مارشل لا لگانے کی تہمت سے بچنے کے لئے نہایت سوچ و بچار اور طویل منصوبہ بندی کے بعد ہائبرڈ نظام کا جو ماڈل نافذ کیا گیا وہ مکمل طور پر زمین بوس ہوچکا۔ خود اس کے خالق بھی اب یہ کہنے سے نہیں ہچکچاتے کہ حالات و واقعات کا دھارا ملکی انتظام انصرام چلانے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بنتا جارہا ہے۔ جنرل ایوب سے لے کر جنرل مشرف تک کے ہر مارشل لا نے نہ صرف آئین و قانون کو روندا بلکہ معاشرے میں بے شمار خرابیاں پیدا کیں۔ تمام تر نقصانات کے باوجود کام اس لئے چل جاتا تھا کہ مارشل لا حکومتوں کے آنے کے بعد امریکا، یورپ اور مالدار عرب ممالک بہت فراخدلی سے مالی امداد دینا شروع کردیتے تھے۔ ہائبرڈ سسٹم کے تجربے میں یوں تو کئی خرابیاں سامنے آئیں مگر بنیادی وجہ یہی رہی ہے کہ بیرونی مالی امداد میسر نہ آسکی اور اندرون ملک ایسی ٹیم ہی نہیں بن پائی جو روز مرہ کے امور چلا سکے۔ یوں پورا“ ایک پیج“ صرف تین سال میں ہی بدترین مشکلات سے دوچار ہوگیا۔ اقتدار سے جنرل مشرف کی شرمناک بے دخلی کے بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی کی قیادت میں پاک فوج کی قیادت اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ آئندہ مارشل لا لگانا ممکن نہیں ہوگا۔ کیانی ڈاکٹرائن کی باقاعدہ تشہیر کرکے یہ سوچ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ ”خطرہ بیرونی نہیں اندرونی ہے“۔ انہی دنوں آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا نے اپنے پیش رو افسروں کی جانب سے 1990 کی دھائی میں شروع کئے جانے والے تبدیلی پراجیکٹ پر نئے سرے سے کام شروع کیا تو ناکامی کا آپشن دور دور تک نہیں دیکھ رہے تھے۔ 2018 کے عام انتخابات کا بنیادی ہدف یہی تھا پرانی تمام سیاسی قیادت اور جماعتوں کو بزور طاقت، عدالتوں، نیب اور میڈیا کے ذریعے پوری طرح سے رگڑا لگانے کے بعد پارلیمنٹ بلکہ سیاست سے باہر کردیا جائے۔ اس مشن کی تکمیل کرتے ہوئے جماعت اسلامی جیسی ”بے ضرر“ پارٹی کو بھی نہیں بخشا گیا۔انہی سطور میں پہلے بھی عرض کیا گیا ہے کہ پرانے سیاسی نظام کو ٹھکانے لگانے کے اس مشن میں پیپلز پارٹی بھی منصوبہ سازوں کا ہتھیار بنی ہوئی تھی۔ مگر اوپر کہیں یہ پہلے ہی طے کیا جاچکا تھا کہ جیسے ہی ہائبرڈ نظام ملکی معاملات کو معمول پر لاکر چلانے کے قابل ہو جائے گا، پیپلز پارٹی کی بھی چھٹی کرا دی جائے گی۔آنے والے کل کو مگر کون دیکھ سکتا ہے؟ مارشل لا کو روکنے کے لئے جو ہائبرڈ نظام لایا گیا تھا اس نے بہت مختصر وقت میں ملک اور عوام کو اتنے شدید جھٹکے دئیے کہ اب اس بحران سے نکلنے کے لئے مارشل لا لگانا بھی ممکن نہیں۔ ایک بدترین دشمن کی خواہش یہی ہوسکتی تھی کہ ملک میں کوئی ادارہ غیر متنازع نہ رہے۔ ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں یہ ٹاسک اسی حکومت کے ہاتھوں پورا ہوگیا۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کے لئے جو نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا اس میں یہ حکومت کی طرف سے یہ شرط رکھ دی گئی ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم 20 نومبر کو اپنے نئے عہدے کا چارج سنبھالیں گے اور تب تک لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ہی آئی ایس آئی کو چلائیں گے۔ یہ مسئلہ بظاہر تو حل ہوچکا مگر ملٹری کمانڈ کی اتھارٹی کے بارے میں بعض ایسے سوالات کھڑے کرگیا جو یقیناً مسلح افواج کے اندرونی حلقوں کے نزدیک بھی واضح جواب کے متقاضی ہوں گے۔ ہائبرڈ نظام بڑے چاؤ سے لایا گیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان کے اختیارات کے بارے میں بات کرنے کی اس لئے ضرورت نہیں کہ ہر کام آب پارہ اور راولپنڈی نے اپنے ذمہ لے رکھا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان کو صرف وزیر اعظم کا پروٹوکول لینا تھا اور ”انٹرنیشنل صوفی ازم“ کو فروغ دینا تھا۔ اس کے لئے انہیں موافق ماحول اور لوازمات بھی فراہم کئے گئے۔ وزیر اعظم کے منصب والے تمام امور ہی نہیں بلکہ ملکی و عالمی سطح پر ان کی شخصیت کو ایک عظیم اور مدبر لیڈر بنا کر پیش کرنے کی ڈیوٹی بھی
مہربانوں نے خود ہی سنبھال رکھی تھی۔ ملک میں سے جس کسی نے بھی اس حوالے سے اختلاف کرنے کی کوشش کی اسے بھاری قیمت چکانا پڑی، اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ لوگوں کو پی ٹی آئی کے نام پر کئے جانے والے اس تجربے کی کامیابی کا اس حد تک یقین تھا کہ اپنے رشتہ داروں کو عمران خان کے لئے کمک بنا کر سیاست میں بجھوا دیا۔اہم ترین مقتدر شخصیات منتخب صحافیوں سمیت مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقاتوں میں خود یہ بتاتی تھیں کہ کب اور کہاں کونسا عالمی لیڈر عمران خان کے سامنے مؤدب شاگرد کی طرح بیٹھا ہوا تھا۔ عمران خان کو امانت، دیانت، شجاعت اور صداقت کا دیوتا ثابت کرنا ہائبرڈ نظام کی لازمی ضرورت تھی۔ کیونکہ ایک ایسی غیر معمولی شخصیت کو آگے رکھ کر ”جمہوری“ حکومت کے دس سال نکالے جاسکتے تھے۔ ایک پیج نے اس حوالے سے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی مگر متنازع ترین الیکشن کے بعد شروع ہونے والا بگاڑ اتنا پھیلا کہ آج سب کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ چند روز پہلے تک اس کا اندازہ خود وزرا تک کو نہیں تھا۔ پوری اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کو لازم و ملزوم سمجھ لیا گیا تھا۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی سمری پر الجھنیں پیدا ہوئیں تو سیاسی وفاداریاں بدلنے کے حوالے سے بدنام ایک وزیر ایک مقتدر شخصیت کے حوالے سے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کئے جانے کے دعوے کرتا رہا۔ ہوسکتا ہے ایسا کچھ ہوا بھی ہو لیکن مقصد ہرگز یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے ادارے کی نمائندگی کرتے ہوئے ایسا کہہ رہا ہو۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ عہدیدار یہ چاہتا تھا کہ کسی روحانی حوالے سے وزیر اعظم کی ضد کا معاملہ سب کے سامنے نہ آئے اور بات بند کمرے میں ہی طے پا جائے۔ ادارے میں اس حوالے اس حد تک منفی تاثر جاچکا ہے کہ اب پہلے جیسا ایک پیج برقرار رکھنا خود اسٹیلشمنٹ کی قیادت کے لئے مسائل پیدا کرسکتا ہے۔یہ بات بھی درست ہے کہ ملک اور خود اپنے ساتھ اتنا کچھ ہوجانے کے باوجود مقتدر حلقے پہلے کی طرح اپوزیشن جماعتوں کے خلاف نہیں تو ان سے خائف ضرور ہیں۔ ایک طرف بات چیت اور پیغام رسائی کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بعض اپوزیشن رہنماؤں کے تیور درست نہیں۔ شہباز شریف اور ان جیسے کرداروں کو سراہا جارہا ہے۔ حالانکہ یہ بات اب راز نہیں رہی کہ شہباز شریف جو کچھ بھی کہتے اور کرتے ہیں اسے بڑے بھائی کی مکمل تائید حاصل ہوتی ہے۔عوامی اور پارٹی سطح پر اس کا اقرار نہ کرنا ایک سوچی سمجھی پالیسی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ پی ڈی ایم میں مسلم لیگ ن اپنی الگ منصوبہ بندی کے تحت چل رہی ہے ورنہ جے یو آئی سمیت دیگر رکن جماعتیں تو کب سے ایک ہی جھٹکے میں فیصلہ کن اقدام کے لئے تلی بیٹھی ہیں۔ احتجاج تو کالعدم ٹی ایل پی بھی کررہی ہے۔ حیرانی ہے کہ وہ پہلے کئی بار یہ معاہدہ کرکے اپنی تحریک ملتوی کیوں کرتی رہی کہ فرانسیسی سفیر کا معاملہ پارلیمنٹ میں جائے گا۔ لبیک والے کتنے ہی سادہ کیوں نہ ہوں بچے بچے کو علم ہے کہ اس معاملے سے پارلیمنٹ کا سرے سے کوئی تعلق نہیں۔ اب تو ویسے بھی حکومت نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کردیا ہے۔ جب وزرا سے پوچھا جائے کہ آپ نے یہ معاہدہ کیا سوچ کر کیا تھا تو آئیں، بائیں، شائیں کے سوا کوئی جواب نہیں ملتا۔ ٹی ایل پی کا قیام اور پرورش پرانے سیاسی کھلاڑیوں کے ووٹ کاٹنے کے لئے ہی نہیں بلکہ انہیں جسمانی حوالے سے بھی خطرے میں ڈال کر ان پر زمین تنگ کرنے کے لئے کی گئی۔ آج عالم یہ ہے کہ اسی تنظیم نے لاہور سے مارچ شروع کیا تو روکنے کی تمام حکومتی کوششیں دھری رہ گئیں۔ پولیس اور رینجرز جھڑپوں کے بعد یوں سرنڈر کرگئے جسے افغانستان میں اشرف غنی کے فرار کے بعد سرکاری فوج نے بغیر لڑے طالبان نے سامنے ہتھیار ڈال دئیے تھے۔ان سطور کے تحریر کئے جانے تک پرتشدد واقعات کے باوجود ٹی ایل پی کا مارچ اسلام آباد کی جانب بڑھ رہا ہوگا۔صورتحال کو کنٹرول کرنے کی ایک اور کوشش کرتے ہوئے پنجاب کو دو ماہ کے لئے رینجرز کے حوالے کردیا گیا۔ اس کے باوجود صاف نظر آرہا ہے کہ ریاست کی رٹ کا جنازہ نکل چکا۔موجودہ تحریک اسی طرح جاری رہی تو دنوں میں سب کچھ آؤٹ آف کنٹرول ہوجائے گا۔ ملک کے حالات اس حد تک خراب ہوچکے ہیں کہ اب کسی کو یہ بھی پتہ نہیں کہ آگے چل کر ہائبرڈ نظام کی جگہ کونسا سسٹم آئے گا۔ یہ اٹل حقیت ہے کہ مؤثر اور سب کے یکساں احتساب کے بغیر آئینی نظام بھی لاگو نہیں ہوسکتا۔ہمارے ہاں ججوں اور جرنیلوں کے احتساب کا سرے سے کوئی تصور ہی موجود نہیں۔ ان دونوں طبقات میں بھی ایک فرق ہے۔ جنرل ایوب 1965 کی جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند سے شروع ہونے والے عوامی احتجاج کے باعث پوری طرح زچ ہوکر رخصت ہوئے، جنرل یحییٰ مرتے وقت تک خوفزدہ رہے، جنرل ضیا طیارہ پھٹنے سے پہلے ہی بہت حد تک گھیرے میں آچکے تھے اور گھبرائے ہوئے تھے۔ جنرل مشرف کا حال سب کے سامنے ہے۔ دوسری جانب ان کے ساتھی جج حضرات کا معاملہ باکل مختلف ہے۔ جسٹس منیر سے جسٹس کھوسہ تک کسی حد تک سائیڈ لائن تو ہو جاتے ہیں مگر حاضر سروس ججوں اور وکلا رہنماؤں سے رابطے رکھ کر“ معزز“ بنے رہتے ہیں۔ جسٹس (ر) اعجاز افضل، ثاقب نثار ٹولے کے سرگرم رکن تھے۔ پچھلے دنوں اراضی کے معاملے ان کی کیپٹن (ر) صفدر کے ایم این اے بھائی سے مقدمے بازی ہوئی تو عدلیہ میں میرٹ کا مطالبہ کرنے والی وکلا تنظیمیں بھی سابق جج کے حمایت میں بیانات داغنے لگیں۔ پاکستان میں یہ تماشا مزید نہیں چل سکتا۔ اللہ نہ کرے کہ انصاف کے معاملے میں ہمارے منافقانہ طرزعمل کے سبب ہمیں کسی اور سنگین سانحے کا سامنا کرنا پڑے۔