امریکہ خود کوجمہوریت اور انسانی حقوق کا پاسدار سمجھتااور اِس حوالے سے دنیا کو ہدایات دیتا رہتا ہے لیکن کیا عملی طور پرایسا کرتے ہوئے غیر جانبدار ی کا مظاہرہ کرتا ہے یا صدقِ دل سے ایسا چاہتا ہے؟ اِس سوال کا ہاں میں جواب دینا قطعی طورپرنا ممکن ہے کیا اِس کی وجہ یہ ہے کہ ریاستوں کے تعلقات میں دوستی و دشمنی مستقل نہیں ہوتی بلکہ دوستی ا ور دشمنی مفادات کے تابع ہوتی ہے جی ہاں ایسا ہی ہے جمہوریت اور انسانی حقوق کا درس دینے والوں کاماضی اورحال اِس سوچ کی تائید کرتا ہے بلکہ ماضی کی کئی دہائیاں واضح کرتی ہیں کہ اکثر ممالک سے آمریت کے دوران امریکہ کے تعلقات اچھے اور گرم جوشی پر مبنی رہے صرف آمریت ہی نہیں بادشاہت کا نظام رکھنے والے ممالک سے بھی قریبی تعاون رہا ایشیا سے افریقہ تک مفادات کے حصول کے لیے غیر جمہوری ممالک سے تعلقات پروان چڑھائے گئے وجہ یہ ہے کہ آمریت میں دباؤ ڈالنا اور بات منوانا آسان ہوتا ہے جبکہ جمہوریت میں پارلیمنٹ کی موجودگی کی بنا پر کوئی فردِ واحد اکثریت کو نظر انداز کرتے ہوئے فیصلے ٹھونس نہیں سکتا سربراہ مملکت پارلیمنٹ کے زریعے عوام کو جوابدہ ہوتا ہے اکثریت کو نظرانداز کرنے سے عوام احتجاج اور مظاہرے کرتی ہے اسی لیے امریکیوں کوہمیشہ آمریت اور بادشاہت ہی مرغوب رہی جمہوریت اور انسانی حقوق کی باتیں محض نیک نامی سمیٹنے کی خاطر کی جاتی ہیں۔
کیا اب امریکہ بدل گیا ہے یا بدل رہا ہے افسوس کہ اِِن سوالوں کا جواب بھی ہاں میں نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اب بھی جمہوریت اور انسانی حقوق کے حوالے سے ایسے ممالک کو نشانے پر رکھا جارہا ہے جن سے امریکی مفادات کو خطرہ ہے یا وہ چین یا پھر روس کے طرفدار ہیں صرف اُن پر نکتہ چینی کی جاتی ہے اور پابندیا ں بھی لگائی جاتی ہیں جو ممالک حاشیہ بردار اور اُن سے امریکہ کا مفاد وابستہ ہے وہ جمہوری حقوق کی پامالی کریں یا انسانی حقوق سلب کریں کسی درس دینے والے کی جبیں شکن آلود نہیں ہوتی اسی بنا پرمسائل حل ہونے کی بجائے دنیا میں جھگڑے فروغ پا رہے ہیں نیز کرہ ارض میں جابجا لگنے والے اسلحے کے ڈھیرنسلِ انسانی کی بقا کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکے ہیں روایتی ہتھیار وں کی تباہ کاری تو پھر بھی کم تھی جوہری ہتھیاروں کی تابکاری دنیا کی تمام مخلوق کو پل بھر میں لقمہ اجل بنا سکتی ہے مگر جمہوریت اور انسانی حقوق کا درس دینے والے امریکہ کو اِس کا احساس تک نہیں چین کی عالمی تجارت میں پیشقدمی روکنے کے لیے اتحاد بنانے اور اُنھیں ایٹمی ہتھیاردینے کو بے چین ہے آسٹریلیا جیسے اتحادیوں کو جوہری آبدوزوں سے لیس کرنے کا منصوبہ ہے کیا ایسے اقدامات سے جمہوریت کو فروغ ملے گا اور انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے گاظاہر ہے کسی صورت ایسا ممکن نہیں۔
نفرت اور تشدد کی بڑی وجہ حقوق غصب کرنااور ناانصافی کی سرپرستی ہے مگرجمہوریت اور
انسانی حقوق کا درس دینے والے دہرے معیار سے دنیا کو جہنم بنانے میں مصروف ہیں کشمیر،میانمار،افغانستان،عراق،کشمیر اور فلسطین میں کیا جمہوریت شاد ہے یا مذکور وہ علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات نہیں ہوتے؟۔ہوتے ہیں اور ہر روز ہوتے ہیں روز انسانیت تڑپتی اور سسکتی ہے مگر یہاں ظالم اور جارح یا تو خود ہے یا اُس کے طفیلیے ہیں اسی لیے موجودہ بظاہر انسانی حقوق کی علمبردار نومنتخب امریکی قیادت بھی کسی طفیلی ریاست کی سرزنش کرنے پر آمادہ نہیں بلکہ جن کے پاس مال وزر ہے انھیں اسلحہ خریدنے پر آمادہ کرنے کے لیے کوشاں ہے ہتھیاروں کی بھاری سودے بازی پر خوشدلی سے کئی قسم کی رعایتیں مثلاََرقم وغیرہ بھی عنایت کر دی جاتی ہے یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی جنونی کو خشک لکڑیا ں دے کر ساتھ ہی تیل اور ماچس بھی تھما دی جائے بھلا جنونی کب کسی کے نقصان کی پرواہ کرتا ہیں کشمیر اور فلسطین کو دیکھ لیں کیا انسانی حقوق محفوظ ہیں؟ روز انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں کیا لوگوں کو جمہوری حقوق حاصل ہیں؟ جب تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو پھر امریکی کِسے درس دینے اور راہ ِ راست پر لانے کے لیے کوشاں ہیں چین یا روس تو اُس کی ہدایات پر عمل کرنے سے رہے۔
نریندر مودی ایک ایسا جنونی اور انتہا پسند شخص ہے جس کا اپنا دامن انسانی خون سے داغدار ہے جس نے وزارتِ اعلیٰ کے دور میں گجرات میں منظم انداز میں مسلم کشی کے دوران ہزاروں مسلمان مروادیے لیکن فسادات پر ندامت یا مذمت کے حوالے سے اُس کی زبان پر کبھی کوئی لفظ نہیں آیا کشمیر میں روزانہ قابض فوج لاشیں گرا رہی ہے مگر مودی نے کبھی شرمندگی ظاہر نہیں کی بھارت کے دارالحکومت دہلی میں آر ایس ایس کے قاتل مسلمانوں پر حملے کرتے اوراُنھیں گاجر مولی کی طرح کاٹ پھینکتے ہیں مگر یہ جنونی اور انتہا پسندشخص شرمسار نہیں ہوتا اب آسام میں نہ صرف مسلمانوں سے شہریت چھین کر انھیں شہری حقوق سے محروم کرتے ہوئے قید کیا جارہا ہے اورمسلم آبادیوں پر قانون نافذ کرنے والے اِدارے حملے کرنے اور گرانے میں مصروف ہیں بات یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ آہ و بقا کرنے یا منع کرنے کی جسارت کرنے والوں کو بلاخوف و خطر قتل کیا جارہا ہے اِس ملک میں انتہاپسندی اتنی سرایت کر گئی ہے کہ صحافی بھی مسلم نعشوں کی بے حرمتی کرنے پر فخر کرتے ہیں فسطائیت کادلداہ اور انسانی حقوق کوپاؤں کی ٹھوکرپر رکھنے والا نریندر مودی جیسا ابلیس صفت اور شقی القلب شخص دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار ملک کا وزیرِ اعظم ہے اور جمہوریت و انسانی حقوق کادنیاکو درس دینے والا ملک اُس کی آؤ بھگت کرتاہے جس کی وجہ مفادات کے سوا کچھ نہیں اگر مفادات نہ ہوتے تواب تک بھارت کئی قسم کی عالمی پابندیوں کی زد میں ہوتا۔
صدرجوبائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس کے بارے عام تاثریہ ہے کہ وہ ٹرمپ کی طرح نہیں اِس لیے انسانی حقوق کی پاسداری پر سمجھوتہ نہیں کریں گے چین،روس اور مسلم ممالک کے بارے میں اُن کا رویہ ایسا ہی ہے لیکن کشمیر اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے بارے میں وہ بھی پُرجوش دکھائی نہیں دیتے جوبائیڈن اور کملا ہیرس نے ملاقاتوں کے دوران مہمان جنونی وزیرِ اعظم کو دفاعی حوالے سے مضبوط بنانے کا عزم تو ظاہر کیا لیکن اقلیتوں کو جمہوری حقوق دینے کی بات نہیں کی نہ ہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنے کی تلقین کی ہے پُرجوش خیر مقدم کرتے ہوئے انھیں واشنگٹن اور نیو یارک میں ہونے والے مظاہر ے بھی یاد نہیں رہے کیا مسلمانوں کے کوئی حقوق نہیں جو اسرائیل کو اسلحہ خریداری کے لیے اربوں ڈالرکی دفاعی امداد سے نواز جارہا ہے کیا بھارت کومیزائل کلب کا ممبر بنانے اور جوہری مواد تک رسائی دیکر خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنا چاہتے ہیں اِس کا جواب ہاں کے سوا کچھ ہوہی نہیں سکتا اگر کشمیر اور فلسطین میں جاری خون کی ہولی پیشِ نظر ہوتی تو ملاقاتوں کے دوران کچھ تو تذبذب کا تاثر ملتا اور گرمجوشی کی بجائے بے زاری کا عکس نظر آتاسچ یہی ہے کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کی باتیں بظاہر دکھاواہیں اور جب مسلمانوں کی بات ہو تو یہ دکھاوا بھی بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