کشف المحجوب

10:43 AM, 29 Sep, 2021

”کشف المحجوب“ تصوف کے موضوع پر قریب قریب ایک ہزار سال قدیم دستاویز ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ دین کے حوالے سے بات جتنی پرانی ہوگی صداقت سے اتنی ہی قریب تر ہو گی۔ سو درجہئ اِستناد تک پہنچتی ہوئی تصوف کے حوالے سے کوئی بات تلاش کرنی ہو تو ہمیں ”کشف المحجوب“ سے استفادہ کرنا ہوگا۔ ایک بنیادی فکری مغالطہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے‘ جب ہم کسی موضوع پر اُس موضوع سے غیرمتعلق لوگوں کے نظریات بطور حوالہ استعمال کرتے ہیں۔ تصوف کے حوالے سے بنیادی معلومات  مستشرقین سے نہیں ملیں گی۔ میرے پاس مریض آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب سنا ہے فلاں اینٹی بائیوٹک کے بہت سائیڈ ایفیکٹ ہوتے ہیں، میں اُن سے پوچھتا ہوں یہ بات آپ کو کسی ڈاکٹر نے بتائی ہے؟ وہ کہتے ہیں ”نہیں“ یہ بات ہم نے فلاں اور فلاں کی زبانی سنی ہے۔ جس شعبے کی بات زیرِ غور ہو‘ اگر اس شعبے کے لوگ گواہی نہ دیں تو اس بات کو افواہ کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ قانون کا شعبہ ہو تو ہمیں کسی ایڈووکیٹ کی بات پر اعتبار کرنا چاہیے، سڑکوں اور پلوں کی بابت کوئی بات دریافت کرنی ہو تو ہمیں کسی انجینئر سے رابطہ درکار ہوتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ تصوف جو روحِ دین ہے‘ اِس کی بابت ہم مستشرقین، منکرین اور ملحدین کی سنی سنائی باتوں پر اعتماد کرلیں۔  
’کشف المحجوب‘ حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کی وہ تصنیف ہے‘ جو زمانے کی دستبرد کا شکار ہونے سے بچ گئی۔ اِس کا اصل مسودہ آج بھی ماسکو کے میوزیم میں محفوظ ہے۔ماسکو سے چلنے والے قابضین بخارا اور سمرقند کے نوادرات پر بھی قابض ہو گئے۔ حضرت علی ہجویری‘ اکتوبر 1009ء میں آج کے افغانستان کے علاقے غزنین میں پیدا ہوئے، علم و فضل میں یکتا یہ نادرِ روزگار شخصیت تبلیغِ اسلام کی غرض سے اپنے مرشد حضرت ابوالحسن ختلی ؒ کے حکم پر 1039ء میں لاہور تشریف لائے۔ اس وقت لاہور اگرچہ سلطان محمود غزنوی کے ہندوستان پر پے در پے حملوں کے تحت مفتوح حالت میں فاتح کے قدموں میں گر چکا تھا لیکن یہاں کے باشندے اپنے فاتحین سے کبیدہ خاطرتھے۔ اِن کے دلوں کو فتح کرنا ابھی باقی تھا۔ یہ کام ظاہر ہے‘ اہلِ ظاہر کے بس میں نہیں تھا، چنانچہ اقلیمِ باطن سے باطن کی دنیا کا ایک شہسوار با پیادہ آیا…… اور دیکھتے ہی دیکھتے اہلِ لاہور کے دلوں کو یوں مسخر کیا کہ اہلِ ہنداِس کی جود و سخا دیکھ کر اسے دان کرنے والے ”داتا“ کے نام سے یاد کرنے لگے۔ آپ کے ایک مریدِ باصفا حضرت ابو سعید ہجویریؒ آپ کے ہمراہ تھے، اُن کے ایک سوال کے جواب میں آپؒ نے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ کتاب کے آغاز میں آپؒ نے اس مریدِ باصفا کا تہہ در تہہ سوال بھی تحریر کیا اور یہ کتاب تحریر کرنے کا مقصد بھی بتایا۔ آپؒکا فرمان ہے کہ ”میں نے یہ کتاب اس لیے تحریر کی ہے کہ یہ اُن دلوں کو صیقل کرے‘جو تاریکی کے پردے میں گرفتار ہیں لیکن نورِ حق کا سرمایہ اُن کے دلوں میں موجود ہے، تاکہ اس کتاب کو پڑھنے کی برکت سے تاریکی کا وہ حجاب اُن کے دلوں سے اْٹھ جائے اور وہ حقیقت ِ معنی کی طرف راہ پائیں“ 
 صاحبو! پینتیس برس ہونے کو آئے ہیں، کشف المحجوب کا ایک عامی قاری ہوں، اگر کوئی پوچھے‘ کیا تم نے کشف المحجوب پڑھ لی ہے،تو میں اسے یہی بتا سکوں گاکہ ابھی پڑھ رہا ہوں۔یہ  
13 جنوری 1985ء کی سردیوں کی ایک صبح تھی‘ جب مجھے حضرت واصف علی واصفؒ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ آپؒ نے اپنی کتاب”کرن کرن سورج“ تحفے میں دی اور ساتھ ہی ساتھ کشف المحجوب پڑھنے کی تلقین کی۔ مابدولت ان دنوں فلسفے کی خارزار وادیوں سے گزر کر اپنا دامنِ خیال تار تار کر چکے تھے۔اس دن سے کشف المحجوب ایسی شروع ہوئی کہ ابھی تک ختم ہونے میں نہیں آئی۔ بس…… یہ کتاب ہے، ایک عالمِ تحیرہے، اور ہم ہیں دوستو!
سچ پوچھیں تو کشف المحجوب کا ہر جملہ محبوب کی ایسی نشیلی آنکھ کی مانند ہے کہ اس میں بے محابہ ڈوب جانے کو دل چاہتا ہے۔ یہ معنی دَر معنی کی ایسی وادیئ ہوشربا ہے کہ اِس سے باہر نکلنے کو دل نہیں چاہتا۔یوں ہوا کہ یہ کتاب پڑھنا شروع کی اور ایک جملے کے دوران ہی فہم کی استعداد اور ہمت جواب دے گئی…… صحو سے سکر تک شعور کا سفر ایک جست میں تمام ہوا اور ایک فقرے پریہ فقیر گھنٹوں صامت و ساکت رہا۔ 
مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کی کم و بیش ہر محفل میں کشف المحجوب سے کوئی واقعہ بطور حوالہ ضرور موجود ہوتا۔مقام ِ حیرت ہے کہ آپؒ ایک ہی واقعے سے مختلف جہات کے کتنے ہی اسباق باآسانی اخذ کر لیا کرتے۔ یہ کتاب فی الواقع ایک کتابِ حیرت ہے۔ مرشد نے معرفت کو ہمہ حال تحیر سے تعبیر کیا ہے۔ آپؒ اکثر اوقات یہ جملہ دہراتے‘ کوئی اس کتاب کا آسان زبان میں ترجمہ کردے تو بہت سے لوگوں کا بھلا ہو جائے۔ صاحبو!  میں نے جانا کہ یہ جملہ میرے لیے تھا، چنانچہ گزشتہ کچھ عرصے سے چند احباب کی مددسے اِس نایاب دستاویز کا آسان فہم ترجمہ کرنے کی سعیئ مسلسل میں ہوں۔ یہ راز قبل اَز وقت اس لیے طشت اَز بام کر رہا ہوں کہ یار لوگ مجھ سے پوچھتے رہیں اور ان کا پوچھنا میرے لیے محرک و مہمیز ہو۔میرے اخلاص میں ابھی اتنا دم نہیں کہ مدح اور ذم کے محرکات سے آزاد ہو سکوں، اپنے وجود کے جمود سے بغیر کسی بیرونی تحریک کے باہر نکل سکوں۔ اِس ترجمے کی تحریک یوں بھی ہوئی کہ فی زمانہ تصوف کے اصل چہرے پر کئی پردے ڈال دیے گئے ہیں، کچھ اپنوں کی کرم فرمائیاں اور کچھ غیروں کی مہربانیاں کہ تصوف کو دین کے متوازی ایک دین بنا دیا گیا۔ ہم دوستی اور دشمنی دونوں انتہاؤں کی خبر لانے والی قوم ہیں۔ دائیں بازو کی انتہا میں بسنے والے اسے ایک عجمی پودا تصور کرتے ہیں، وہ ظاہر پر اکتفا کیے بیٹھے ہیں، وہ نماز پڑھتے ہیں‘ قائم نہیں کرتے، اُن کا روزہ سحر اور افطار کی گھڑیوں سے آگے نہیں بڑھتا، وہ کسی حکم کی غایت اور منشا تک پہنچنے کی جستجو کو تصرف فی الدین تصور کرتے ہیں۔ دوسری طرف بائیں بازو کی انتہا میں لبرل لوگ ہیں‘جو تصوف کے کسی ایسے آسان ایڈیشن کے انتظار میں ہیں جوشریعت کی قید سے ”آزاد“ ہو۔ غرض انہیں اپنی ذہنی عیاشی کے لیے تصوف نامی کسی جزیرے کی تلاش ہے۔ ایسے عالم میں تصوف کے اصل جوہر کو سامنے لانا اشد ضروری ہے۔ خوش قسمتی سے یہ کام آج سے ہزار برس پہلے ہوا پڑا ہے۔ فارسی زبان اور اُس کے بوجھل تراجم راہِ تفہیم میں حائل ہیں۔ میرے پاس اُردو اَدب سے شغف رکھنے والے نوجوان آتے ہیں، پوچھتے ہیں‘ کشف المحجوب کا مطالعہ مطلوب ہے‘ کون سا ترجمہ پڑھنا چاہیے؟ میں نے ہر ترجمہ تجویز کر کے دیکھ لیا ہے، نتیجہ خاطر خواہ برآمد نہیں ہوا۔ نوجوان کچھ صفحات کے بعد ہی دل چسپی قائم نہیں رکھ پاتے۔ کچھ تراجم اتنے ثقیل ہیں کہ عام عوام کی فہم سے باہر، اور کچھ اتنے سادہ کہ اصل عبارت کا مفہوم ہی ماند پڑ جاتاہے۔خانہ سماعت میں مرشد کی بات بھی گونج رہی تھی اور حالات و واقعات بھی اِس اَمر کا تقاضا کر رہے تھے کہ بیڑا اُٹھانے کا وقت آن پہنچا ہے۔ بہت جلد حقیقت منکشف ہو گئی کہ یہ استعداد اور استحقاق سے کہیں آگے کا واقعہ ہے، یہاں توفیقِ الٰہی کے سوا کوئی اَمر معاون نہ ہو گا۔ بس! ایک دشت ِ فکر کی پہنائی ہے اور ہم ہیں دوستو!! 
