قرآن کریم زندہ اور قائم رہنے والا معجزہ ہے۔ نئے آرمی چیف جناب جنرل عاصم منیر نے 38 سال کی عمر میں قرآن حفظ کیا۔ عموماً حفاظ قرآن کریم بچپن سے شروع کرتے ہیں اور لڑکپن تک حافظ ہو جاتے ہیں۔ مگر 38 سال کی عمر سرکاری امور کی انجام دہی اور دیگر مصروفیات کے ساتھ قرآن حفظ کرنا یقینا عشق کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا نئے آرمی چیف حافظ قرآن سے پہلے عاشق قرآن ہونگے جو یہ سعادت نصیب ہوئی۔ میرے مہربان دوست جناب زاہد رفیق آہوں اور سسکیوں سے روئے جس روز منصوبہ بندی سے پی ٹی آئی کے لوگوں نے عمران کی خوشنودی کے لیے مسجد نبویؐ میں نعرے بازی کر کے مسجد کی بے حرمتی کی جہاں صبح شام فرشتے 50/50 ہزار اترتے ہیں، درود پاک بھیجتے ہیں اور قیامت تک ان میں سے کسی فرشتے کی دوبارہ باری نہیں آئے گی۔ وہاں ادب کا مقام ہے آوازیں نیچی رکھنے کا حکم ہے مگر جو شخص استلام کرنے والوں کو حجر اسود کی طرف ہاتھ اٹھانے والوں کو سمجھے کہ دوران طواف اس کو سلام کر رہے ہیں اور ان کو جواب دے اس سے عمران نیازی کی خود پسندی اور تکبر کا اندازہ لگا لیجئے۔ میرے دوست کہتے ہیں کہ اس دن اس کا زوال شروع ہو گیا تھا جس دن آقا کریمؐ کے مسکن پر بے ہودگی کی گئی۔ نہیں معلوم کہ نئے آرمی چیف کا دور کیسا رہے گا۔ اللہ کریم ان کو کامیاب کرے اور وطن عزیز کے لیے با برکت ثابت ہوں۔ ایک مذہبی اور متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب آنے والے دنوں میں ان شاء اللہ وطن عزیز کے چیف جسٹس جناب فائز عیسیٰ ہوں گے گویا اداروں سے انصاف ارزاں ہو گا۔ اب آتے ہیں عمران نیازی کے جلسے کی طرف وطن عزیز کیا دنیا کی تاریخ میں اس ویلنٹائن لیڈر کی مثال نہیں ملتی جس کی بدولت بے شرمی، بے حیائی، الزام تراشی، گالی اور کردار کشی رواج پکڑ گئی۔ جلسہ میں 25/30 ہزار لوگ تھے جس میں ان کی تقاریر جن میں شہباز گل کی تقریر اس قابل نہیں اور نہ ہی تہذیب اجازت دیتی ہے کہ سپرد قرطاس کی جائے۔ سواتی کی تقریر کے بعد تو بھارت کو اپنی افواج میں کمی کر لینی چاہئے۔ عمران خان کے یوٹرن سے مجھے اس شخص کی بات یاد آ گئی جو چودھری کی طرف سے ناجائز اور بہت زیادہ پذیرائی پرغلط فہمی میں اس قدر مبتلا ہو گیا کہ رشتہ داری کا تقاضا ہی کر ڈالا، چودھری ششدر رہ گیا، اپنے ملازمین کو بلایا اور اس کو اس کی اوقات یاد دلا دی۔ جوتے، تھپڑ اور ٹھڈے کھانے کے دوران گرا اور اٹھ کر کہنے لگا ”پھر آپ کی طرف سے ناں ہی سمجھوں“۔ عمران نیازی پنڈی گئے تمام تر اداکاری اور بھرپور زور لگانے کے بعد جب واپسی سواری والے تانگے پر
کرنا پڑی تو انتخابات کی تاریخ، آرمی چیف کی تعیناتی پر فرماتے ہیں کہ آپ کی طرف سے ناں ہی سمجھوں۔ گویا اسمبلی تڑوانے کی تڑی لگانے والے اب اسمبلیوں سے واپس آنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ نیازی صاحب کی مثال کسی سیاسی یا حقیقی زندگی سے نہیں ملتی لہٰذا فلموں کا سہارا لینا پڑتا ہے وہ بھی پھنے خاں ہے۔ نئے آرمی چیف کی تعیناتی میں رکاوٹ تو ہو سکتی ہے تعیناتی میں عمران نیازی کا کوئی کردار نہیں ہو سکتا وہ ایک سابق ایم این اے ہے۔ علوی صدر مملکت ہے پی ٹی آئی کا صدر نہیں آئینی طور پر وہ سوائے وزیراعظم کی ایڈوائس ماننے کے کچھ بھی کرتا وہ غیر آئینی ہوتا۔ اگر عمران سے مشورہ بھی کیا ہے تو غیر آئینی ہے۔ بہرحال سوشل میڈیا ونگ پر عمران کے لونڈے لپاٹے جن میں عمر کی قید نہیں اور بقول مبشر لقمان کے عمران کے بھونکنے والے کتے یہ ٹرینڈ چلا رہے ہیں کہ نئے آرمی چیف کی تقرری کی سمری پر صدر نے دستخط عمران کی منظوری سے کیے ہیں۔ دراصل آئین میں گنجائش نہ تھی اور عمران نیازی فرما رہے تھے کہ میں اور علوی آئین کے اندر رہ کر کھیلیں گے گویا قوم نیزے کی انی پر تھی اور موصوف کھیلوں میں لگے ہوئے تھے۔ اب ان کے بے مثال جلسے کی بات کر لیں۔ 1986 میں لاہور کی آبادی 40 لاکھ اور وطن عزیز کی 10 کروڑ سے زائد نہ تھی مگر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید جس دن 10 اپریل 1986 کو لاہور آئیں ایئرپورٹ سے لے کر شاہدرہ اور مینار پاکستان تک غرض کہ آزادی چوک میں آنے والے تمام راستوں میں کوئی عمارت کوئی درخت کوئی دیوار کوئی سواری نہ تھی جس پر لوگ نہ ہوں صرف وہی نہیں تھا جو دنیا میں نہ ہو یا ڈاکٹر نے انستھیزیا دے رکھا ہو ورنہ اس دن دنیا میں صرف بی بی کا استقبال تھا۔ مینار پاکستان کی گراؤنڈ میں ایک کرسی نہ تھی انسانوں کے حقیقی سمندر سے کراچی کے سمندر کی یاد آئی۔ فیصل آباد اور گوجرانوالہ میں بھی یہی صورت حال تھی۔ گویا اگر کوئی 20 لاکھ کہے تو بھی مان جاؤ اگر کوئی ایک کروڑ کہے تو بھی مان جاؤ۔ یہ گنتی شمار میں نہیں آ سکتی۔ بلکہ اگر محترمہ بے نظیر بھٹو کو چاہئے تھا کسی جنگل اور ریگستان میں جہاز اتارتیں وہاں بھی اس سے زیادہ خلق خدا ان کا استقبال کرتی پھر 2007 نومبر میں جب بی بی صاحبہ آئیں تو بابر اعوان قاعدے کلیے سے بتا رہے تھے کہ اتنی جگہ ایک آدمی لیتا ہے اور ایئر پورٹ سے جلسہ گاہ تک اتنے لوگ تھے لہٰذا کم از کم 30 لاکھ لوگ تھے وہ لوگ ورکر تھے بھٹو خاندان پر بھروسہ اور ان سے عشق کرتے تھے۔گوجرانوالہ میں بی بی صاحبہ نے کہا بھائیو اور بہنو انسان جتنا بھی گر جائے اس کو کتے سے تشبیہ نہیں دینی چاہئے اور بیٹھ گئیں، پھر مردہ باد ضیا مردہ باد کے نعرے لگے جبکہ عمران نیازی بدتمیز، بدتہذیبی کا معلم ہے۔ اس کا شہباز گل کہتا ہے مارتے بہت ہیں اور ڈر کے مارے شلوار اب بھی نہیں پہن رہا۔ جاؤ داستان سنو پیپلز پارٹی کے لوگوں کی، ایم آر ڈی ورکروں کی کوڑے، قلعے، لاٹھیاں، پھانسیاں، قیدیں، جلاوطنیاں اور جرم بھی کوئی نہیں مگر وطن اور ریاست کے خلاف بات نہیں کی۔ عمران نیازی صاحب نہیں معلوم نئے آرمی چیف کی پالیسی کیا ہو گی لیکن یہ پہلے چار سے مختلف ہیں سیاسی اعتبار سے نیازی صاحب کی کوشش ہے کہ احتجاج کا رجحان نئے انتخابات تک جاری رہے اور بے شرمی کی انتہا ہے کہ ایک طرف نئے آرمی چیف کی منظوری کا ”سہرا“ اپنے سر لے رہے ہیں دوسری طرف اپنے شیروؤں سے ان کے گھر کے متعلق ریمارکس اور پرانی پکچرز جو نیازی کے نمائندوں کے ہی ساتھ ہیں کو غلط رنگ میں پیش کر رہے ہیں سب بکواس ہے کہ مقبول رہنما ہے یہ صرف سوشل میڈیا اور ٹوئٹر پر مقبول ہے مقبولیت میں نے اوپر بتا دی۔ عمران نیازی کی واحد جدوجہد کا مطمع نظر صرف اقتدار ہے اور وہ بھی کسی استحقاق کے بغیر۔ ورنہ آج بھی چلتے لمحے میں ن لیگ مقبول ترین جماعت ہے پیپلز پارٹی واحد جمہوری جماعت ہے عمران نیازی سو جنم بھی لے تو اس کی جدو جہد اور پیپلز پارٹی کی جدوجہد کا موازنہ نہیں ہو سکتا۔ آنے والے وقت میں بلاول بھٹو اور مریم نواز مقبول ترین قیادتیں ہوں گی۔