگ بھریں گے اور نقشے کی لکیریں اپنی رفتار سے سرکتی رہیں گی ……یہ اب کے خودرُوپودوں کا رقص ہے جو خطے کے لیے نئے سامان پیدا کرے گا…… ہزاروں سال سے برصغیر نبردآزما ہے ان کے آپس ہی میں لڑتے رہنے میں مغربی وامریکی ترقی کا راز پنہاں ہے …… مقامات آہ وفغاں چلتے رہیں گے امریکہ کو بھی حدسے زیادہ طاقتور ہونے کی خواہش گزند پہنچاتی رہے گی اور مظلوم بھی اپنی حماقتوں کا مظاہرہ کرتے رہیں گے خالی جذبہ بھی جنگ جیتنے کا استعارہ نہیں اور خالی ہتھیار بھی فتح سے ہمکنار نہیں کرتے ……
اتنے بڑے سیاسی منظر سے پلٹیں تو ہمارے بھی دل کا نقصان گزشتہ دنوں ہوگیا ایک ہی ہفتے میں ایک بہن اور ایک بھائی کا انتقال ہوگیا الفاظ کی طاقت یہاں آکر ختم ہوجاتی ہے صرف میرتقی میر ہی اس کا اظہار یہ ہیں ……
قامت خمیدہ، رنگ شکستہ، بدن نزار
تونے تو میر غم میں عجب حال کرلیا