اب جب کہ ضمنی بجٹ آ نے کی با تیں ہو رہی ہیں،مشیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ سپلیمنٹری بجٹ میں نئے ٹیکس نہیں لگائے جائیں گے۔ ٹیکسوں سے مستثنیٰ بعض شعبوں کا استثنا ختم کیا جائے گا۔ مشیر خزانہ کی اس بات سے یہ ثابت ہوا کہ حکومت ایک ضمنی بجٹ لانے والی ہے، اور جہاں تک ٹیکس لگانے یا نہ لگانے کی بات ہے تو یہ واضح ہے کہ ریونیو ریسورسز میں کچھ رد وبدل اگر مطمع نظر نہیں تو ضمنی بجٹ لانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ وزیر خزانہ چاہے نئے ٹیکس لگائیں یا بجٹ میں دی گئی چھوٹ ختم کریں، دونوں کا نتیجہ بہرحال مہنگائی ہے، جس کا بوجھ پہلے ہی تشویشناک حد تک بڑھ چکا ہے؛ چنانچہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس میں عام آدمی کے لیے راحت کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ خوراک سمیت جنرل سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ بہت سی اشیا پر 17 فیصد جی ایس ٹی لگنے سے ان اشیا کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ حکومت نے امسال مارچ میں آئی ایم ایف سے 50 کروڑ ڈالر قرض لینے کے لیے 700 ارب روپے کے ٹیکسوں کی کٹوتی ختم کرنے اور نئے ٹیکس لگانے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ اس معاملے کے چند ہفتے بعد شوکت ترین صاحب نے وزارت خزانہ کا منصب سنبھالا تو انہوں نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں آئی ایم ایف کے اس فارمولے سے واضح اختلاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی شرائط پر عمل کرنے کا مطلب معیشت کی بربادی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے طریق سے ریونیو بڑھائیں گے، مگر چھ ماہ بعد جب آئی ایم ایف کی انہی شرائط کے ساتھ معاہدہ بحال کیا گیا کہ 350 ارب روپے کی جی ایس ٹی کٹوتی ختم کی جائے گی، بجلی کے نرخ پہلے ہی اس ادارے کی تجاویز کے مطابق کردیئے گئے ہیں ، جو معمولی سا فرق رہ گیا ہے وہ حکومت آنے والے کچھ وقت میں دور کرنے کا عندیہ دے چکی ہے۔ ظاہر ہے اس سے متوسط طبقے پر سب سے زیادہ بوجھ پڑے گا۔ علاوہ ازیں سٹیٹ بینک کی خودمختاری کے حوالے سے آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق قانون سازی کردی گئی ہے۔ دسمبر میں عالمی ادارے کے بورڈ اجلاس سے قبل اس قانون کو حتمی شکل دینا بھی طے ہے۔ ان مشکل شرائط سے بڑھنے والا مالی بوجھ عوام کے لیے پریشانی کا باعث ہے، لہٰذا اس معاملے کو اگر کوئی اُٹھاتا ہے یا اس پہ سوال کرتا ہے تو اسے سنسنی پیدا کرنے کی کوشش پر محمول نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت کے معاش فیصلے اپنے آپ میں سنسنی کا ایک بہت بڑا سبب ہیں، اس لیے حکومت کو عوام کو مطمئن کرنے کی ذمہ داری بھی پوری کرنی چاہیے۔ بتانا چاہیے کہ وہ کم آمدنی والے طبقے کو مخصوص اشیا پر جی ایس ٹی استثنیٰ کے خاتمے یا
