اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ میں لاپتہ افراد کیس میں جسٹس محسن اختر کیانی نے نگران وزیر داخلہ کو کہا کہ اگر ایک ہفتے میں یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو آپ کواور نگران وزیر اعظم کو گھر جانا پڑے گا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ طلباء کی بازیابی کے لیے قائم کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالتی طلبی پر نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی عدالت میں پیش ہو ئے جبکہ نگران وزیر اعظم عدالت پیش نہ ہوئے اور وزرات داخلہ نے لاپتہ افراد کے معاملے پر ایڈیشنل سیکرٹری کو فوکل پرسن مقرر کردیا۔
عدالت نے درخواست گزار کو تمام لاپتہ افراد کی تفصیلات فوکل پرسن کو فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے کہا کہ وزارت داخلہ کے فوکل پرسن لاپتہ افراد کے حوالے سے کیس ٹو کیس تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کریں گے۔
دوران سماعت جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ اس ملک میں امن کیلئے ہمارے اداروں کی بہت قربانیاں ہیں۔پاک فوج یا دیگر شہداء نے جو قربانیاں دیں انہی کی وجہ سے ہم چل رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں ایک دوسرا اینگل انسانی حقوق کا ہے ، وہ بھی دیکھنا ہے۔ شہدا کی قربانیاں موجود ہیں ان میں کوئی شک نہیں لیکن دوسرا پہلوؤں نہیں چھوڑا جا سکتا شہریوں کے حقوق ہیں۔
جسٹس محسن نے وزیر داخلہ سے استفسار کیا کہ جو لوگ اداروں کے پاس ہیں انکو عدالتوں میں پیش کیوں نہیں کیا گیا؟ سب کچھ موجود ہونے کے باوجود بھی اگر گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے تو یہ ریاست کی ناکامی نہیں؟
سماعت کے دوران وزیر داخلہ نے کہا کہ میں عدالت کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ ہم کیس ٹو کیس دیکھیں گے اور حل کرینگے۔
جسٹس محسن اختر نے وزیر داخلہ سے مکالمہ کرتے ہوئے ان پر واضح کر دیا کہ اگر یہ معاملہ ایک ہفتے میں حل نہ ہوا تو آپ کو اور نگران وزیر اعظم کو گھر جانا پڑۓ گا۔
عدالت نے تمام لاپتہ افراد کی فیملیز کی تفصیلات بھی حکومتی کمیٹی کو فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔
واضح رہے کہ 2022 میں بھی لاپتہ افراد کی بازیابی کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزیر اعظم شہباز شریف کو طلب کیا تھا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر آئین کی منشا کے مطابق عمل نہیں ہوتا تو سب کو گھر جانا چاہیے۔