کشف المحجوب میں ایک جملہ درج ہے‘ مفہوم اِس کا یوں ہے کہ نبی اپنی اُمت سے باطنی جہت سے مخاطب ہوتا ہے، صاحبو! بارگاہِ نبوت ورسالتؐ کے فرستادہ اَولیاء بھی باطنی جہت سے کلام کرتے ہیں اور اُن کی تصانیف بھی اپنے قاری کے باطن سے مخاطب ہوتی ہیں۔ ظاہر کی حد مقرر کی جا سکتی ہے‘ باطن کی کوئی حد نہیں کہ ہر باطن درحقیقت باطن دَر باطن ہوتا ہے۔ ظاہر و باطن کے سنگم پر اِس کا آغاز تو موجود ہے‘ لیکن اِس کی انتہا کہیں نہیں۔ باطن ایک ایسا واقعہ ہے کہ جب ایک بار وقوع پذیر ہو جائے‘ تو یہ مسلسل ہوتا رہتا ہے…… یہ بے حد واقعہ اَن حد تک پہنچائے بغیر دم نہیں توڑتا۔ ظاہر میں اُس کی صفات ملتی ہیں …… باطن میں وہ خود ملتا ہے۔ الغرض کشف المحجوب کی باطنی واردات کبھی کم نہیں پڑتی۔ یہ ہرلمحہ نئی آن اور نئی شان کے ساتھ اپنے قاری کے شعور کے ساتھ ہم کلام ہوتی ہے۔اخلاص اور تسلیم شرط ہے۔ کشف المحجوب کا ہر جملہ اپنے موضوع پر ایک مکمل مقالہ ہے۔ اگر فارسی ٹیکسٹ سامنے رکھ کر پڑھا جائے تو معلوم ہوگا کہ تحریرحسن ِ بلاغت سے کس قدر مالا مال ہے۔ 
معلوم ہوا کہ ترجمہ مترجمین کے لیے نہیں ہونا چاہیے‘ بلکہ عام قارئین تک بات پہنچانے کے لیے ہونا چاہیے۔ بسا اوقات ہم اپنے ہنر کی داد پانے کی کوشش میں اپنے ہدف سے دور ہو جاتے ہیں۔ مضمون اور صاحبِ مضمون سے وابستگی اچھے ترجمے کی کلید ہے۔ بات سمجھ کر سمجھانے کا قرینہ ترجمہ کہلاتا ہے۔ ترجمہ کرنا لغت کا کام نہیں، لغت متبادل الفاظ مہیا کرنے کے علاوہ کچھ کام نہیں کرتی۔ بہترین متبادل کا انتخاب ہی مترجم کا امتحان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی لفظ کسی اور لفظ کا مترادف نہیں ہوتا……انسانی چہرے کی طرح ہر لفظ اپنی جگہ بے مثال اور بے بدل ہے۔ ترجمہ اتنا آسان اور بامحاورہ ہونا چاہیے کہ ایک عام اور اوسط درجے کا قاری اصطلاحات میں اُلجھے بغیر اسے بلاتکان روانی سے پڑھتا چلا جائے۔ مترجم کو مصنف اور قاری کے درمیان حائل نہیں ہونا چاہیے۔ ترجمہ اگر اصل تحریر کی چاشنی کا مزہ نہ دے‘ تو سمجھ لیں کہ ترجمے کا حق ادا نہیں ہوا۔ ترجمہ دراصل ایک ترجمانی ہے۔ ہر جملے کو ایک مکمل مضمون سمجھ کر اِس کی ترجمانی نہ کی جائے توسمجھ لیں‘ ترجمہ مکمل نہیں ہوا۔ ہم اس قابل کہاں کہ ُان کی ترجمانی کریں، ہاں! وہ قبول کر لیں تو اور بات ہے۔
گر قبول افتد‘ زہے عز شرف!
تصوف اور شریعت میں کیا ربط اور رابطہ ہے، ظاہراپنے سے باطن سے کیسے متعلق ہے، تزکیہ نفس اور اخلاص کا حصول کیسے ممکن ہے، معرفت باری تعالیٰ کی حقیقت کیا ہے، روح کی حقیقت اور ماہیت کیا ہے، قدیم حادث سے کیونکر ممیز ہے، توحید کی تعریف کیا ہے، تصوف میں رائج کون سا فکرصائب ہے اور کون سا غیرصائب، تصوف کی مختلف اصطلاحات کی تعبیر اور تطبیق کیا ہے، نماز‘روزہ‘ حج اور زکوٰۃ کی حقیقی روح کیا ہے…… اِن سب کی حقیقت کشف المجحوب میں یوں بیان کر دی گئی کہ ایک طالب حق کی نظر میں محجوب مکشوف ہوا جاتا ہے۔ 

مزیدخبریں