دوسرے لفظوں میں قریب سترہ فیصد نئے ٹیکس عائد ہونے کے اثرات سے بچانے کے لیے کچھ کرسکتی ہے یا نہیں؟حکومت کی جانب سے ٹارگٹڈ سبسڈی کا بڑے زور و شور سے تذکرہ کیا جاتا ہے مگر یہ ٹارگٹڈ سبسڈی ابھی خیال وخواب ہے۔ اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں رعایت کا ایک ذریعہ یوٹیلٹی سٹورز تھے جن سے عام دنوں میں بھی اور تہواروں پر یا ماہ رمضان میں خاص طو رپر لوگ استفادہ کرتے تھے، مگر حالیہ کچھ عرصے میں یوٹیلٹی سٹوروں پر اشیا کے نرخ ہوشربا حد تک بڑھادیئے گئے ہیں۔ یہ سبسڈیز کم یا ختم کرنے کی عالمی مالیاتی ادارے کی تجویز کے تحت کیا گیا اقدام ہے جبکہ حکومت اس کی تشریح یوں کرتی آئی ہے کہ اشیا پر سبسڈیز کے اس طریقہ کار سے زراعانت اصل حقدار طبقے تک نہیں پہنچتی۔ حکومت نے حقدار طبقے تک براہِ راست رسائی کے لیے اپنا ہی ایک انسٹرومنٹ بنایا ہے جس میں لوگوں کو رجسٹرڈ کیا جائے گا پھر وہ رجسٹرڈ دکاندار سے سامان خریدیں گے اور آٹا، گھی اور دال پر تیس فیصد رعایت دی جائے گی۔ یہ پروگرام چھ ماہ کے لیے جاری کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ بادی النظر میں یہ رواں مالی سال تک کے لیے ہے مگر اس منصوبے کا آغاز ہی اس کے انجام کا پتا دے رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ قرض معاہدہ بحال کرنے کے ملکی معاشی تشخص پر کیا اثرات مرتب ہوںگے؟ یہ کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک جیسے قرض دہندگان سے بھی پاکستان کو قرض حاصل کرنے میں آسانی ہوگی، مگر ایک قرض اگر دوسرے بہت سے قرضوں کی راہیں کھولتا ہو تو اسے معیشت کے لیے مثبت نہیں سمجھا جاسکتا۔ اسے تو معیشت کو مزید زیر بار لانے کا ایک ذریعہ تصور کرنا چاہیے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات سے اگر معیشت کے امیج میں کوئی بہتری آتی ہے تو اسے غیرملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی اور صنعت و پیداوار کے شعبوں میں ترقی کی صورت میں نظر آنا چاہیے۔ اگر آئی ایم ایف پروگرام ملک میں صنعتی پیداوار اور پائیدار معاشی ترقی کی کوئی صورت پیدا کیے بغیر صرف مزید قرض لینے میں ہی آسانی پیدا کرتا ہے تو یہ معیشت کے لیے دام ہم رنگ زمین ہے۔ ہمارے ملک، معیشت اور عوام کو ایسے معاشی منصوبوں کی ضرورت ہے جو ہمیں حقیقی ترقی اور معاشی استحکام اور خودمختاری کی راہ دکھاسکیں۔ قرض برائے قرض کا نتیجہ ملک اور معیشت کی خودمختاری پر سمجھوتے کرنے اور عوام کے لیے زندگی مزید دُوبھر کرنے کی صورت نکلتا ہے۔ اور یہی وہ با ت ہے جس کی بناء پر سود کا حرام قرار دیا گیا ہے۔ ہما ری حا لت یہ ہو چکی ہے کہ ہم قر ض مل جا نے کو اپنی کا میا بی سمجھتے ہیں۔ سو د ادا کرتے کرتے بھو ل جا تے ہیں کہ اصل رقم بھی تو ادا کر نی ہے۔ اس سلسلے میں ہما رے وزیرِ اعظم ہمیں تسلیا ں دیتے ہیں کہ اگر نوا ز شریف اور آ صف زرداری سے ہم لوٹی ہو ئی آ دھی دو لت بھی وا پس لے آ تے ہیں تو آ ئی ایم ایف کا پورا قرضہ ادا ہو جا ئے گا۔ وہ بھو ل جا تے ہیںکہ تا حال تو حکو مت ان سے یہ تسلیم ہی نہیں کروا سکی کہ انہو ں نے ملکی دو لت لو ٹی ہے۔ نہ جا نے کیو ں وزیرِ اعظم صا حب یہ نہیں سمجھ پا تے کہ خو د ان کی اپنی پا رٹی میں کا لی بھیڑیں مو جو د ہیں۔ اور یہ کہ یہ کالی بھیڑیں بھی ملکی دو لت لو ٹنے میں برابر کی ملو ث ہیں۔ یقینی با ت تو یہ ہے کہ جب تک ان کا لی بھیڑوں کا صفا یا نہیں ہو تا، لو ٹی ہو ئی ملکی دولت وا پس لا نے کا امر ایک خواب ہی رہیگا۔ بہر حا ل زمینی حقا ئق یہ ہیںکہ معاشی استحکام ترقی کے مواقع سے منسلک ہے؛ چنانچہ قرض کی قسط مل جانے سے معاشی ٹیم کی کارکردگی ثابت نہیں ہوتی، نہ ہی یہ حکومت کا کوئی معرکہ ہے۔ حکومت کا کارنامہ تو ان حقیقی ترقیاتی منصوبوں کو سمجھا جائے گا جو صنعتی پیداوار، روزگار کے مواقع اور ذرائع آمدنی میں اضافے کا سبب بنیں گے۔