آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد قومی سیاست میں سکون آیا ہی تھا کہ عمران خان نے احتجاجی جلسہ میں اہم فیصلہ کرنے کا اعلان کردیا۔ اس اہم تعیناتی پر تحریک انصاف نے جس رویے کا مظاہرہ کیا اور ملک میں جو صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی اس کی حمایت ہر گز نہیں کی جاسکتی ہے۔تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ہفتے کے روز راولپنڈی میں احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اسمبلیوں سے استعفے دینے جارہے ہیں۔ انہوں نے پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں سے بھی استعفے دینے کا اعلان کیا ہے۔ عمران خان جب بھی قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ کرتے ان کے ناقدین انھیں پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا کہتے، لیکن اب عمران خان نے اپنے ناقدین اور سیاسی مخالفین کو اس کا جواب تو دے دیا ہے، لیکن حسبِ ِ روایت یہ اعلان بھی ابہام کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرپٹ نظام کا حصہ نہیں بنیں گے اس لیے تمام وزرائے اعلیٰ کے ساتھ بات کی ہے، حتمی تاریخ کا اعلان پارلیمانی پارٹی سے مشاورت کے بعد کروں گا۔ اس سے بظاہر تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ اعلان عمران خان کی اپنی خواہش تھی اور ابھی مشاورت ہونی ہے اور فیصلہ ہونا باقی ہے۔ مشاورت کا عمل کتنا طویل ہوگا اور اس کے بعد کتنے لوگ استعفے دینے کے لیے تیار ہوں گے اور کتنے نہیں ہوں گے اس کا انتظار ہے۔ اگرمشاورت کا یہ عمل ایک دو ماہ بھی چلتا ہے تو قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ بے معنی ہوجائے گا۔ اگر اعلان سے پہلے ہی استعفوں سے متعلق مشاورت کر لی جاتی اور جلسے میں اعلان کردیا جاتا تو عمران خان کے سیاسی مخالفین کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوتا۔ 2014 ء میں بھی اسلام آباد میں دھرنے کے دوران تحریک انصاف نے اسمبلیوں سے استعفے دیئے تھے اور بعد میں انھیں اسمبلیوں میں واپس جانا پڑا تھا، اور اس کے بعد ہی خواجہ آصف کا یہ جملہ کہ ”کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے“ زبان زد عام ہوا تھا۔ اس طرح ابھی 2022 ء میں بھی تحریک انصاف نے قومی اسمبلی سے استعفے دیے ہیں۔ جن اراکین کے استعفے منظور ہوئے وہ بھی احتجاج کررہے ہیں کہ کیوں منظور ہوئے اور جن کے منظور نہیں ہوئے وہ بھی سراپا احتجاج ہیں۔ اب
عمران خان کے سیاسی مخالفین کی اُمیدوں کا مرکز پنجاب کے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی ہیں، جن کے بارے میں یہ پختہ رائے ہے کہ وہ اقتدار کے پانی کی مچھلی ہیں اور وہ پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے سفارش نہیں کریں گے۔ ایک نیوز چینل پر گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی حامد میر نے یہ خبر بھی دی کہ چوہدری پرویز الٰہی کی فیملی کا بھی ان پر بہت دباؤ ہے کہ انہیں عمران خان کا ساتھ ہرگز نہیں چھوڑنا چاہئے۔ لیکن حامد میر نے یہ بات دانستہ بیان نہیں کی کہ پرویز مشرف کی حمایت میں بھی یہ خاندان اسی طرح کمر بستہ تھا لیکن جب پرویز مشرف پر بُرا وقت آیاتو اس خاندان کا کردار سب کے سامنے ہے۔
سیاسی جماعتوں کی اقتدار پر قبضے کی خواہش اورمخالفین کو زچ کرنے کی خواہش نے وطن عزیز کی معیشت اور تجارت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ 80ء کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز، جو آج یک جان دو قالب ہیں، کی مخالفت نے ملک کی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا تھا۔ نئے کارخانے لگانے کا عمل اُس دور میں جتنا مشکل تھا شاید ہی کبھی ہو۔ وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور پنجاب میں مسلم لیگ نواز برسر اقتدار تھی۔نئے کارخانوں کے لیے منظوری دینے والے کچھ ادارے وفاق کے ماتحت تھے تو چند ایک صوبائی حکومت کے ماتحت۔صنعت کار کارخانے کی منظوری کے لیے ہی چکر لگا لگا کر بد حال ہوجاتا تھا۔ لیکن یہ سیاسی جنگ آخر کار میثاق جمہوریت پر منتج ہوئی جب کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف سیاسی بُردباری کے عروج پر تھے۔
بنیادی طور پر سیاسی جماعتوں کے نام پر ملک پر جاگیرداروں، وڈیروں،سرمایہ داروں اور پراپرٹی ٹائیکون کا قبضہ ہے۔ عوام کو غیر متعلقہ معاملات میں مسلسل اُلجھا کر رکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر پچھلے دنوں یہ موضوع کہ آرمی چیف کون ہوگا؟ ہر دفتر کے چوکیدار سے لے کر اعلیٰ افسر تک اس پر فکر مند تھا۔ اسی طرح ایک مسئلہ عمران خان کے ہیلی کاپٹر کا تھا کہ لاہور سے جلسہ گاہ آمد پر اُن کا ہیلی کاپٹر کہاں لینڈ کرے گا؟ عمران خان اپنے دورِ اقتدار میں روزانہ ہیلی کاپٹر پر وزیر اعظم ہاؤس سے بنی گالا ہیلی کاپٹر پر سفر کرتے رہے ہیں، جو ان کی حالیہ جلسہ گاہ سے دس کلو میٹر سے بھی کم فاصلے پر ہے۔ اگر ان کا ہیلی کاپٹر وہیں بنی گالا میں لینڈ کرجاتا تو کون سی قیامت آجاتی؟ لیکن ایک ہیجان اور اضطراب ہر وقت پیدا رکھنا ہماری سیاسی جماعتوں کا وتیرہ ہے جس پر وہ ”استقامت“ کے ساتھ ڈٹے ہوئی ہیں۔ مالی بدعنوانیوں کے اتنے بڑے بڑے سکینڈل آنے کے باوجود بھی ان کے چہروں پر ملال اور شرمندگی کے آثار دور دور تک نہیں ہیں۔ ایون فیلڈ فلیٹس ہوں، سیلاب زدگان کی امدادی رقوم میں خرد برد ہو، حکومتی کارکردگی ہو، چپڑاسیوں اور فالودے والوں کے اکاؤنٹ میں اربوں روپے کا لین دین ہو، غیر ملکی سربراہان کی جانب سے ملنے والے قیمتی تحفوں کی بازار میں فروخت ہو، یہ سب انہوں نے اپنا حق سمجھ کر انجام دیا ہے۔
نہ جانے کب اس ملک میں لوٹ مار کرنے والوں کے بجائے سماجی خدمت کا جذبہ رکھنے والے سیاستدان آگے آئیں گے؟
یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر
تھا جس کا انتظار یہ وہ سحر تو نہیں